ذہنی معذور بچوں کی تعلیم و تربیت(۲)

ڈاکٹر سجاد حیدر

گذشتہ مضمون میں ہم نے معذور بچوں کی تعلیم اور ان کی ذہنی صلاحیتوں کے ارتقاء کے سلسلہ میں کچھ عملی قسم کی باتیں عرض کی تھیں۔ اس مضمون میں ہم چند ایسی اصولی باتیں پیش کریں گے جن کا استعمال ان حالات میں بہ ہر حال ضروری ہے۔ سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ والدین کی مکمل توجہ، نگہداشت، شفقت اور کی شخصیت میں خوبصورت رنگ بھرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ پیدائش سے تقریباً ۳ سال تک بچے ان کے لطف و کرم اور مستقل توجہ کے محتاج ہوتے ہیں تاکہ ادراک و شعور اور ذہانت کی بنیادیں قائم ہوجائیں جن پر انسانی زندگی کی پختہ عمارت اتنی بلند ہوتی ہے کہ عقل و دانش کی تابناکی سے منزلِ مقصود کے نشان چھپ نہ سکیں۔

فطرت نے بچوں میں تجسس، تحقیق اور معصومانہ شوق کو ذہنی پرورش کا اہم جز قرار دیا ہے۔ اگر والدین اس فطری شوق کو تعلیم و تربیت میں بروئے کار لائیں تو ذہنی ارتقاء کی منزلیں بآسانی طے ہوسکتی ہیں۔ مثال کے طور پر بچے کے ماحوں میں مختلف رنگوں، شکلوں اور مختلف آوازوں والے کھلونے اس کی دلچسپی اور تجسس کو ابھاریں گے۔

والدین کوبچوں کے شوق، مسکراہٹوںاور قہقہوں میں شریک ہوکر ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ بچوں کے لیے شفقت بھری گود، نرم و گرم جسمانی لمس میں پیار کے جھولے، آنکھوں آنکھوں میں رحمت و لطف و کرم کے پیغامات، میٹھی لوری اور مسکراہٹوں میں امیدوں کی بہاریں ذہنی پرورش کے بناؤ سنگھار کے ضروری اجزاء ہیں۔ اس سے والدین اور بچوں میں ایک معصوم اعتبار کا رشتہ استوار ہوجاتا ہے، جس میں خوشگوار مستقبل کے امید افزا رنگ جھلکنے لگتے ہیں۔

جہاں فضا اجڑی اجڑی اور بیزار ہو، وہاں فصلِ گل مہکنے نہیں پاتی۔ اور ناامیدی و ناکامی کے دریچے کھل جاتے ہیں۔ اداسی چھائی رہتی ہے۔ جہاں بے تعلقی رینگتی ہو، وہاں تعلیم و تربیت بے اثر ثابت ہوتی ہے۔

تعلیم و تربیت… دماغ کی اہمیت

خالق نے انسان کے دوش پر حق و باطل میں تمیز کرنے اور معاشرہ میں نظم و نسق و امن و سلامتی قائم کرنے کی ذمہ داریاں ڈال دی ہیں۔ اس لیے خالق نے انسان کے دماغ کی خصوصی ساخت میں ذہانت کی درجہ بدرجہ ترقی کے لیے ہر موقعہ پر احسن طور سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیتیں بھی پیدا کیں۔ بچوں کے دماغ و اعصاب کے ماہر ڈاکٹروں نے تجربات سے ثابت کیا ہے کہ نومولود بچہ جب آنکھیں کھول کر ماں کے چہرے کو دیکھتا ہے تو کیمیائی برقی رو،اس کے دماغ پر ماں کے شفقت بھرے چہرے کے نقش بنادیتی ہے جو تا حیات قائم رہتے ہیں۔ اسی طرح پیار بھری آوازیں کانوں کے ذریعہ دماغ میں کیمیائی برقی لہریں پیدا کرکے آواز کی گہری لکیریں بنا کر انھیں محفوظ کرلیتی ہیں۔ دیگر محسوسات کے دریچوں کے ذریعے دماغ میں نت نئی کہکشائیں ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرکے جگمگانے لگتی ہیں۔

نومولود بچے کے دماغ میں تقریباً کم و بیش سو بیلین دماغی خلیے، ۵۰ یا ۶۰ ٹریلین کیمیائی و برقی رابطے ایک حصے کا دوسرے سے تعلق قائم کرنے کے لیے بن جاتے ہیں۔ اگر حالات موافق ہوں اور ذہنی نشو ونما کے سامان مہیا کرنے کے لیے ماحول شفقت اور پیار بھری تعلیم و تربیت اور نظم و نسق سے آراستہ ہو، تو ایک مہینہ کی عمر میں دماغ کے خلیے تقریباً ایک ہزار ٹریلین کیمیائی برقی رابطے قائم کرلیتے ہیں۔ اور دن بہ دن پرانے اور نئے محسوسات، تجربات، معلومات اور مشاہدات ان رابطوں کو مضبوط کرتے چلے جاتے ہیں۔ دماغ میں نئے راستے بنتے ہیں۔ پرانے راستوں پر نئے گہرے نقوش انہیں وسیع اور قائم و دائم بنادیتے ہیں۔

اگر ابتدائی عمر میں محسوسات، تجربات، معلومات اور مشاہدات میں کمی ہو یا نشو ونما کے تقاضوں کے مطابق ماحول سازگار نہ ہو یا حواسِ خمسہ کے دریچے آدھے کھلے رکھے جائیں یا کسی وجہ سے بند ہوجائیں، یا اگر دریچے تو کھلے ہوں لیکن ماحول تپتے صحرا کی مانند سائیں سائیں کرتا ہو تو دماغ میں جو رابطے قائم کرنے کی صلاحیت ہے اس کی کونپلیں کھلنے سے پہلے مرجھانا شروع کردیں گی۔

بنیادی اصول

(۱) ماحول میں گہما گہمی، پیار اورشفقت، تعلقِ خاطر اور امید پرور احساسات کا راج رہنا چاہیے۔

(۲) بچے کو آگاہی ہو ، قول و فعل و اظہارِ جذبات سے سبھی متعلقہ گھر والے پیار اور نگہداشت کرتے ہیں۔ یہ گمان نہ کیجیے کہ پیار اور نفرت میں بچے کو تمیز نہیں۔ اس فرق سے تو کتے کا پلہ بھی آگاہ ہوتا ہے اور یہ تو اشرف المخلوقات انسان کا بچہ ہے۔

(۳) پروگرام شروع کرنے سے پہلے موجودہ حالت کا اندازہ ضروری ہے۔ زیادہ تفصیل و نفاست کی ضرورت نہیں۔ صرف اتنا پتہ چل جائے کہ بچہ کیا کرسکتا ہے اور اسے کیا کرنا چاہیے۔ جلد ہی اندازہ ہوجائے گا کہ پروگرام سے بچے کی ترقی کی رفتار کیا ہے۔

(۴) معذور بچوں کی ہر قسم کی نشو ونما کی رفتار نارمل بچوں سے کم سے بھی کم تر ہوتی ہے۔ اس حقیقت کے پیشِ نظر منزل کا چناؤ ایسا ہونا چاہیے کہ اس تک رسائی ممکن ہوسکے۔

(۵) صبر، ہمت، استقلال، حوصلہ اور سدا بہار امید کا دامن کبھی نہ چھوڑیں۔ قادرِ مطلق کی ذات رحیم و کریم اور مسبب الاسباب ہے۔

(۶) پیار اور شفقت، تعریف و تحسین کے برموقع اظہار میں کنجوسی نہ برتیں اور نہ ہی الفاظ سے درشتی کی بو آئے۔ ورنہ بچہ پیار میں غصہ کی آمیزش کو پہچان لے گا۔

(۷) بچے کے شوق و تجسس کو کھیل، تماشے اور توجہ اور دوسرے بچوں کے ساتھ پیار بھرے لگاؤ کے ذریعہ بیدار رکھیے۔

(۸) گھر کے افراد کے برتاؤ اور طور رطریقوں کا اثر چھوٹے نارمل بچوں اور معذور بچوں پر تقریباً ایک جیسا ہوتا ہے۔ اس لیے والدین اور دیگر ذمہ دار افراد اگر احسن نمونہ پیش کریں تو معذور بچوں پر صحت مند اثر ہوگا۔

(۹) اگر دوسرے چھوٹے نارمل بچے اسکول سے آکر لکھائی پڑھائی کے کام اور اتفاق سے کھیل کود میں مشغول رہیں تو معذور بچے بھی مناسب مشقیں کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں اور بہن بھائیوں کے ساتھ حسبِ صلاحیت کھیل کود میں شمولیت کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس شمولیت کی حوصلہ افزائی کریں۔

(۱۰) معذور بچے کے پروگرام کو اس کی مخصوص ضروریات کے مطابق انفرادی حیثیت سے مرتب کریں۔ چھوٹے چھوٹے مقاصد کو درجہ بدرجہ ترتیب دیں اور ہر قدم پر کامیابی دوسرے قدم کے لیے بنیاد کا کام دے گی۔

(۱۱) رنگ دار تصویروں، آواز والے کھلونوں، جن کی وجہ سے انہماک بڑھے، شوق تازہ رہے اور سبق خوشگوار معلوم ہو، ان کو استعمال میں لائیں۔ دیکھا گیا ہے بڑے شیشے کے سامنے یا بچے کی اپنی تصویروں سے بھی دلچسپی بڑھتی ہے۔

(۱۲) ذہنی معذوری کی وجہ سے اگر بڑوں کی زبان سمجھنے یا دورانِ سبق ہدایت سمجھنے میں بچے کو دقت پیش آتی ہو تو مایوسی اور گھبراہٹ کا اظہار نہ کریں۔ استقلال، صبر اور حوصلہ سے سبق کا ایک قدم آسان کردیں۔ یا ترتیب میں قدرے تبدیلی کرکے سبق کو ایک کھیل کی شکل میں خوشگوار بنائیں۔

(۱۳) سبق میں حد بندی اور مناسب وقت کا خیال رکھیں۔ معذوری کی وجہ سے توجہ محدود ہوجاتی ہے۔ جس سے ارتکاز کم ہوتا ہے۔ زیادہ وقت صرف کرنے سے بچہ جھنجھلا جاتا ہے اور سبق کا شوق پھیکا پڑنا شروع ہوجاتا ہے اس لیے اس کی توجہ کی حد کے مطابق ہی سبق کو مرتب کریں۔

(۱۴) کامیابی سے بڑھ کر کوئی خوش کن لذت نہیں۔ کوشش کریں کہ معذور بچہ تھوڑے تھوڑے قدموں کے ساتھ کامیابی سے خوشی و فرحت حاصل کرکے منزل کی طرف بڑھے۔

(۱۵) کامیابی پر تعریف کرنا اور شاباشی دینا سبق کا نہایت ہی اہم حصہ ہے۔

(۱۶) دوسرے بچوں اور بہن بھائیوں کو چاہیے کہ سوشل سرگرمیوں میں معذور بچوں کو ان کے معیار اور صلاحیت کو مدنظر رکھ کر ضرور شامل کریں تاکہ گھر میں یہ بچے اپنے آپ کو نظر انداز ہوتا نہ سمجھیں۔

(۱۷) بعض بچے دماغ مجروح ہونے کی وجہ سے حرکات میں ضرورت سے زیادہ تیز ہوتے ہیں اور ماحول میں ہر ایک چیز، آواز اور حرکات کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں۔ ضروری و غیر ضروری حرکات میں تمیز نہیں کرسکتے۔ ایسے بچوں کے لیے سبق کے دوران ماحول بہت ہی سادہ ہونا چاہیے۔ حتی الوسع علیحدہ ہو۔ دوسروں کی حرکات ، مشغولیات سے دور تاکہ بچہ زیادہ سے زیادہ توجہ سبق کی طرف دے سکے۔ سبق میں بھی زیادہ مختلف رنگوں یا ضرورت سے زیادہ سامان کو بیک وقت پیش نہ کریں۔ جہاں تک ہوسکے ماحول پرسکون ہونا چاہیے۔ سبق دینے والے کا لباس بھی سادہ ہونا چاہیے تاکہ دھیان سبق کے بجائے لباس کے مختلف رنگوں کے ڈیزائن کی طرف نہ جائے۔

(ختم شد)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں