راز

قانتہ رابعہ

’’اگر اس نے اپنے گھربلاہی لیاہے تو گھر والے کو میرا بہت بہت سلام کہنا۔‘‘ عرشیہ نے میری حج کی درخواست کی منظوری پر تبصرہ کیا۔ ’’گھر والا کون سا گھر میں محدودہے! جہاں بھی سلام کروگی پہنچ جائے گا۔ گھر والا ہرجگہ پایاجاتاہے۔‘‘ بے ساختہ میں نے جواب دیااورنہلے پہ دہلا والی کیفیت سامنے آئی۔
’’یہ تو ٹھیک ہے، مگر بادشاہوں کے بادشاہ نے اپنا دارالخلافہ بھی تو خود ہی منتخب کیاہے۔ تم نے سنا نہیں قرآن میں مکہ کے لیے’’اُم القریٰ‘‘ کا لفظ ہے، جسے میٹروپول کہاجاتاہے، اور تم جانتی ہو میٹروپول ہو یا دارالحکومت … اس کی الگ ہی شان ہوتی ہے۔ ہم جیسے ازلی محروموں کی آخری آرام گاہ…!! عرشیہ کے چہرے پر دکھ ہی دکھ تھا۔
لمحہ بھر کے لئے میں گنگ ہوگئی! بھلا اس کا بھی کوئی جواب بنتاہے! اورعرشیہ جب شادی سے پہلے بھی اکیلے ہونے کادکھ سہہ رہی تھی اور ’’کم بچے بدحال گھرانہ‘‘ جیسا تاریخی جملہ اس کے لبوں سے ادا ہواتھا۔
کوئی سوچ سکتاہے کہ کس قدر ترسی ہوئی تھی!! ایک ماہ… دوماہ… سال، دو سال…دس سال… یہ دس صدیاں تھیں جو اس نے بچے کی آس و امید میں گزار دیں۔ گھروالوں نے ہزار مصروفیات کا جال اس کے لئے پھیلایامگرگھر کے ساتھ ساتھ اس کا دل بھی خالی ہوتاگیا۔
اب اردگرد جاننے والے عموماً بچوں کی کسی قسم کی کوئی خبر،خواہ خوشی کی ہو یا غمی کی، اس سے ڈسکس نہیں کرتے تھے۔
اگر وہ عزیز واقارب کے ہاں جاتی، مائوں کی بھرپور کوشش ہوتی کہ کسی بچے کی پرچھائیں بھی اسے نظرنہ آئے۔ اس رویّے نے اسے شدت پسندبنادیا۔ بولنے پہ آتی تو گھنٹوں بغیر وقفے کے بولتی۔ چپ کا روزہ رکھتی تو پہروں بیت جاتے۔گھر والوں کابچہ گود میں لینے کا مشورہ اُس نے سپاٹ چہرے کے ساتھ سنا اور ٹال دیا۔
کہیں میلاد یا درس کی خبر پاتی تو کبھی سننے کی نیت سے نہ جاتی۔ گوتم بدھ بنی ایک طرف بیٹھی رہتی۔ ہاں دعا کے لئے بہت خشوع وخضوع سے ہاتھ پھیلادیتی… اس کی دورانِ دعا آہیں، سسکیاں، رونا، گڑگڑانا سب کو رُلاجاتا…قدرت کے دیئے اس کے دکھ پر سب دکھی تھے۔
اور اگر بدقسمتی سے کسی میلاد، درس یا قرآن خوانی میں،اسے پیغام نہ ملتا تو بہت خفا ہوتی… ٹھنڈی آہیں بھرتی۔ ’’کھانے کی نہ پینے کی، ایک ہی آرزو ہے… کوئی دوسرا ہٹ تو ملے … سنا ہے جہاں چالیس لوگ دعا کے لیے جمع ہوں، وہاں ایک ولی ضرور ہوتا ہے۔ اسی آس پر میں بدنصیب پہنچ جاتی ہوں کہ ان چالیس عورتوں میں ایک تو ولیہ ضرور ہوگی۔ شاید میرا اللہ اسی کی دعا کے طفیل میری مراد پوری کردے۔‘‘
اس کاگلہ شکوہ سن کر محض یادداشت کی کمزوری کی بنا پر اسے نہ بلانے والا شرمندگی کے سمندر میں ڈوب ڈوب جاتا۔ اب جب عرشیہ کو میری حج پر روانگی کاپتا چلاتو کپڑے، مٹھائی اور طرح طرح کے تحفے تحائف کے ساتھ لدی پھندی آئی۔ عرشیہ میری کلاس فیلو اوردوست تھی۔
’’اتنے بھاری بھرکم تحائف؟‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔ ’’حج پر جانے کے لیے زادِ راہ صرف تقویٰ ہوتاہے۔ گزری زندگی کے گناہوں کا احساس… ندامت… شرمندگی دنیاداری کے جھمیلوں پر، غلاظتوںسے لتھڑی زندگی… اگر یہی بوجھ کہ اس نے مجھے یہ دیا اور مجھے وہاں سے یہ لانا ہے…اور پھر ان کے تحفے تحائف کی قیمتوں کے تخمینے لگائے جائیں… وہاں پر اعصاب اسی بوجھ سے شل رہیں، ریالوں کو اپنے ملک کی کرنسی سے ضرب کرکرکے توانائیاں ہلکان کرلیں… خودسوچواس سے بڑھ کر کون خطاکار ہوگا کہ دنیا تو ساتھ ہی سرپرسوارکرکے لے گیا…‘‘ شدت جذبات سے میری آواز پھٹ رہی تھی۔
’’ہاں یہ تو ٹھیک ہے۔‘‘ عرشیہ نے آہستہ سے کہا۔ ’’لیکن تم جانتی ہو مجھے تم سے ایسی کوئی غرض نہیں…‘‘
’’پھر بھی… بس میں اسے مناسب نہیں سمجھتی، تم برا نہ ماننا میںایک یہ سفید دوپٹہ لے رہی ہوں، باقی تم واپس لے لو اور سمجھو میں نے یہ تحائف قبول کیے۔‘‘
میں نے خوب صورت سا سفید ملتانی کڑھائی والا دوپٹہ الگ کیا اور باقی پیکٹ اسے تھمائے۔
’’میں اللہ کے گھر ٹینشن فری جاناچاہتی ہوں۔ صرف اپنے دل کے غارِحرا میں اسے کھوجنے تلاشنے… نہ تحفے لوںگی نہ لائوںگی۔‘‘
’’جیسی تمہاری مرضی… لیکن میں چاہتی تھی جب تم حرم میں داحل ہو، میرے ہاتھوں کاسلاسوٹ تم نے پہناہوا ہو۔ حرام کو دیکھتے ہی پہلی دعا مانگو اور ہاتھ پھیلائو تو میرے لیے دعا مانگو…‘‘
’’پہلی دعا… یا حیرت!‘‘ دل میں سخت الجھن تھی۔ٹھیک ہے محرومی ہے لیکن یہ اچھی زبردستی ہے، میں نے سوچا۔ جوجو منصوبے بنارہی تھی، یہ مانگوں گی اور وہ مانگوںگی… سب چوپٹ…
عرشیہ نے میرے ہاتھ پکڑلیے ’’اچھی عنزہ! خانہ کعبہ کو دیکھتے ہی میرے لیے دعا مانگوگی ناں…‘‘
اِس کی جھیل جیسی آنکھوں میں دوجہاں کی حسرتیں سموئی ہوئی تھیں۔ میں نے ایک لمحہ اسے دیکھا اور کہا ’’ٹھیک ہے پہلی دعا تمہارے لیے ہی مانگوںگی، اللہ کو میری شاید یہی پسند آجائے۔‘‘ میں نے جواب دیا۔
’’ذرا دھیان سے الفاظ منتخب کرنا، ممتاز مفتی نے لکھاہے کہ وہاں دعا مانگوتو دھیان سے… قبول ہونے کے بعد پچھتاوا نہ ہوجائے۔‘‘
میںہنس پڑی ’’ہاں بے فکر رہو اور یہ بتائو کیا ابرار صاحب کی طرف سے اتنی چاہت ہے بچے کے لیے یا تمہارے اندر ہی ممتا کی بے قراری ہے؟‘‘
عرشیہ ٹھنڈی سانس بھرکے بولی ’’یہی تو رونا ہے، ابرار نے آج تک ایک لفظ نہیں کہا… اچھا نہ بُرا… میری ہر سانس پر میرا دھیان رکھنا اس کی عادت، میری ہر خواہش پوری کرنا اس کی محبت، میرا ہر دکھ سمیٹ لینا اس کی چاہت ہے۔
کاش ابرار نے کبھی تو اس پر کچھ کہاہوتا!! مجھے بس اندر ہی اندر سے یہ خوف کھائے جاتا ہے کہ عموماً مرد کبھی محرومی کااحساس دیتے ہیں، ایسا ہوا تو پھر کیا ہوگا… بس یہی سوچ کر اس وقت سے پہلے میں اللہ سے اولاد مانگ رہی ہوں کہ میری طرح وہ بھی اکیلا ہے… تین بہنوں کااکلوتا بھائی…
آج تک مجھے ابرار نے ایک دفعہ بہنوں کی خواہش پر کچھ نہیں کہا… کیا پتا کل اس کی اچھائی رہے یا نہ رہے…‘‘
احساسِ محرومی نے عرشیہ کو حد درجہ زود رنج بنادیاتھا اور اب وہ اسی زودرنجی میں مبتلاتھی۔
…٭…
بدھ کی رات جدہ کے لیے روانہ ہوئے۔ ایئرپور ٹ پر حجاج کی چیکنگ، باری کا انتظار، سامان کی کلیئرنس نے چودہ گھنٹے لیے۔ تھکاوٹ کا غلبہ اس قدر تھا کہ موبائل میں سم بدلوانے کابھی خیال نہ آیا۔ ہوٹل حرم سے کافی فاصلے پر ملا۔ وہاں سے حرم پہنچے۔ خانہ خدا پر نظر پڑتے ہی ہیبت اور جلال کی وجہ سے الفاظ کی ترتیب کھسک گئی۔
بس یہ یادرہا ’’الٰہی عرشیہ کی گود بھرنا، اسے پیارا سا بچہ دینا… جیتا جاگتا گل گوتھنا…‘‘
اپنی دعائوں کوسیکنڈلسٹ میںرکھا… پہلے عمرہ کی ادائیگی پر مشقت کامفہوم سمجھ میں آیا۔
ظہر کی نماز کے بعد فارغ ہوئے اور حرم سے باہر پائوں نکالتے ہی باہر کی دنیا اور اس دنیا کے باسی اور ان باسیوں کے مسائل یادآگئے۔
’’جلدی سے سم ڈلوائو…‘‘ میں نے رضا کا کندھا جھنجھوڑا… ’’گھر سے نکلے بتیس گھنٹے ہوچکے ہیں، کوئی خیرخبر نہ لی ہم نے، نہ دی…‘‘
شاید نیٹ ورک میں کچھ خرابی تھی، دوچار گھنٹے کے بعد امی سے بات ہوئی، انہوںنے عمرہ کی مبارکباد دی، سب کاحال احوال بتایا اور افسوس ناک خبر دی:
’’تمہاری دوست عرشیہ کاایکسڈنٹ ہوگیا ہے، بہاولپور وکٹوریہ اسپتال میں ہے۔ دعاکرنا۔‘‘
’’اوہ…‘‘ میں دُعا اور حقیقت کے اس تضاد پر بجھ کر رہ گئی۔ میں تو سمجھے بیٹھی تھی کہ حج کے بعد عرشیہ سے ملوں گی تو وہ الٹیوں اور متلی سے بدحال ملے گی۔ اللہ کی اس بے نیازی پر میں چپ کی چپ رہ گئی۔
اکتالیسویںدن گھر پہنچے۔
سب رشتہ داروں کاملنا ملانا، خوشیاں، چہچہانے کی آوازیں… رش ہی رش۔ ایسے میں ایک دم یاد آیا ’’امی عرشیہ کا کیا حال ہے؟‘‘
’’عرشیہ تو ٹھیک ہے، اس کے میاں کی سیریس حالت تھی، ان لوگوں نے مظفرگڑھ چھوڑدیا ہے… میر پور آبائی گائوں میں منتقل ہوگئے ہیں۔‘‘
’’فرصت ملتے ہی اسے کال کروںگی…‘‘ میں نے اپنے آپ کو یاد دلایا۔
فرصت وہ پرندہ ہے جو ماہر سے ماہر شکاری کے بھی قابو میں مشکل سے آتا ہے اور کہاں میرے جیسے اناڑی۔
میرے تحفے تحائف نہ لینے کے اصول پر سب نے عمل کیا۔ اب دعوتیں بھگتنا پڑرہی تھیں۔ طرح طرح کے جملے۔
’’اب دعوت پر بھی کوئی فتویٰ جڑدو… ارے بے وقوف دعوت قبول کرنا سنت نبویؐ ہے۔‘‘
بس یہ دعوتیں کھاتے کھاتے اور واپس گھرداری کے میدان میں قدم رکھتے ہی چار چھ ماہ کھسک گئے۔ عرشیہ کا کئی دفعہ خیال آیا… میسیج کیے تو ’’میسیج سینڈنگ فیلڈ‘‘ کے لفظ منہ چڑاتے۔ کال کرتی تو ناٹ رسپونڈنگ کی ٹیپ چلتی۔
…٭…
قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ ’’حتی یقارب الزماں…‘‘ زمانہ قریب آلگے گا۔
صحابہ کرامؓ نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زمانہ کیسے قریب آلگے گا؟
آپؐ نے جواب دیا ’’سال مہینوں کی طرح مہینے ہفتوں کی طرح ہفتے دنوں کی طرح اور دن گھنٹوں کی طرح گزریںگے۔‘‘
’’میں دل سے زبان سے، ہر سانس میں اس کی گواہی دیتی ہوں۔‘‘ اے اللہ آپ برحق، آپ کا نبیؐ برحق،آپ کا کلام برحق اور نبیؐ کی ہرحدیث برحق ہے۔‘‘
بھلا مجھ سے زیادہ اس کی تائید کون کرے گا جو رضا کے ہاتھ میں نئے کیلنڈر اور نئی ڈائریاں دیکھ کر گنگ رہ گئی۔
’’رضا ۲۰۰۸ء گزربھی گیا…؟؟‘‘
’’جی بیگم صاحبہ! نہ صرف گزرگیا بلکہ پورے بائیس دن اور سات گھنٹے چالیس منٹ، پچاس سکینڈ ہوگئے گزرے ہوئے۔‘‘ شرارت سے رضا نے جواب دیا۔
اتنے عرصے میں کوئی ہوش نہ رہا۔ عرشیہ سے رابطے کی کوئی صورت نہ نکلی۔ اس نے سم چینج کرلی تھی تو میںنے تو نہیں کی تھی۔ میں اکثر اِن باکس میں اس کا نام ڈھونڈتی… وہی رابطہ کرلیتی، میں بڑبڑارہی تھی۔
خط لکھنے کا ٹنٹا کون کرے گا۔ ویسے بھی میرپور میں اللہ جانے وہ ہے یا کہیں اور چلی گئی۔ نندیں تو اس کی تینوں ہی پردیس میں تھیں۔ یا اللہ کس سے اتاپتالوں؟؟
…٭…
لیبرروم میں مجھے دو گھنٹے لگے۔ ہرمعرکے پر مجھے عرشیہ یاد آئی۔ میرا تیسرا بچہ تھا… پتا نہیں اس کاکیا بنا؟
کاش اس نے جنت کا ’’مزا‘‘ لیبرروم میں میری طرح ہی چکھاہو… میرے دل کی گہرائیوں سے یہ دُعا نکلی۔
اسی دنیا کے گورکھ دھندوں میں بال بال پھنسی ہوئی تھی کہ ساہیوال میں سسرالی عزیزوں کے ہاں جانا پڑگیا۔ موقع خوشی کا تھا اور ہزار حیلوں بہانوں کے باوجود جانا پڑاکہ ساس امی کامیری شادی سے اگلے روز ہی فرمان جاری ہوگیاتھا ’’غم پہ بن بلائے اور شادی کے بلاوے پر جاناصلہ رحمی کاپہلا قدم ہے۔‘‘ لو صلہ رحمی کی سیڑھیوں پر چڑھنا ضروری ٹھیرا۔ دلہن کے تعارف پر پتاچلاکہ عرشیہ کے میکے سے ہے۔ وہاں میری نگاہیں عرشیہ کو کھوجتی رہیں۔ ایک چہرے پر نظر ٹکی… عرشیہ کی شباہت تھی۔ اس سے قبل کہ میں تصدیق کے لیے اٹھتی، وہی سانولی سلونی خاتون اٹھ کرمیری طرف آئیں:
’’کیاحال ہے تمہارا؟‘‘
شکل وصورت، انداز… کچھ بھی توعرشیہ کانہ تھا لیکن آواز ہوبہو عرشیہ کی تھی۔
میں یقین اور بے یقینی کی کیفیت میں ڈبکیاں لگاتی رہی۔ ’’تم عرشیہ ہو؟‘‘ بالآخر میں نے تھوک نگلتے ہوئے پوچھا۔ اس کا سراثبات میں ہلا۔ سدا کی سرمے، کاجل سے بھری آنکھوںمیں اب آنسو بھرے ہوئے تھے۔ بالوں میں سفیدی نظرآرہی تھی۔ آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے… بال بکھرے… بے رونق چہرہ، بازو چوڑیوں سے اور انگلیاں انگوٹھیوں سے خالی!! حالانکہ اس کے میاں ابرار کو عورت بیوی کی حیثیت سے چھنکتی مہکتی چاہیے ہوتی تھی۔
بچے سے محرومی کی اذیت کے دنوں میںبھی وہ کلیوں کی بھینی بھینی خوشبو میں بسی ہوتی۔
ہاں ایک چیز اور بھی تھی ناقابلِ یقین… اس کی گود میں بچہ تھا۔ ابرار اور عرشیہ دونوں کے نین نقش تیکھے، بال بھورے اور رنگت میں سفیدی غالب تھی۔یہ بچہ سانولا نہیں… گہرا سانولا تھا۔
بال حبشیوں کی طرح گھنگھریالے… سیاہ گچھے… نین نقش موٹے… ’’عرشیہ! یہ بے بی تمہارا ہے؟‘‘ رکتے، جھجکتے، اٹکتے میں نے سوال کیا۔ (ہوسکتا ہے اس نے گود لے لیا ہو…)
’’ہاں میرا ہی ہے، مشہود نام ہے، سات ماہ کاہے…‘‘ اس نے بچے کے منہ پر پیار کیا۔
’’عرشیہ واقعی تمہارا ہے…! یعنی ، آگے کے لفظ میرے دل و دماغ سے دور کھسک گئے۔
اس کے چہرے پر پھیکی سی مسکراہٹ آئی۔
’’ہاں واقعی میرا ہے…‘‘
’’ہائے ظالم تم نے بتایاہی نہیں۔‘‘ میں نے غصہ کیا ’’ابرابر بھائی تو بہت خوش ہوںگے، ہے ناں۔ شادی کے کتنے سال انتظار کروایا اس نے …‘‘ میں نے بازوپھیلاکر بچے کو گود میں لیناچاہاتھا۔
عرشیہ کے آنسو پروئے موتیوں کی طرح بہہ نکلے ’’یہ میرا ہی بیٹا ہے لیکن ابرار کا نہیں… امجد کا…‘‘ اس کی آواز گلے میں پھنسی ہوئی تھی۔
’’ہائیں… ک … کیا…‘‘ اور… ایک دم مجھے یاد آیا۔’’سچ ابرار بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا… کیسے ہیں؟‘‘
’’ایکسیڈنٹ کے چند دنوں کے بعد ان کی ڈیتھ ہوگئی تھی اور میں ان کی میت کے ساتھ ہی اپنے سسرال چلی گئی تھی سندھ۔‘‘ روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی۔
’’اناللہ…اوہ…‘‘ میں سناٹے میں آگئی۔
’’پھر…؟‘‘
’’امجد میری نند کے جیٹھ کا نام ہے، اس سے میری شادی ہوئی ہے۔ عدت کے تین چار ماہ بعد۔ عورت کابننا سنورنا،بولنا، چہکنا، سب ناپسند ہے، عورت اس کے نزدیک دوسرے نہیں تیسرے درجہ کی مخلوق ہے۔‘‘
’’اور یہ بیٹے کے بارے میں…‘‘ میں نے جان بوجھ کر سوال ادھورا چھوڑدیا…
’’یہ بیٹا شادی کے دس ماہ بعد پیدا ہوا تو پہلا تبصرہ یہی کیاتھا ’’اتنی بھی کیا جلدی تھی، دوچار سال گزر جانے دیتیں، ساری دنیا رنگ برنگے بچوں سے بھری پڑی ہے، اتنی بھی کیا بے صبری… ہمیں بھی مل ہی جاتا۔‘‘
عرشیہ دونوں ہاتھوں سے منھ چھپاکر روپڑی… اور میرے پاس اس کو تسلی دینے کے لیے کوئی لفظ نہ تھے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں