گولا تپتے تپتے سرخ ہوگیا تھا۔ ماں تکئے پر سر رکھے اب تک سسک رہی تھیں۔ اُن کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو تکئے میں جذب ہوچکے تھے۔
اور میں کہانی لکھ رہا تھا۔ کس کی کہانی تھی وہ؟ یہ تو خود مجھے بھی معلوم نہیں تھا اور اب تو ماں کی سسکیوں اور ہوا کے دوش پر اڑ کر آنے والے شور نے ذہن کو اور بھی پراگندہ کردیا تھا۔
’’ماں! آپ اب تک رو رہی ہیں؟‘‘
’’ہاں بیٹا ہابیل نے قابیل کو قتل کردیا۔ اب وہ مجھے بھی مار ڈالے گا۔ تمہیں بھی مار ڈالے گا۔ کسی کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔ جب تک اس روئے زمین پر ایک بھی ذی روح رہے گا وہ سکون کی سانس نہیں لے سکتا۔‘‘
’’لیکن دیکھو میں زندہ ہوں۔ تم بھی زندہ ہو۔ ساری دنیا زندہ و متحرک ہے۔ کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھئے باز ار میں کتنی رونق ہے ٹریفک کی لمبی قطار ہے، سارے آثار زندگی کے ہیں۔‘‘
ماں ایک جھٹکے سے سر تکئے سے اٹھاتی ہے۔ اس کے چہرے پر آنکھوں سے بہنے والے آنسوؤں کی دو لکیریں بن گئی ہیں۔ درد کی دو نہریں جنھیں میں عبور نہیں کرسکتا۔ اپنے دامن میں آگ چھپائے ہوئے یہ دو نہریں، جن کی آنچ سے میرا سارا وجود اندر ہی اندر پگھلتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سات سمندروں کو تیر جانا شاید آسان ہو، لیکن درد و کرب کی ان دو نہروں سے گزرجانا آسان نہیں اور ماں کے چہرے پر کربناک ماضی کا پھیلا ہوا گھنا جال ہے، جس میں الجھ کر میں ہر دم جھنجھناتا رہتا ہوں، جلتی ریت پر تڑپتی ہوئی مچھلی کی طرح۔
’’بیٹا قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا۔ خون کا ذائقہ من کو لگ چکا، اب کسی کو کوئی نہیں بچاسکتا۔ سب کے خون کا ذائقہ اُسے چکھنا ہی ہے۔ لوگوں کے چلنے پھرنے کو تم زندگی کی علامت کہتے ہو۔ ٹریفک کا چلنا تمہارے لیے حرکت و عمل کی بات ہے۔ بازار کی رونق میں تمہیں زیست کے آثار نظر آتے ہیں۔ تم ابھی ناسمجھ ہو۔ تمہارا شعور ناپختہ ہے، تم نے وقت کے تمام رنگ نہیں دیکھے ۔ صرف ایک رنگ دیکھ کر یہ فیصلہ کرلیا ہے۔ تمہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ سات رنگ مل کر سفید رنگ بناتے ہیں، مگر سفید رنگ بننا بہت مشکل ہے، اس لیے کہ سات رنگوں کی آمیزش میں سرخ رنگ کی زیادتی ہوچکی ہے اور یہ سرخ رنگ کسی دوسرے کو پنپنے نہیں دیتا۔ سفید رنگ کا بننا اِسی نے ناممکن بنادیا ہے۔ کاش کہ سفید رنگ بن سکتا۔ ‘‘ماں کو زوردار کھانسی آجاتی ہے اور میں انھیں سہارا دے کر بٹھا دیتا ہوں۔
’’کہاں جائے اماں؟ کہیں نہیں بیٹا۔‘‘
بازار کا شور بڑھتا جارہا ہے۔ اور اب بازار کے شور پر ایک ہی آواز غالب آچکی ہے۔ کسی ڈھنڈورچی کے ڈھنڈورا پیٹنے کی آواز۔
ڈھم… ڈھم… ڈھم…
’’دیکھو یہ موت کا نقارہ بن رہا ہے۔ سنو! یہ خوفناک آواز موت ہی کی ہے، یہ موت ہی ہے جو دمبدم قریب آتی جارہی ہے۔‘‘
میں نیچے جھانک کر دیکھتا ہوں، کچھ دیر پہلے کی ترتیب ختم ہوچکی ہے، ہر طرف بدنظمی اور بے ترتیبی ہے۔ سب کچھ ٹوٹا اور بکھرا ہوا ہے۔ اور ایک لمبا تڑنگا خوفناک شخص لمبی ڈوری کے سہارے گردن میں نقارہ لٹکائے اسے زور زور سے بجارہا ہے اور اعلان کرتا ہے
’’قابیل نے ہابیل کو قتل کردیا۔ اب سڑک ٹوٹ چکی ہے اور سارے راستے مخدوش ہوگئے ہیں۔‘‘
’’ڈھم … ڈھم… ڈھم…
یعنی میں اب باہر بھی نہیں جاسکتا۔ فرار کے بھی تمام راستے مسدود ہیں۔ اس مکان کی دیواروں سے سر ٹکرا کر میں پاش پاش نہیں کرسکتا کیونکہ میں کہانی لکھ رہا ہوں اور یہ کہانی ابھی ادھوری ہے۔‘‘
مجھے ماں کی آواز میں بہت سی پرانی آوازوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے، یہ آوازیں کہیں آکاش اور پاتال کے درمیان معلّق ہیں جنھیں آج تک سنا ہی نہیں گیا ہے۔ سننا آسان بھی نہیں ہے۔ اب ڈھنڈورچی کی ڈھم ڈھم تمام آوازوں کو نگل چکی ہے۔ جس طرح بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگل جاتی ہیں۔
لوگ بے تحاشہ بھاگ رہے ہیں۔ تانگے، موٹر، رکشہ، یکہ سب میں سامان کی طرح بھرے جارہے ہیں۔ یہ تانگہ کدھر جائے گا، کسی کو کچھ معلوم نہیں۔ چلنے سے پہلے ان لوگوں نے منزل کا تعین نہیں کیا ہے۔ ان کا اعتماد صرف تگاپوئے دمادم میں ہے، لیکن ماں کا خیال ہے کہ یہ تگاپوئے دمادم زندگی کی دلیل نہیں ہے۔ اگر وہ مرے نہیں ہیں تو بھی زندگی اور موت کے درمیان معلق ہیں۔ جانکنی کا عالم ہے۔
میں کدھر جارہا ہوں؟ مجھے کچھ پتہ نہیں۔ دوسروں کے متعلق تو دریافت کرنا ممکن ہے لیکن اپنے بارے میں کس سے پوچھوں؟ کچھ بھی ہو میں ماں سے دور نہیں جاسکتا۔ ماں تو شاید میرے بغیر ہی زندہ رہ لے لیکن میں ماں کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہی تو ایک ایسی ڈوری ہے جو مجھے ماضی سے جوڑتی ہے۔ حال پر میں آنسو بہا رہا ہوں اور مستقبل کولتار کی سیاہ سڑک پر سرخ رو ہورہا ہے۔ ایسی حالت میں، میں کر تو کچھ نہیں سکتا۔ اپنا تماشائی میں خود بن گیا ہوں۔ اس انتظار میں ہوں کہ اس تپتے ہوئے توے سے کیا برآمد ہوتا ہے؟ اس کا ظرف کتنا ہے اور یہ کتنی حدت برداشت کرسکتا ہے؟
وقت کی تیز رفتاری سے میں خائف نہیں ہوں۔ میرے پاس برق رفتار گھوڑے نہ سہی مگر پیروں میں سکت ہے اور نہ صرف اس کے ساتھ دوڑ سکتا ہوں، بلکہ اسے پیچھے بھی چھوڑ سکتا ہوں۔ افسوس تو صرف اس بات کا ہے کہ لوگوں نے مجھے یکہ و تنہا چھوڑ دیا ہے۔ میری کہانیاں جو ہر سوال کا جواب تھیں اب گونگی ہوچکی ہیں۔
سڑک پر اخبارات پھیلے ہوئے ہیں اور اخبار پڑھنے سے اس لیے ڈرتا ہوں کہ کہیں اس میں بھی وہی خبر نہ ہو جس سے میں خوفزدہ ہوں۔ میں خوف کو ذہن سے جھٹکنا چاہتا ہوں، لیکن اب تک وہ ذہن سے چمٹا ہوا ہے۔
’’کیا آج اخبار میں کوئی نئی خبر ہے؟‘‘
’’شاید ہو… ممکن ہے نہ بھی ہو… خبروں کو پرانا ہونے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ اس سے کم وقت میں دنیا پھیل کر بہت بڑی ہوجاتی ہے اور پھر سمٹ کر بہت چھوٹی ہوجاتی ہے، لیکن تم تو پیدل چل رہے ہو؟
’’میرے پیروں میں طاقت موجود ہے۔ اسی لیے میں اپنے پیروں پر کھڑا ہوں۔
’’تم کیا کرتے ہو؟‘‘
’’بہت کچھ کرتا ہوں اور کچھ بھی نہیں کرتا۔‘‘
’’تمہاری باتیں دلچسپ ہوتے ہوئے بھی کسی معمہ سے کم نہیں۔ کیا کاموں کے نام نہیں ہوتے‘‘
’’کہانیاں لکھتا ہوں۔ میری کہانیوں کی گرفت میں ساری دنیا ہے لیکن اس دنیا کے اندر ہوتے ہوئے بھی میں اس کی گرفت سے باہر ہوں۔‘‘
’’اور وہ میری طرف سے منہ پھیر لیتا ہے۔ ایسا بارہا ہوا اس لیے مجھے اس پر حیرت نہیں۔‘‘ میں تو یہ بھی نہیں دیکھ سکا کہ وہ منہ پھیر کر کیا کررہا تھا۔ میری بیوقوفی پر آنسو بہارہا تھا یا ہنس رہا تھا۔ بہرحال وہ آنسو بڑے پھیکے اور ہنسی بہت تلخ رہی ہوگی۔ یہ باتیں آئے دن کی ہیں۔ اس میں نیا کچھ بھی نہیں۔ میری نظریں تو سیدھی اس کوٹھڑی کی طرف چلی گئی تھیں جہاں سے کسی عورت کی کراہیں نکل کر کیچڑ کی طرح پھیل رہی تھیں، جن میں لوگ یا تو لت پت ہورہے تھے یا پر جھٹک کر آگے بڑھ جاتے تھے۔ میں نے جھانک کر دیکھا اندر بہت اندھیرا تھا۔ سیلن اور بدبو تھی۔ آنکھوں پر سے جب تاریکی کی دھند ذرا کم ہوئی تو نظر آیا کہ ایک عورت اوندھی پڑی ہوئی ہے جس کا پیٹ برابر پھول اور پچک رہا ہے، دھونکی کی طرح۔ کولہے، کمر سب بے ڈول انداز میں ہل رہے ہیں۔
کسی نے آکر زور سے میری پشت پر ہاتھ مارا۔
’’بڑے بے شرم ہو تم، وہ دردِ زہ میں مبتلا ہے اور تم جھانک کر تماشہ دیکھ رہے ہو۔ جیسے وہ انسان نہیںکتیا ہو، جس کے بچے پیدا ہونے کا تماشہ دیکھ کر کل کے بچے محظوظ ہوتے ہیں۔‘‘
’’انسان کی اہمیت جانور سے کم ہوچکی ہے۔ حیرت ہے کہ تمہیں اب تک علم نہیں ہے۔‘‘
’’بہت عجیب وقت آگیا ہے…‘‘یہ کسی اور کی آواز تھی۔
نہ معلوم میں کون سی آوازوں کے جنگل میں پھنس گیا تھا۔ جہاں بس چیخیں تھیں، کراہیں تھیں، کہرام تھا۔ بے ترتیب آوازیں تھیں۔ کوئی قہقہہ نہیں تھا۔ اس وقت صرف وہی قہقہہ لگا سکتا تھا جو اپنی لاش پر بھی دل کھول کر ہنس سکے۔ ایسے وقت میں مجھے مونا کا خیال آیا۔ وہ جس کے پاس آنسو کا ایک قطرہ بھی نہیں۔ میں اُس سے تھوڑی سی ہنسی مستعارلے لوں پھر شاید ایک پھیکی سی ہنسی ہنس سکوں۔ بہت دن ہوگئے مسکرائے ہوئے۔ لیکن اسی وقت میں نے ایک زوردار قہقہے کی آواز سنی۔ زوردار اور بھیانک قہقہہ۔ میری نظریں بے چینی سے ادھر ادھر گردش کرنے لگیں۔ اس چہرے کی تلاش میں جس کے ہونٹوں پر قہقہہ تھا۔ دور دور تک دیکھنے کے بعد میں اپنے قریب لوٹا اور وہ تو پاس ہی موجود تھا۔ مجھ سے بالکل قریب۔ ایک سر کٹا ہوا نوزائیدہ بچہ اپنے جسم سے الگ۔ وہی بھیانک انداز میں قہقہے لگا رہا تھا۔
’’ایسی حالت میں بھی تم ہنس سکتے ہو؟‘‘
’’کیا ہنسی اور آنسو حالات کے اسیر ہیں؟ میں تو ان لوگوں پر ہنس رہا ہوں جن کے سر ٹین کے خالی ڈبے تھے، جو اب مرچکے ہیں۔ لیکن ان کی موت پر کوئی قہقہہ نہیں لگائے گا کیونکہ وہ سب بیوقوف تھے۔‘‘
اس کے قہقہے وحشت کی حدوں کو پار کررہے تھے۔ شاید اس نے اپنی جسم کا سارا خون اپنے چہرے میں جمع کرلیا تھا اور اب وہ ہونٹوں میں سمٹ آیا تھا، اسی لیے وہ قہقہوں کی رنگ رلیاں منا رہا تھا۔ بہت عرص سے کسی کو ہنستے دیکھنے کی خواہش تھی، لیکن اس ہنسی نے مجھے سہارا دیا، کیونکہ یہاں صرف وحشت تھی، اس میں ہنسی میں مسرت کی رمق تک نہ تھی۔ میں اس سے ہنسی مستعار نہیں لے سکتا تھا۔
میرے قدم لڑکھڑانے لگے۔
میں تیز تیز بڑھ رہا تھا کہ ایک بہت بڑی بلڈنگ سامنے آگئی۔ میں نے سنا تھا کہ اونچی اونچی بلڈنگوں میں رہنے والوں کے پاس دولت کے انبار ہوتے ہیں۔ وہ ہنستے ہیں خوب جی کھول کر ہنستے ہیں۔ زندگی سے بھرپور قہقہے لگاتے ہیں اور اسی لمحہ کسی نے کھڑکی سے باہر قہقہے اچھال دیے میں نے اُن قہقہوں کا تجزیہ کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی۔ بس جلدی سے بلڈنگ کے گیٹ میں داخل ہوگیا۔ راہ داری سے ہوتے ہوئے پورٹیکو پھر کاریڈور اور اس کے بعد بہت سے چھوٹے بڑے کمرے تھے۔ خالی خالی سانسیں لیتے ہوئے سناٹا اور سونا پن مگر قہقہے جانے کس طرف سے آرہے تھے۔ یکبارگی پوری فضا پر مسلط ہوجاتے تھے۔ پھر میں نے ایک بڑے کمرے کو بند پایا۔ پہلے آنکھوں کو پھیلا کر دراز سے اندر دیکھا۔ کچھ لوگ دیوانہ وار قہقہے لا رہے تھے۔ غالباً ساری ہنسی ان لوگوں نے سمیٹ لی تھی، ممکن ہے یہ لوگ سخی ہوں اور تھوڑی سی ہنسی مستعار دے دیں، یہی سوچ کر میں نے دروازے پر دستک دی۔ کچھ وقفہ کے بعد دروازہ کھل گیا۔
میں نے جلدی سے دروازے میں داخل ہونا چاہا، لیکن اس سے پہلے ہی میرے سینے پر ایک گھونسہ پڑا۔ میں بلبلا اٹھا اور اس بھاری بھرکم شخص نے مجھے پکڑ کر اندر گھسیٹ لیا پھر دروازہ بند ہوگیا۔
’’گھونسے نے شدید ضرب لگائی تھی، لیکن میں نے سوچ لیا تھا، اس کے باوجود بھی اگر ہنسی مل گئی تو مستعار لے لوں گا۔ تکلیف ہی میں تو مسکرانے کا لطف ہے۔
میں نے دیکھا اُن لوگوں کے ہاتھوں میں تاش کے بے جان پتے تھے لیکن وہ انھیں اس طرح چوم رہے تھے جیسے وہ سب جاندار ہوں۔ وہ چھ تھے اور سب کے سب بہت موٹے تازے تھے۔ ان میں سے ایک نے تاش کے پتّوں سے نظریں ہٹا کر بغور میرا جائزہ لیا۔ پر کڑوی مسکراہٹ کے ساتھ کہا: اگر میں چاہوں تو ابھی تمھیں تاش کے پتّوں کی طرح بانٹ سکتا ہوں، لیکن اس سے پہلے میں تم سے یہاں آنے کا سبب جاننا چاہتا ہوں۔
’’میں تھوڑی سی مسکراہٹ ادھار لینے آیا ہوں۔‘‘
’’ہاہا!! ہا ہا!! ہاہاہاہا!!‘‘ ان سب کے منہ سے نکلے ہوئے بھیانک قہقہے سیمنٹڈ چھت سے اپنا سر ٹکرا رہے تھے۔
’’فول‘‘
’’ایڈیٹ‘‘
’’نان سنس‘‘
’’بلیڈی‘‘
’’باسٹرڈ‘‘
سب کے منہ سے نکلے ہوئے مختلف القاب میرا منہ چڑانے لگے ۔ میں اپنی شخصیت پرازسرنوغور کرنے لگا۔
لیکن اب ایک بات میری سمجھ میں آچکی تھی کہ سارے قہقہے کھوکھلے اور مصنوعی تھے۔ اُن کے گرد صرف اکّے، بادشاہ، رانی، غلام ناچ رہے تھے۔ ’’سب کچھ ہوتے ہوئے بھی یہ شخص مغموم معلوم ہوتا ہے۔‘‘ ان میں سے ایک نے کہا، جو کچھ رحم دل معلوم ہوتا تھا۔ ’’ہم لوگ تو یہاں اکہ بادشاہ، رانی، غلام، نہلے اور دہلے کا تماشا دیکھ رہے ہیں۔ ان کا تماشا تمہارے لیے بیکار ہے، کیونکہ تم اسے دیکھ کر قہقہہ نہیں لگاسکتے۔ یہ سب ہمارے ماتحت ہیں لیکن ہم پر حکومت کرتے ہیں۔
اُس کی بات کے وزن کو میں نے محسوس کیا۔
’’اس طرح اب کہیں گھسنے کی غلطی نہ کرنا۔ کیونکہ بہت سے کام اندھیرے میں کیے جاتے ہیں۔ اگر اس اندھیرے میں اجالے کی کوئی کرن داخل ہوگئی تو سارے نیگیٹیو کو چاٹ جائے گی اور پھر ساری تصویریں مسخ ہوکر رہ جائیں گی۔ پھر انھیں پازیٹیو پر اتارنا ممکن نہ ہوگا۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے دروازہ کھول کر مجھے باہر کردیا۔ پھر انہی راستوں کو عبور کرتا ہوا میں باہر نکل آیا۔
اب میں صرف مونا کے یہاں جانا چاہتا تھا۔ مجھے غلامی سے نفرت تھی۔ میں کسی کا ماتحت نہیں بن سکتا تھا۔ خواہ وہ بے جان بادشاہ، رانی اور غلام ہی کیوں نہ ہوں۔ غلامی تو بس ایک احساس ہے، چاہے وہ بے جان چیز کی ہو یا ذی روح شخص کی، اسی لیے میں اِس جوئے کو اتار اتار کر پھینکتا رہا ہوں۔
مجھے مونا ہی کے پاس جانا چاہیے۔ اس کے ہونٹوں پر ہر وقت ہنسی کھیلتی رہتی ہے۔ وہ فراخ دل ہے، اس لیے اپنی ہنسی کا کچھ حصہ مجھے دے سکتی ہے۔ یہ اکا ، بادشاہ کے پیچھے دوڑنے والے احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ کولہو کے بیل کی طرح ایک ہی محور پر گردش کرتے رہتے ہیں، اندھے بن کر، کبھی اکّے ، بادشاہ، رانی اور غلام انھیں زیر کرلیتے ہیں اور بھی یہ انھیں زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مونا کا گھر دور ہے اور راستہ پُرخار۔راہ میں کیا ہوجائے گا کسی کو کچھ خبر نہیں۔
لیکن میں نے مصمم ارادہ کرلیا تھا۔ اس لیے جھاڑ جھنکاڑ کی طرح بکھرے ہوئے سروں اور دھڑوں سے راستہ بناتا ہوا گزررہا تھا۔ میں نے شکرادا کیا کہ کوئی کانٹا پیروں میں نہیں چبھا۔ یہ راستے کچھ ہی دیر پہلے بہت پرخار رہے ہوں گے۔ لیکن اب تو نہ یہاں پھول تھے اور نہ کانٹے۔ نہ جانے وہ کیسے گلچیں تھے، جنھوںنے پھولوں کے ساتھ ساتھ کانٹے بھی نہیں چھوڑے، انھیں شاید دونوں سے محبت تھی یا پھر دونوں سے شدید نفرت کرتے تھے۔ نفرت اور محبت کے درمیان ذرا سا ہی فاصلہ ہے اور یہ فاصلہ انھوں نے عبور کرلیا ہوگا۔
مونا کا گھر آگیا…
سیڑھیوں پر چڑھنے سے پہلے میں نے لمبی لمبی سانسیں لیں، پھر تمام سانسوں کو پھیپھڑوں میں جمع کرکے سیڑھیاں طے کرتا چلا گیا اور مونا نے مجھے دیکھتے ہی قہقہہ لگایا۔
میں اندر تک لرز گیا۔
آج اُسے کیا ہوگیا؟
یہ تو ہمیشہ مسکرایاکرتی تھی۔ کومل چاندنی جیسی مسکراہٹ بکھیرتی تھی جس سے پھول کھل جاتے تھے، لیکن آج اس کے پاس بھی دوسروں کی طرح خالی اور کھوکھلا قہقہہ تھا۔ خالی برتنوں جیسی ناگوار کھڑکھڑاہٹ۔
قہقہے منتشر ہوگئے۔
اور اب تم آئے…؟
اب تک اس کے قہقہے سوال تھے اور اب وہ خود سوال بن گئی۔
’’میں جانتی ہوں مسٹر راجن تم کس لیے آئے ہو۔ کہانیوں کا مارکیٹ گرگیا ہے نا؟
بس یہی شکایت لے کر آئے ہوگے؟
’’مونا میں تمہارے پاس کہانیوں کے سلسلے میں کوئی شکایت لے کر نہیں آیا ہوں۔بھاؤ سونے چاندی کا گرتا ہے کہانیوں کا نہیں۔ میں اپنی اور کہانیوں کی شکایت کیوں کروں؟ جو کہانیوں کا مقدر ہے، وہی میرا بھی ہے، میں تم سے تھوڑی سی ہنسی مستعار لینے آیا ہوں۔ کتنے دن ہوگئے ایک پھیکی سی ہنسی بھی نہیں ہنس سکا۔ یہ شکایت میری نہیں ان بدنصیب ہونٹوں کی ہے۔‘‘
پھر وہی بے ہنگم قہقہہ… ہیرے کی زہریلی کنی کی طرح جسم کو کاٹتا ہوا…
’’مسٹر راجن آپ تو کہتے تھے ہنسی، قہقہے، آنسو، چیخیں، سب کچھ آپ کی کہانیوں کی گرفت میں ہے کیا وہ ساری کہانیاں مردہ ہوگئیں۔‘‘
’’کہانیاں کبھی مردہ نہیں ہوتیں۔ شاید میں ہی مردہ ہوچکا ہوں۔‘‘
’’اور آپ کی وہ کہانی جسے آپ کئی برسوں سے لکھ رہے ہیں؟
’’اس کہانی کا ایک باب میں نے چوبیس برسوں میں لکھا تھا، لیکن اسے دیمک چاٹ گئی اور اسے پھر لکھنا شروع کروں تو سرے کہاں سے ملیں گے؟
لیکن مجھے ان باتوں کا غم نہیںہے، کیونکہ ادھورا رہنا کہانی کا مقدر ہے۔ کہانی کا خالق میں ضرور ہوں لیکن اس کا مقصد بنانا یا بگاڑنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ وقت ہی اسے بناتا اور بگاڑتا ہے اور کہانی وقت کے ہاتھوں میں بالکل بے بس ہے۔ پرکٹے پرندے کی طرح۔‘‘
’’تم کہانی کو ابواب میںبانٹتے ہو اور لوگ زمین کو تقسیم کررہے ہیں کیا زمین اور کہانی میں کچھ مشترک ہے؟ ممکن ہے۔کچھ مشترک ہو، میں کیسے کہوں؟ میرے ذہن میں تو صرف کہانیوں کے ہیولے ہیں اور وہی ذہن کو بناتے بگاڑتے رہتے ہیں۔ جلاتے بجھاتے رہتے ہیں۔ مجھے کیا پتہ کہ زمین کی تقسیم اور میری کہانیوں میں کیا کچھ مشترک ہے۔ ابھی تو میرے تلوؤں نے ساری زمین ناپی بھی نہیں… ہاں یاد آیا۔ ایک چیز مشترک بھی ہے۔ صرف ایک چیز … کرب… ہر تقسیم کے ساتھ کرب ہوتا ہے، زمین کی تقسیم کا کرب کہانیوں کا بھی کرب ہے اور کرب کہانی کی زندگی ہے، جسم بھی اور روح بھی۔ لیکن تم فکر مت کرو۔ صرف زمین تقسیم ہوسکتی ہے۔ ذہن، دل اور کرب تقسیم نہیں ہوتے۔ آسمان اور خلاء کی وسعتوں کی بھی تقسیم ممکن نہیں۔ ادیب تو صرف طبیعاتی طور پر زمین پر رہتا ہے، لیکن اس کے فکر کی اڑان تو خلاء اور آسمانوں میں ہوتی ہے۔
’’تمہارے فلسفے ہمیشہ میرے ذہن سے بالاتر رہتے ہیں، تم پیچیدہ ہو، تمہاری کہانیاں بھی پیچیدہ ہیں۔ آخر کسی گتھی کو بھی تو سلجھاؤ۔ الجھتے الجھتے تو سارا وجود زخمی ہوچکا ہے۔‘‘
’’مگر مونا یہ اندھیرا کیوں ہے؟ روشنی کیا ہوئی ہے؟‘‘
’’ہوں! اب تمہیں روشنی کا خیال آیا۔ جب روشنی ٹمٹما کر بجھ چکی۔ یوں بھی سارے کام اب اندھیرے میں کیے جاتے ہیں۔‘‘
’’مگر میری آنکھیں اندھیرے کی عادی نہیں ہیں۔‘‘
اس سے کوئی فرق بھی نہیںپڑتا۔ دھیرے دھیرے عادی ہوجائیں گی آؤ ہم لوگ دوسرے کمرے میں چلیں۔ اندھیرے اجالے تو زندگی کے ترجمان ہیں۔ اِن سے کہاں تک بھاگا جاسکتا ہے۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ اندھیروں کے بیچ چلتے چلتے یک بیک اجالے میں آجانے پر اُجالے کہیں تمہاری بینائی نہ نگل لیں۔‘‘
میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
بس ہپناٹزم کے معمول کی طرح پیچھے پیچھے چلتا رہا۔
دوسرے کمرے میں مرکری کی تیز روشنیوں نے آنکھوں کو خیرہ کردیا۔ میں واقعی گرتے گرتے بچا۔ پھر ذرا آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہوئیں تو میں نے دیکھا فریم میں لگی ہوئی ساری تصویریں نئی تھیں۔ شاید مونا نے تمام تصویریں بدل دی تھیں۔ سب کچھ نیا نیا سا لگا۔
’’مونا کیا تم نے فریم کی ساری تصویریں بدل دیں۔‘‘
’’یہ کون سی نئی بات ہے۔ ہمیشہ فریم میں تصویریں بدلتی رہتی ہیں۔ بدلتی رہی ہیں اور بدلتی رہیں گی۔ اگر انھیں بدلا نہ گیا تو پھر وہ خود ہی فریم توڑ کر باہر آجائیں گی۔ ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے۔ وقت ہمیشہ چیزوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھ جایا کرتا ہے، وہ سب چیزیں پیچھے چھوٹ گئیں، اب ان کا آگے آنا ممکن بھی نہیں۔
اور پھر اُس نے گلاس میں سیاہ سیال ڈال کر حلق میں انڈیل لیا۔ ’’لیجیے راجن بابو، آپ بھی سب کچھ بھول جائیے۔ یادداشت بہت بری شئے ہے، یہی تو سب کو پاگل بناتی ہے۔ اسے لے لیجیے اور سب کچھ بھول جائیے۔‘‘
اس وقت میرا جی چاہا کہ چیخ چیخ کر روؤں، یا پھر پاگلوں کی طرح قہقہے لگاؤں، لیکن دونوں ہی کام میرے بس سے باہر تھے۔ اس لیے کچھ نہیں کرسکا۔ صرف شانے اچکا کر رہ گیا۔ اس بے بسی کا اظہار کرنے کے لیے الفاظ بھی میرے پاس نہیں تھے۔
’’لیکن وقت کو ہم لوگ پاگل بنائے ہوئے ہیں، یہ بھی صحیح ہے۔‘‘
’’آؤ، میں تمھیں دکھاؤں۔‘‘
ہم دونوں مکان کی چھت پر لگی ہوئی ریلنگ کے سہارے کھڑے ہوگئے تھے، حد نظر تک میں سب کچھ دیکھ سکتا تھا، جانے مجھے وہ کیا دکھانے لائی تھی۔
’’تمہاری کہانیاں جھوٹ بولتی ہیں راجن بابو۔‘‘
’’لیکن پھر بھی میں سچ بولنے کے لیے کہانیاں لکھتا رہوں گا، چوبیس سالوں میں لکھے ہوئے ایک باب کو دیمک چاٹ گئی تو کیا ہوا، میرے دل میں ابھی بہت خون ہے اور میں خونِ دل میں قلم ڈبو کر شہر کی یہ کہانیاں لکھ سکتا ہوں۔ تو تمہاری کہانی بھی دیوار کی محتاج ہے۔ عورت کے جسم کی طرح جس کی حفاظت کے لیے اسے دیواروں کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ دیواروں کے سبھی محتاج ہیں مگر کہانی کو اپنی حفاظت کے لیے دیواروں کی ضرورت نہیں۔ دیواریں اسے قید بھی نہیں کرسکتیں۔‘‘
’’وہ دیکھو ایک اور کہانی لکھی جارہی ہے؟ اس نے سہمے ہوئے انداز میں اشارہ کیا۔
میں خود بھی وہ منظر دیکھ کر سہم گیا۔ کانٹے دار تاروں پر ایک شخص کو گھسیٹا جارہا تھا۔ اس کی دلدوز چیخوں نے مجھے بھی سہما دیا۔
’’بچاؤ… بچاؤ…بچاؤ… میرے حلق سے نکلی ہوئی یہ بے مقصد آوازیں تھیں۔
کیوں بے سبب چیختے ہو، اندھے، بہرے، گونگے اور مردہ انسانوں کی بستی میں۔ اس سے حلق کی سوزش کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ بس دیکھو اور صبر کرو۔
اور پھر میں نے بہتوں کا یہی حشر دیکھا۔
عورت… مرد… بوڑھے … جوان… بچے سبھی وہی سزا کاٹ رہے تھے، وہاں صرف بے ترتیب آوازیں تھیں۔
’’بے بی… لوہے کا لباس پہن لو… بے بی لوہے کا لباس پہن لو… بے بی … بے بی۔
’’مگر لوہا بھی تو لوہے سے کٹ جاتا ہے؟‘‘
’’بھاگ جاؤ یہاں سے۔ یہ راکشسوں کی بستی ہے… یہ راکشسوں کی، انسان راکشس ہے، راجن بابو۔‘‘
’’میں تمہاری آنکھوں کو جھٹلانا نہیں چاہتا لیکن تمہاری ہر بات سو فی صد سچ نہیں۔ انسان دیوتا بھی ہوتا ہے۔‘‘
’’کہاں ہے دیوتا کا روپ؟ مجھے کسی بھی دیوتا کے درشن کراؤ۔ دیوتا نہیں ہے۔ کوئی نہیں ہے؟‘‘
’’کیا تم مجھے نہیں دیکھ رہی ہو؟‘‘
’’اپنی بزدلی کی پردہ پوشی کرنے کے لیے خود کو دیوتا کہتے ہو۔ یہاں بھی وہی راکشس کا دل ہے۔ سبھی راکشس ہیں۔‘‘
کیا تم بھی وہی سب کچھ مجھ سے نہیں چاہتے ہو جس کی اور مجھ سے توقع کرتے ہیں۔ اگر تمہیں موقع ملے تو تم بھی دیوتا کا گلا گھونٹ کر راکشس کی کھال پہن لوگے۔‘‘
تمہاری باتوں کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔ مجھے تم سے کچھ نہیں چاہیے؟ اس لیے اب مجھے یہاں سے جانا چاہیے۔ کیا سچ مچ تمھیں مجھ سے کچھ نہیں چاہیے۔‘‘
’’نہیں!‘‘
’’پھر اب تم کہاں جاؤگے؟‘‘
’’یہاں میں بے وجہ آیا۔ اب مجھے پھر ماں کو تلاش کرنا چاہیے۔ اسی کے چرنوں میں جاکر مجھے سکون ملے گا۔ شاید اس کے چرنوں ہی میں نروان مل جائے۔ میں تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگا۔ بے جان سیڑھیاں صرف اترنے چڑھنے کے لیے ہیں اور ان کا کام ہی کیا ہے؟‘‘
’’رک جاؤ راجن میں بھی آرہی ہوں، مجھے بھی نروان چاہیے۔‘‘
’’نروان اور راکشس کے پاس…؟‘‘
نہیں نہیں راجن میں نے تمہیں پہچان لیا ہے۔‘‘
تم میرے پیچھے آسکتی ہو۔ میں منع نہیں کرسکتا، میرا راستہ کٹھن ہے، مجھے خود بھی نہیں معلوم کہ راستہ کدھر ہے؟…
مجھے پہچاننے میں تم نے دیر کردی۔
میں ہر مکان میں جھانکتا پھرا۔ ہر جگہ بھاری بھاری لاشیں تھیں۔ کار، فرنیچر، سوفا سیٹ، ریفریجریٹر، اونچی اونچی قبریں… سناٹا، سونا پن… خالی پن… بھائیں بھائیں اور ہر جگہ وہی سناٹا میرا پیچھا کرتا۔ یا پھر مونا جس کی زبان اب خاموش ہوگئی تھی، اس کے پاس کہنے کے لیے کچھ تھا ہی نہیں۔ مکانوں کے اندر ان کے مکینوں کے آخری الفاظ صدائے بازگشت بن کر گونج رہے تھے۔
’’بے بی لوہے کا لباس پہن لو… دور کہیں دور چلی جاؤ… بھاگ جاؤ… ان راکشسوں کی بستی سے۔‘‘
واقعی ہابیل نے قابیل کو قتل کردیا تھا۔ پھر جب اس سے بھی پیاس نہ بجھی تو اور بھی بہتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
لیکن پھر قابیل کہاں گیا اور ماں؟ اس کا کوئی پتہ نہیں تھا، کہیں وہ اپنے ہی جال میں پھنس کر تو دم نہیں توڑگئی؟ کہیں اُس کی سانسوں کی حدت نے اس کے ہی وجود کو تو خاکستر نہیں کردیا؟ کون جانے ماں کی نحیف آواز کی بازگشت بھی تو کہیں خلاء میں گم نہیں ہوگئی۔ ورنہ ان سوئی ہوئی آوازوں کو ہی جگالیتا۔ اب صرف بھاگتے رہنا ہی میرا مقدر تھا۔ میں ہر دیوار سے سرٹکرادیتا تھا۔ ہر موڑ پر رک جاتا تھا پتہ نہیں راستہ کدھر تھا؟
لیکن پوری طاقت پیروں میں جمع کرکے میں نے بھاگنا شروع کردیا، تیز… بہت تیز… ریت کے تودوں کو ڈھاتا ہوا میں دوڑ رہا تھا۔ سمندر کے کنارے… سمندر کے جسم کے پھپھولے ٹوٹ رہے تھے…‘‘
ہمارے جسموں کے پھپھولے کب ٹوٹیں گے؟‘‘
اور دلوں کے پھپھولے؟؟
——