اسلام کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں پر محیط ہیں۔ ان کا تعلق عقائد کے باب سے ہو یا عبادات سے،یا معاملات، اخلاقیات اورمعاشرت سے، اسلام کا اپنے ماننے والوں سے یہ تقاضا ہے کہ دوسروں کے جو حقوق تم پر عائد ہو تے ہیں، انھیں حتی الامکان پورا کرنے کی کوشش کرو۔ چاہے وہ حقوق چھوٹے چھوٹے مسائل سے متعلق ہوں یا بڑے بڑے مسائل سے ان کا تعلق ہو۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم بڑے مسائل کے حل کے لیے کوششیں تو ضرور کرتے ہیں مگر چھوٹے چھوٹے معاملات ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔
انھی میں ایک اہم مسئلہ ’راستے کے حقوق‘ کا ہے۔ کوئی شخص راستے میں مستقل ٹھکانا نہیں بناتا مگرراستے سے گزرتے ہوئے اس سے اگر کسی کو تکلیف پہنچے تو اس کا اثر کافی دیر تک محسوس کیا جاسکتا ہے۔راستے کے حقوق کیاہیں؟ شریعت نے کن امور کی نشان دہی کی ہے؟ کن امور کا خیال رکھنا اور کن کاموں سے بازرہنے کی اس نے تلقین کی ہے تاکہ ہر کسی کی زندگی اچھے طریقے سے گزرے؟ ان سوالوں کا جواب اس تحریر میں پیش ہے۔
راستے کے حقوق کے حوالے سے متعدد احادیث مروی ہیں جن میں مختلف احکامات ملتے ہیں۔ ایک حدیث میں حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں، رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: ’’راستوں پر بیٹھنے سے پر ہیز کرو‘‘۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: ’’ہماری مجبوری ہے کہ ہم محفل جماتے ہیں اور آپس میں گپ شپ کر تے ہیں‘‘۔رسول اللہؐ نے فرمایا:’’اگر اتنی ہی مجبوری ہے تو راستے کا حق ادا کرو‘‘صحابہؓ نے پوچھا: ’’راستے کا حق کیا ہے ؟‘‘فرمایا:’’نظروں کو جھکا کر رکھو،تکلیف دہ چیز کو دْور کرو،سلام کا جواب دو اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرو‘‘۔(بخاری، ۵۶۴۲)
آج کل ہم پریشان ہوتے ہیں کہ ہمارے گھروں میں تو اخلاق کا خیال رکھ کر گفتگو کی جاتی ہے مگر یہ چھوٹے بچے کہاں سے گالیاں اور اخلاق سے گری ہوئی باتیں سیکھ کر آتے ہیں ؟اگر اس کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ بچے باہر سے یہ سب کچھ سیکھ کر آتے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات بازار میں موجود دکان داروں کا رویہ ہے۔ اکثر ان کی گفتگو اخلاقیات سے عاری ہوتی ہے۔ وہ اس چیز کا خیال نہیں رکھتے، حتیٰ کہ بازاری گفتگوکا محاورہ عام ہوگیا ہے۔لہٰذا جو شخص بھی راستے میں بیٹھا ہے یا دکانوں کے آگے کرسیاں لگا کر بیٹھا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی گفتگو میں اخلاقیات کا خیال رکھے، تاکہ غیر اخلاقی گفتگو نہ ہو، اور بچوں کی اخلاقیات پر بھی اس کا اثر نہ پڑے۔
قابل توجہ امور
نظروں کی حفاظت: راستے کا سب سے پہلاحق ہے کہ وہاں بیٹھنے والا اپنی نظروں کی حفاظت کرے۔کیوں کہ وہاں سے گزرنے والوں میں خواتین بھی شامل ہوں گی۔ اس لیے آدمی وہاں بیٹھ کر ہرکسی کو گھورتا نہ رہے، خاص طور پر خواتین کو۔ ایک تو اس لیے کہ یہ شریعت کے منافی ہے، دوسرے یہ کہ اس میں اخلاقی قباحت بھی ہے۔حضرت جریر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہؐ سے اچانک نظر پڑجانے کے حوالے سے پوچھا تو نبی کریمؐ نے مجھے حکم دیا کہ: ’’میں اپنی نگاہ پھیر لوں۔‘‘(مسلم، ۹۵۱۲)
تکلیف دہ اشیا ہٹانا
اسی طرح نبیؐ نے ارشاد فرمایا:ایمان کے ستّر اور کچھ شعبے ہیں:پس اس میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ اور سب سے ادنیٰ راستے سے تکلیف دہ چیز کو دْور کرنا ہے، اور حیا ایمان کا حصہ ہے۔(مسلم)
یعنی ’ایمان‘ دراصل اعمال اور معاملات تک کا نام ہے۔ کسی ایک جز کو ’ایمان‘ نہیں کہتے، بلکہ تمام اجزا مل کر ایمان کی تکمیل کرتے ہیں۔اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا اجر کا کام ہے اور اس میں ضروری نہیں کہ کوئی بہت بڑی چیز آپ دْور کریں، حتیٰ کہ تکلیف دینے والا ایک کانٹا ،کوئی اینٹ کا ٹکڑا بھی اگر کسی نے ہٹایا تو اس پر بھی اس کو اجر ملے گا۔
رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا:’’ ایک شخص راستے سے گزر رہا تھا کہ اس نے ایک کانٹا دیکھا اور اسے راستے سے ہٹا دیا، پس اس فعل پر اللہ نے اس کی قدر دانی کی اور اسے بخش دیا۔‘‘(بخاری، ۲۷۴۲)
’تکلیف دینے والی‘ وہ تمام چیزیں ہیں، جو وہاں سے گزر نے والوں کے لیے تکلیف دینے کا سبب بنیں۔ان میں بے سبب بیریئر لگانا بھی شامل ہے۔ جو شخص اس طرح کے بیرئیر ہٹانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کو اجر ملے گا اور وہ جنت کا مستحق بھی ہوگا۔
تکلیف کی باعث چیزیں
حدیث کے الفاظ کَفّْ الاذیٰ ایک جامع کلمہ ہے۔ اس میں ہر طرح کی تکلیف دینا شامل ہے، چاہے وہ اپنے عمل کی وجہ سے ہو یا اپنے قول یا اشارے سے، حتیٰ کہ صرف نظروں سے بھی کسی کو تکلیف دینا شامل ہے۔جو چیزیں راستے میں تکلیف کا باعث بنتی ہیں وہ درج ذیل ہیں :
پروگرامات کا انعقاد:
قناتیں لگا کر راستہ بند کرنا بھی تکلیف دینے میں شامل ہے۔ البتہ ایسی جگہ پر قنات/شامیانا لگانا جہاں لوگوں کو کوئی اعتراض نہ ہوتو اس کی گنجایش ہوسکتی ہے۔ اس میں ہر طرح کے پروگرامات شامل ہیں، چاہے وہ شادیاں ہوں یا مذہبی نوعیت کے پروگرامات۔ اگر اس سے لوگوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے تو راستہ بند کرکے ان پروگرامات کا انعقاد شریعت کی نظر میں ناپسندیدہ کام ہے۔
نظروں سے تکلیف دینا :
تکلیف دینے میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ کوئی شخص وہاں سے سامان لے کر گزر رہا ہو اور راستے میں بیٹھا شخص اس کے سامان پر نظریں جما کر بیٹھ جائے، تانک جھانک کرے کہ یہ کیا لے کر جا رہا ہے۔
کھانے کی چیزیں راستے میں ڈالنا:
تکلیف دہ چیز راستے سے ہٹانے سے مراد کیلے کے چھلکے بیچ راستے میں نہ پھینکے جائیں، کوڑا کرکٹ، پانی اور کولڈ ڈرنک کی بوتلیں راستے میں نہ پھینکی جائیں اوراسی طرح کی جو چیزیں تکلیف دینے کا باعث ہوں ان سے اجتناب کیا جائے۔
راستے میں کھدائی کرنا :
یہ بات بھی تکلیف دہ ہے کہ بیچ راستے میں کوئی شخص اپنے مقصد کے لیے گڑھا وغیرہ کھودے اور پھر اس کو صحیح طریقے سے ہموار کرکے بند نہ کرے۔اس میں انفرادی طور پر بھی لوگ شامل ہیں اور ادارے بھی۔ کیوں کہ کچھ ادارے، مثلاً وٹر سپلائی، سوئی گیس، ٹیلی فون وغیرہ کے ادارے اپنے صارفین کو سہولیات مہیا کرنے کے لیے سڑکوں کی کھدائی کردیتے ہیں مگر پھر صحیح طور پر اسے بند نہیں کرتے۔لہٰذا، انھیں چاہیے کہ سہولت مہیا کرنے کے بعد انھیں اذیت میں مبتلا نہ کریں بلکہ اس راستے کو صحیح طور پر بند کریں۔
پانی کی ٹنکی بنانا / رکھنا:
آج کل راستوں میں مسافروں کے لیے جگہ جگہ پانی کی ٹنکیاں رکھی جاتی ہیں، جو ایک اچھی سوچ اور قابلِ اجر کام ہے۔لیکن اس میں بھی اس بات کا خیال رکھنابے حدضروری ہے کہ یہ کسی ایسی جگہ پر نہ ہوں کہ ان کی وجہ سے راستے میں کیچڑ ہو اور وہاں سے گزرنے والوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔
ڈرائیونگ میں قابل لحاظ باتیں
lاوور ٹیکنگ:گاڑی چلاتے وقت بے ڈھنگے انداز میں اور ٹیکنگ کرکے کسی کو پریشانی میں مبتلا کرنا بھی تکلیف دینا ہے۔ البتہ اگر او رٹیکنگ کے قواعد کا لحاظ رکھا جائے اور جہاں قانون اجازت دے تو پھر وہاں اس کی ممانعت نہیں ہے،مثلاً جب تک آپ محفوظ طریقے سے ایسا نہ کرسکتے ہوں اور ٹیک نہ کریں۔آئینوں کا استعمال کیجیے اور باہر کی طرف نکلنے سے پہلے اشارہ جلائیں۔رات اور کم روشنی کے وقت جب گاڑیوں کی رفتار اور فاصلے کا اندازہ مشکل ہوتا ہے اور ٹیک کرنے کے وقت زیادہ احتیاط کریں۔
lاشارے کی خلاف ورزی:اس میں دوسری طرف سے آنے والی سواری پریشانی میں مبتلا ہوسکتی ہے۔ایسے چوک پر جہاں ٹریفک اشاروں سے کنٹرول کی جاتی ہے۔وہاں سرخ بتی جلنے پر لازم ہے کہ آپ سڑک کے آرپار بنائی گئی سفید رکنے والی لکیر کے پیچھے سڑک پر سبز بتی کے جلنے تک کھڑے رہیں(ایضاً، ص ۷۳)۔اسی طرح دھواں چھوڑتی گاڑیوں کی وجہ سے راہ گزرتے مسافر پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے لوگوں کو سانس کی تکلیف ہوتی ہے اور سامنے کچھ نظر بھی نہیں آتا۔ اس لیے یہ چیز بھی ممنوع ہے۔
lہارن اور آلاتِ موسیقی کا استعمال: اس میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ کسی نے اپنی گاڑی میں تیز آواز والا پریشر ہارن لگوایا ہو اور اسے بجاتا ہواگزرے یا بغیر سائلنسر والی گاڑی میں سوار ی کرے جس کی آوازکی وجہ سے لوگوں کو تکلیف ہواوراسی طرح تیز آواز میں گاڑی کا ساؤنڈ چلائے۔
یہ امر بھی ملحوظِ خاطر رہے کہ اس میں صرف لہو و لعب کی موسیقی منع نہیں ہے بلکہ تیز آواز میں تلاوت یا نعت وغیرہ بھی سننا منع ہے۔ کیوں کہ اس سے بھی لوگ ذہنی طور پر متاثر ہوتے ہیں کہ کوئی کسی کام میں مصروف ہو ،کوئی بیمار ہو یا کوئی نماز پڑھ رہا ہو توان کے ان کاموں میں خلل پیدا ہوتا ہے۔
lغلط پارکنگ:گاڑی کو غلط جگہ پر کھڑا کرنا بھی کسی کو ایذا دینے میں آتا ہے۔اس میں ہوتا یہ ہے کہ ایک شخص کسی غلط جگہ گاڑی پارک کرتا ہے تو بعد میں وہاں گاڑی پارک کرنے والے اس کی پیروی کرتے ہوئے گاڑی پارک کرتے ہیں اور گاڑیوں کی لائن لگ جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور آمدورفت میں پریشانی بھی ہوتی ہے۔حتیٰ کہ جہاں گاڑی پارک کرنا ممنوع ہوتا ہے، وہاں پہ بھی گاڑی پارک کرنے سے لوگ نہیں چوکتے اور قانون کی خلاف ورزی کے بھی مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ شریعت کی نگا ہ میں ناپسندیدہ عمل ہے۔
lجارحانہ انداز میں گاڑی چلانا:جارحانہ انداز میں ڈرائیونگ نہ کریں۔اگر کوئی دوسرا ڈرائیور مسئلہ پیدا کر رہا ہو تو درگزر کریں اور اس سے نہ الجھیں۔اگر آپ کو غصہ آجائے تو گاڑی کھڑی کر لیں اور دل ودماغ کو پْر سکون ہونے دیں۔ رہایشی علاقوں کی تنگ سڑکوں جن پر گاڑیاں بھی کھڑی ہوتی ہیں عموماً آپ کو ۰۳کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بڑھنا نہیں چاہیے۔ (ایضاً، ص ۶۹)
زمین کی حدود سے بڑھ کر قبضہ کرنا:
اپنے گھر کی حدود سے بڑھ کر زمین پر قبضہ کرنا ،دکان کے آگے قبضہ کرنا، یا راستے میں کوئی چیز بیچنے کے لیے کھڑے ہوجانا، یہ تمام چیزیں اس وجہ سے ممنوع ہیں کہ اس کی وجہ سے راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور سڑک پر آمدو رفت اور ٹریفک کی روانی متاثر ہوتی ہے۔ کچھ دکان دار اپنی دکان کے آگے کسی اور کو اپنا سامان بیچنے کے لیے کھڑا کردیتے ہیں اور پھر اس سے پیسے بھی لیتے ہیں۔ یہ عمل تو اور زیادہ قبیح ہے۔ اس لیے کہ ایک توایسی زمین پر قبضہ کیا جو اس کی ملکیت نہیں تھی اور پھر برائی کی سرپرستی کی کہ راستہ تنگ ہوگیا، اور اس پر مستزاد یہ کہ پیسے بھی وصول کیے جو اس کا حق نہیں تھا۔
پرنالہ سڑک پر گرانا:
راستے کے تکلیف دہ امور میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ اپنے گھر کا پرنالہ باہر سڑک پر گرائیں۔ اس کی وجہ سے سڑک پر پانی اور پھر کیچڑ جمع ہوتا ہے اور لوگوں کو آنے جانے میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہ چیزبھی ممنوع ہے۔اسی طرح گھر کا صحن یا گلی دھو کر پانی سڑک یا گلی میں بہادینا ،جس سے آنے جانے والوں کو تکلیف ہو، یہ بھی مناسب نہیں۔
یہ تمام چیزیں صرف اس وجہ سے ممنوع ہیں کہ اس سے راستہ تنگ ہوجاتا ہے اور لوگوں کو آمدورفت میں تکلیف ہوتی ہے۔غرض یہ کہ راستے میں کسی کوآپ کے کسی بھی عمل سے تکلیف نہ پہنچے یہ شریعت کا مطالبہ ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’لوگوں میں بہترین وہ ہے جو انھیں فائدہ پہنچا نے والا ہو‘‘ (مسند الشہاب، ۴۳۲۱)۔ لوگوں کو آپ کی ذات سے فائدہ پہنچے۔ کسی کو آپ کی وجہ سے نقصان یا پریشانی نہ اٹھانی پڑے۔ اسی بات کو لے کر حضرت ابوذرؓ نے نبی کریمؐ سے سوال کیا تھا: یارسول اللہ! آپؐ کا کیا خیال ہے اگر میں کوئی بھلائی کا کام کرنے سے عاجز آجا ؤں؟آپؐ نے فرمایا: اپنے شر سے لوگوں کو بچائے رکھو، پس یہ تمھاری طرف سے تمھارے نفس پر صدقہ ہے۔ (مسلم، ۹۱۱)
اسلام کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ آپ کے قول وفعل یا کسی بھی عمل سے کسی کو کوئی تکلیف نہ پہنچے، چاہے وہ جسمانی تکلیف ہو یا روحانی،وقتی ہو یا دائمی،بالواسطہ ہو یا بلا واسطہ۔ ہمیشہ آپ کی ذات سے دوسروں کو نفع پہنچے۔
سلام کا جواب دینا:
سلام کا جواب دینا اور سلام کرنا بھی راستے کے حقوق میں سے ہے۔
اسلام کی بنیاد اور اس کی پہچان امن و سلامتی ہے۔ اس کے اظہار کے لیے اپنے ماننے والوں سے اس کا مطالبہ ہے کہ سلام پھیلاؤ۔ حضرت عبد اللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہؐ سے پوچھا: اسلام میں بہترین عمل کون سا ہے ؟آپؐ نے فرمایا:کھانا کھلانا اور جسے پہچانتے ہو یا نہیں پہچانتے اسے سلام کرنا۔ (بخاری، ۸۲)
راستے میں مختلف طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ کوئی پیدل ہوتا ہے تو کوئی گاڑی میں سوار، کوئی بیٹھا ہوتا ہے تو کوئی گزرنے والا۔ اب اس میں مختلف احکامات ہیں کہ کون کسے سلام کرے۔ اس کے احکامات بھی ہمیں اسلام کی تعلیمات میں ملتے ہیں۔ رسول اکرم? نے فرمایا: سوار، پیدل چلنے والے کو سلام کرے، پیدل گزرنے والا بیٹھے ہوئے کو،اورکم لوگ زیادہ لوگوں کو سلام کریں۔ (بخاری، ۳۳۲۶)
راستہ بھولنے والے کو راستہ بتلانا:
راستے کا ایک حق یہ بھی ہے کہ کوئی شخص راستہ بھول جائے تو اسے صحیح راستے کی طرف رہنمائی کرنا۔اس میں کسی نابینا کو راستہ بتلانا بھی شامل ہے۔ نبی کریمؐ نے فرمایا: جس نے دودھ کے لیے جانور بطور ہبہ کسی کو دیا، یا کسی کو راستہ بتلایا اس کے لیے ایک غلام آزادکرنے کا اجر ہے (ترمذی، ۷۵۹۱)۔
کچھ لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ اگر ان سے کوئی راستہ پوچھے تو اسے صحیح راستہ نہیں بتلاتے۔ یہ انتہائی نا مناسب عمل ہے۔ایک حدیث میں تو اللہ کے رسولؐ نے راستہ بتلانے کو صدقات میں شمار کیا ہے۔حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے، رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا: راستہ بتلانا بھی صدقہ ہے۔ (بخاری، ۱۹۸۲)lll