ربڑ کا استعمال

تحریر: شانتو چین/ چینی سے ترجمہ: محمد سلیم

بیٹے کی شادی سے اگلے دن باپ اُس کے گھر مبارک باد دینے پہنچ گیا۔ باپ کی اچانک آمد پر بیٹا خوشی سے پھولا نہیں سمارہا تھا۔ سلام دعا اور نیک خواہشات کے تبادلوں کے بعد باپ نے بیٹھتے ہی بیٹے سے کاغذ اور پنسل لانے کو کہا۔
بیٹے نے کہا: ابا جی، میں نے شادی سے قبل گھر میں ضرورت کی لگ بھگ ہر چیز نئی خرید کر ڈالی ہے مگر شاید کاغذ اور پنسل خریدنا یاد نہیں رہا۔
باپ نے کہا : خیر ہے کوئی بات نہیں، ابھی جاکر کسی دکان سے کاپی، پنسل اور ربڑلیتے آؤ۔ حیرت کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ بیٹا بازار سے جاکر کاپی پنسل اور ربڑ خرید لایا۔ یہ مطلوبہ چیزیں اپنے والد کے سامنے رکھتے ہوئے اس کے پہلو سے لگ کر بیٹھ گیا۔ باپ نے یہ چیزیں واپس بیٹے کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا: لکھو۔
بیٹا: کیا لکھوں؟
باپ: جو جی میں آئے لکھ ڈالو۔
باپ کی بات کا مطلب سمجھ میں نہ آنے کے باوجود بھی حکم کی تعمیل میں بیٹے نے کاپی پر اپنی طرف سے ایک جملہ لکھ دیا۔ باپ نے بیٹے کا جملہ مکمل ہوتے ہی مٹانے کو کہہ دیا۔ نوجوان نے بغیر کسی ردّ و کد کے جملہ مٹا دیا۔
باپ: لکھو۔
بیٹا: ابا جی آخر میں کیا لکھوں؟
باپ: جو جی میں آتا ہے لکھ ڈالو۔
بیٹے نے ایک بار پھر اپنی طرف سے کاپی میں ایک جملہ لکھ ڈالا۔ جملہ مکمل ہوتے ہی باپ نے ایک بار پھر اِسے مٹانے کو کہا۔ نوجوان نے اس بار پھر حیرت کے ساتھ ربڑ اٹھایا اور اپنا لکھا ہوا جملہ مٹا ڈالا۔
باپ: لکھو۔
بیٹا: ابا جی! خدا کے لیے کچھ تو بتائیں کہ میں آخر کیا لکھوں؟
باپ: جو جی میں آتا ہے لکھو۔
بظاہر باپ کا رویہ سمجھ میں نہ آنے کے باوجود بھی بیٹے نے ایک بار پھر کاپی میں ایک جملہ لکھا۔
جملہ مکمل ہوتے ہی باپ نے ایک بار پھر مٹا دینے کو کہا اور بیٹے نے مزید حیرت و استعجاب کے ساتھ مگر بلا توقف اسے مٹا ڈالا۔
باپ نے نظریں اٹھا کر بیٹے کو دیکھا، اپنا ہاتھ شفقت کے ساتھ اس کے کندھے پر رکھتے ہوئے کہا: بیٹے! کچھ اس طرح ہی شادی کی مثال ہوتی ہے۔ شادی کے بعد ہمیشہ ایک ربڑ کی ضرورت پڑتی ہے۔ ربڑ اپنے ساتھ رکھو تاکہ شادی کے صفحات پر کچھ معیوب اور مزاج سے مخالف بات نظر آئے تو اسے مٹا ڈالو اور تیری بیوی بھی ایسا ہی کرتے ہوئے تیری خامیوں پر پردہ ڈالنے کی خاطر اپنی کتاب سے اُن ناپسندیدہ رویوں اور واقعات کو مٹا ڈالا کرے۔ اگر ایسا نہ کیا تو یہ کاپی کچھ ہی دنوں میں گڈ مڈ لکیروں اور سیاہی کے بھدے داغوں سے بھر جائے گی۔ بلکہ تھوڑی سی سمجھداری اور دانائی کے ساتھ زندگی گزارنے سے تو کاپی پنسل اور ربڑ خریدنے پر خرچ کیے جانے والے پیسے بھی بچائے جاسکتے ہیں۔ زندگی میں کئی ایسے معمولی واقعات پیش آجاتے ہیں جن پر غوروخوض کرنا بھی محض اپنا وقت برباد کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ کیا بگڑ جائے گا اگر ان واقعات کو نظر انداز کرتے ہوئے بندہ اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو خوشی اور خوبصورتی کے ساتھ نباہ کرتے ہوئے گزارے۔ تلخ یادوں اور فضول حجتوں کو پلّے باندھنے کی توانائی بچا کر زندگی کو اُس کی اصلی لذت اور بھر پور مسرتوں کے ساتھ گزارے۔
عرب کہا کرتے ہیں کہ کسی قوم کا جاہل شخص اُس قوم کا سردار تو نہیں ہوا کرتا مگر سردار قوم کی جہالتوں کو صرفِ نظر کرنے والا ضرور ہوا کرتا ہے۔ اور اسی بات کی تائید امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنے اس قول میں کرتے نظر آتے ہیں کہ اخلاق کا حسن اور خوبصورتی دس میں سے نو حصے تو نظر انداز کرتے رہنے میں ہے۔ اور نظر انداز کردینے کا مطلب علم اور ادراک رکھنے کے باوجودبھی غیر ضروری اور معمولی توجہ کے قابل معاملات پر غوروخوض کرنے سے اجتناب کرنا ہوتا ہے۔ یا سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ تم کسی معمولی واقعے کے بارے میں جانتے تو ضرور تھے مگر اس کے ضررونقصانات اور فتنے سے بچنے کی خاطر ان پر غوروخوض اور توانائی صرف کرنا بہتر نہ جانتے ہوئے نظر انداز کیا۔ یہ بات بالکل ایسے ہی ہے جس طرح کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدح سرائی میں کہا جاتا ہے کہ آپ گھر میں تو ایک لومڑی کی مانند (لاتعلق اور مداخلت نہ کرنے والا) مگر گھر سے باہر ایک شیر کی مانند تھے۔ اس کا یہ بھی مطلب بنتا ہے کہ وہ اپنے گردونواح میں وقوع پذیر ہونے والے چھوٹے موٹے واقعات سے تغافل برتتے تھے تاکہ علم و ادراک ہونے کے باوجود بھی مخل ہونے سے اہلِ خانہ یا دوسرے لوگوں کے جذبات و احساسات مجروح نہ ہوں۔ یا اُن کی دخل اندازی دوسروں کی طبیعت پر گراں نہ گزرے۔ یہاں یہ بات شدت کے ساتھ ذہن میں رکھی جائے کہ یہ سب باتیں اُن امور سے متعلق ہیں، جن میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی ناراضی اور احکامِ شرعیہ کے متصادم ہونے کا اندیشہ نہیں ہوتا تھا۔ اور اسی بات کی طرف تو سرکارِ دو عالم ﷺ نے اشارہ فرمایا ہے کہ (مسلم کی روایت کردہ ایک حدیثِ مبارک کا مفہوم) کوئی مومن یا مومنہ اس حالت میں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہورہے ہوتے کہ اُن کے درمیان کسی بات پر نفرت و ناراضی تھی اور اب وہ آپس میں راضی نہ ہوچکے ہوں۔ یہ اصول صرف شادی شدہ لوگوں پر ہی لاگو نہیں ہوتا بلکہ روز مرہ کے ہر شعبہ میں ہی اس کی ضرورت ہے بس اتنا خیال رکھا جائے کہ ہر شخص ہر معاملے یا ہر کام کو اُس کی ضرورت اور اہمیت کے مطابق ہی قدرومنزلت دی جائے تاکہ ہم کسی کی اہمیت اور فوائد کو کھو نہ بیٹھیں۔ اور اس بات کا بھی خاص دھیان رہے کہ ہم ربڑ کا استعمال کہیں خوبصورت یادوں کو یا کسی کے احسانات او رمہربانیو ںکو مٹانے میں نہ کربیٹھیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں