دنیا کی مختلف قوموں اور مختلف ملکوں میں ایک سے ایک مصلح گزرے ہیں، جنھوں نے انسانی سماج کو سدھارنے کی جدوجہد کی، جنھوں نے اچھائیوں کی دعوت دی اور برائیوں سے روکا، لیکن ان میں سے ہر ایک کا حال یہ تھا کہ اس نے کچھ خاص خاص اچھائیوں پر زور دیا اور چند ایک برائیوں کے خلاف آواز اٹھائی۔
ایسا کوئی مصلح نہیں پاؤگے، جس نے پوری انسانی زندگی کو اچھائی کے سانچے میں ڈھال دیا ہو، جس نے زندگی کے تمام پہلوؤں کا گہرا مطالعہ کیا ہو۔ ہر شعبہ زندگی میں جتنی اچھائیاں ہوسکتی تھیں، ان سب کی تاکید کی ہو اور جتنی برائیاں ہوسکتی تھیں،ان سب کے خلاف آواز اٹھائی ہو۔
یہ خصوصیت بس محمد عربی ﷺ کو حاصل تھی، جنھیں رب العالمین نے رحمۃ للعالمینؒ بنا کر بھیجا تھا اور تورات و انجیل میں، جن کی خصوصیات میں سے یہ خصوصیت خاص طور سے ذکر فرمائی تھی:
یامرہم بالمعروف وینہاہم عن المنکر۔
(الاعراف: ۱۵۷)
’’وہ انھیں اچھائیوں کا حکم دے گا اور برائیوں سے روکے گا۔‘‘
چنانچہ اس پیشین گوئی کے مطابق آنے والا نبی آیا تو اس نے ایسا نہیں کیا کہ وہ عام انسانوں سے الگ تھلگ رہتے ہوئے کچھ اچھائیوں کی تلقین کردے اور کچھ برائیوں سے دور رہنے کی نصیحت کردے۔ بلکہ اس نے عام انسانوں کے درمیان اور مسائل کے منجدھار میں رہتے ہوئے اپنی زندگی گزاری اور قدم قدم پر پیش آنے والے معاملات میں بتایا کہ خیر کیا ہے؟ شر کیا ہے؟ جائز کیا ہے؟ ناجائز کیا ہے؟ کیا کرنا ہے؟ اور کیا نہیں کرنا ہے؟
تاجر کوہدایت
اس نے بتایا اگر تجارت کی جائے تو اس طرح کی جائے کہ کسی کو دھوکا نہ دیا جائے، اس نے تاکید کی، جو چیز لوگوں کو دکھاؤ، وہی چیز ان کے ہاتھ فروخت کرو۔ ایسا نہ ہو کہ سامنے تو اچھا مال رکھ دو اور دیتے وقت غلط مال دے دو۔
روایتوں میں آتا ہے کہ ایک بار آپؐ نے دیکھا ایک شخص غلّے کی تجارت کررہا ہے اور سامنے غلّے کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ آپؐ نے اس غلّے کے اندر اپنا ہاتھ ڈال دیا۔ دیکھا تو اوپر جو غلّہ تھا، اندر کا غلّہ اس سے مختلف تھا۔ اوپر تو سوکھا ہوا غلّہ تھا مگر اندر کا غلّہ بھیگا ہوا تھا۔
آپ نے فرمایا: اے گندم بیچنے والے! یہ کیا ہے؟
’’اللہ کے رسول! یہ بارش سے بھیگ گیا ہے۔‘‘ گندم بیچنے والے نے عرض کیا۔
آپ نے فرمایا: ’’تو اس بھیگے ہوئے غلّے کو اوپر کیوں نہیں رکھا کہ لوگ اسے دیکھ سکیں۔ یاد رکھو، جو لوگوں کو دھوکا دیتا ہے، وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘
اس طرح آپؐ نے حیاتِ انسانی کے ایک ایک گوشے کاجائزہ لیا اور زندگی کی کوئی ایسی اچھائی نہیں، جس کی تاکید نہ کی ہو اور کوئی ایسی برائی نہیں، جس سے خبردار نہ کیا ہو۔
ایمان کا دلکش تصور
حد یہ ہے کہ آپؐ نے ایک مومن کے ایمان کی علامت ہی یہ قرار دی کہ اسے اچھائی کرکے خوشی ہو اور برائی سرزد ہوجائے تو تکلیف ہو۔ آپ نے مومن کی شان ہی یہ بتائی کہ لوگ اس کی طرف سے پرامن رہیں۔ اس سے کوئی اندیشہ نہ رکھیں۔
آپؐ نے فرمایا:اللہ تعالیٰ کے ہاں بندے کا نام مومنین کے رجسٹر میں لکھا ہی نہیں جاتا، جب تک لوگ اس کے ہاتھ اور زبان سے محفوظ نہ ہوں اور وہ مومنین کا درجہ نہیں حاصل کرسکتا جب تک اس کاپڑوسی اس کی اذیتوں سے محفوظ نہ ہو۔
آپؐ نے فرمایا: تین چیزیں ایسی ہیں، جو کسی کے اندر بھی ہوں تو وہ منافق شمار ہوگا چاہے وہ روزے رکھتا ہو اور نمازیں پڑھتا ہو۔ حتیٰ کہ اس نے حج اور عمرہ بھی کرلیا ہو۔ اور یہ دعویٰ کرتا ہو کہ وہ مسلم ہے۔ وہ شخص جو بات کرے تو جھوٹ بولے، وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے، ا س کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
آپؐ نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں، جو عصبیت کی دعوت دے، وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں، جو عصبیت کی بنیاد پر جنگ کرے اور وہ شخص بھی ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر جان دے۔ کیا قوموں کی پوری تاریخ میں کوئی بھی مصلح ایسا گزرا ہے، جس نے زندگی کے ایک ایک شعبے کی اصلاح کی ہو؟
اب آؤ ذرا تفصیل سے دیکھو، زندگی کا کون سا گوشہ ہے، جس کی رحمت نے اصلاح نہیں کی؟ حیاتِ انسانی کا کون سا شعبہ ہے، جس کی برائیوں کا سدِ باب نہیں کیا اور اس میں بھلائیوں کو فروغ نہیں دیا؟
ظلم کا خاتمہ
انسانی زندگی کی سب سے بڑی برائی ظلم ہے۔ ظلم کے خلاف بے شمار لوگوں نے آوازیں اٹھائیں، لیکن رحمۃ للعالمین نے ظلم کی جیسی مذمت کی اور جس طرح اس کی جڑوں پر تیشے چلائے، اس کی کوئی نظیر نہیں پاؤگے۔
آپؐ نے فرمایا: اگر کوئی کسی کے بارے میں جانتا ہے کہ وہ ظالم ہے، اور پھر وہ اس ظالم کے ساتھ چند قدم بھی چلتا ہے اس کی مدد کے لیے، تو وہ اسلام کے دائرے سے خارج ہے۔
آپؐ نے فرمایا: اگر کوئی ظلم و زیادتی سے کسی کی زمین پر قابض ہوجاتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس پر سخت غضب ناک ہوگا۔
ظلم تو بہت دور کی بات ہے، آپؐ نے تو یہ تاکید فرمائی کہ اگر کسی مزدور سے تم نے خدمت لی ہے تو اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے اس کی مزدوری ادا کردو۔
آپؐ نے یہاں تک تاکید فرمائی کہ اگر کوئی آدمی کسی سے کوئی سودا کررہا ہو تو تم اس کے بیچ میں نہ کودو۔ اگر کسی نے نکا ح کا پیغام دیا ہے تو تم اس کے قریب نہ پھٹکو، اور اس کا معاملہ خراب نہ کرو۔
غرض آپ ؐ نے ظلم اور حق تلفی کے تمام دروازے، بلکہ یوں کہو ظلم اور حق تلفی کے تمام رخنے بند کردیے۔ کوئی بھی ایسی بات، کوئی بھی ایسا معاملہ، کوئی بھی ایسا انداز، جس سے ظلم کی بو آتی ہو، اس سے آپؐ نے کبھی چشم پوشی نہیں کی۔
شفقت و محبت
انسان تو انسا ن، آپ ﷺ نے کسی حیوان کو بھی مظلومی کی حالت میں دیکھنا پسند نہیں فرمایا۔ آپؐ کا ارشاد ہے: اگر کسی نے کوئی ننھی سی چڑیا بھی ناحق ماری تو قیامت کے دن وہ اللہ کے یہاں جواب دہ ہوگا۔
آپؐ نے فرمایا: لعنت ہے اس شخص پر، جو کسی حیوان کا مثلہ کرے۔ محض اپنی تفریح کے لیے اس کے جسم میں چیر پھاڑ کرے۔
آپؐ نے ظلم و زیادتی کو، چاہے وہ کسی پر برپا ہوئی ہو اور کسی بھی شکل میں ہو، ایک لمحے کے لیے بھی برداشت نہیں کیا۔ اس کے برعکس آپؐ نے اخوت اور محبت کا درس دیا۔ شفقت اور دل سوزی کا پیغام دیا۔
ایک موقعے پر آپؐ نے مہاجرین و انصار کو مخاطب کرکے فرمایا:
’’اے گروہ مہاجرین، اور اے گروہ انصار! تمہارے کچھ بھائی ایسے بھی ہیں، جن کے پاس نہ مال ہے، نہ ان کا کوئی گھر بار ہے، تو تم میں کا ہر شخص دو دو تین تین آدمیوں کو اپنے ساتھ ملالے۔‘‘
ایک اورموقعے پر صحابہ کرامؓ سے فرمایا: جس کے پاس دو آدمیوں کا کھانا ہو، وہ ایک تیسرے آدمی کو بھی اپنے ساتھ لے جائے، جس کے پاس چار آدمیوں کاکھانا ہو، وہ اپنے ساتھ ایک پانچواں ، بلکہ چھٹا شخص بھی لے جائے۔
اخوت و محبت اور ہم دردی و غم خواری کا کتنا زبردست پیغام ہے یہ!
یہاں یہ بات واضح رہے کہ یہ پیغام محبت مسلمانوں کے لیے خاص نہ تھا، بلکہ ہر ہر انسان سے آپؐ نے محبت کرنا سکھایا ہے۔ ہر انسان کے دکھ درد میں شریک ہونے اور مصیبت میں اس کا ساتھ دینے کا پیغام دیا۔
آپؐ نے فرمایا: اگر کوئی آسودہ اور سیر شکم ہوکر سوتا ہے اور اس کے بغل میں اس کا پڑوسی بھوکا رہتا ہے، اور ایسا وہ جانتے بوجھتے کرتا ہے تو اس کا ایمان قابلِ قبول نہیں۔
وہ پڑوسی، جس کے ساتھ ہم دردی و غم خواری کو آپﷺ نے ایمان کے لیے ضروری قرار دیا، اس کا مسلم ہونا ضروری نہیں ہے۔ وہ یہودی بھی ہوسکتا ہے، عیسائی بھی ہوسکتا ہے، ہندو بھی ہوسکتا ہے، سکھ بھی ہوسکتا ہے، وہ کسی بھی قوم، کسی بھی نسل اور کسی بھی مذہب کا ہوسکتا ہے۔
آپؐ نے پڑوسی کے حقوق کی مزید تاکید کرتے ہوئے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنی زمین یا گھر یا کھیت یا باغ بیچنے کا ارادہ کرے تو پہلے اپنے پڑوسی کو اس کی اطلاع دے۔
یہاں بھی آپؐ نے کسی پڑوسی کو خاص نہیں کیا۔ یہ پڑوسی کوئی بھی ہوسکتا ہے۔ کسی بھی طبقے اور کسی بھی مذہب کا ہوسکتا ہے۔ جو بھی پڑوسی ہو اسے یہ حق حاصل ہوگا۔
حقیقت یہ ہے کہ رحمۃ للعالمین کی یہ محبت و شفقت ہر ایک کے لیے عام تھی۔ مسلم ہو یا غیر مسلم، دوست ہو یا دشمن، انسان ہو یا حیوان کوئی بھی آپؐ کی اس محبت سے محروم نہ رہا۔ سب سے آپؐ نے خود محبت کی اور ساتھیوں کو بھی اسی محبت کی تعلیم دی۔
یہ توباہمی سلوک اور انسانی تعلقات کی بات ہوئی۔ کیا باہمی سلوک اور انسانی تعلقات کے سلسلے میں اتنی جامع اور مکمل تعلیمات کہیں اور ملتی ہیں؟ کیا انسانی تعلقات کے لیے اس سے زیادہ خوب صورت ہدایات کسی اور مصلح کے یہاں موجود ہیں؟
انسانوں کو عزت دی
اور آگے بڑھو، دیکھو اس رہبر کامل نے انسانوں کو کتنی عزت دی۔ ایک طرف تو آپ نے حسنِ تعلق اور حسنِ سلوک پر زور دیا۔ مگر دوسری طرف انسانیت کی عظمت اور انسانیت کا احترام بھی ملحوظ رکھا۔
آپ نے انسانوں سے محبت کرنے کی تو تعلیم دی، مگر انسانو ںکی غلامی سے منع کیا۔ آپؐ نے فرمایا: کسی مخلوق کی اطاعت، جس سے خالق کی نافرمانی ہوتی ہو، کسی بھی حال میں جائز نہیں۔ کسی بھی انسان کی اطاعت بس بھلائی کے کاموںمیں کرنی ہے۔
کیا یہ انسان کی بے عزتی نہیں کہ وہ اپنے ہی جیسے انسانوں کی غلامی کرے؟ اور کیا یہ انسان کی نادانی نہیں کہ وہ جس خدا کا بندہ ہے، جس کی نعمتوں سے رات و دن سیراب ہوتا ہے، اور جو غضب ناک ہوجائے، تو اس کے مقابلے میں کوئی پناہ دینے والا نہیں، ایک ایسی ذات کو وہ ناخوش کرکے اپنے ہی جیسے بے بس انسانوں کو خوش کرنے کی کوشش کرے؟
چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنے رب کو ناخوش کرکے اگر کسی نے اپنے بادشاہ کو خوش کیا تو اس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
رحمۃ للعالمینؐ نے انسان کے مقام کو کہاں سے کہاںپہنچادیا، جب اسے یہ احساس دلایا کہ تمہارا خالق ہی اس لائق ہے کہ اس کی بندگی کرو۔ کوئی دوسرا اس قابل نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے، یا آنکھیں بند کرکے ہر صحیح اور غلط بات میں اس کی اطاعت کی جائے۔
انسانی مساوات
آپؐ نے فرمایا: سارے انسان آدم سے ہیں اور آدم مٹی سے بنائے گئے۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر برتری حاصل نہیںہے۔ تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے، جو سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا ہو۔
آپؐ نے یہ ارشاد فرماکر پوری نوعِ انسانی کو کیسی عظمت عطا کردی! وہ مظلوم اور بدحال طبقے، جو پشت ہا پشت سے بلکہ ہزاروں سال سے کچلے ہوئے ہیں، جو ہر طرح سے دبائے اور ستائے ہوئے ہیں، جو ہر طرح کی عزت اور ہر طرح کی رعایت سے محروم ہیں، ان کے ٹوٹے ہوئے زخمی دلوں پر آپؐ نے کیسا ٹھنڈا مرہم رکھ دیا!!
سارے انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، لہٰذا وہ سب برابر ہیں۔ آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ پیدائشی طور سے ان میں کوئی اونچ نیچ نہیں۔ کوئی چھوٹا بڑا نہیں۔ ان میں سب سے اونچا اور سب سے بڑا بس وہ ہے، جو اپنے کاموں کے لحاظ سے سب سے اونچا ہو، جو اپنے رب سے سب سے زیادہ ڈرنے والا اور اس کا سب سے زیادہ فرماں بردار ہو۔
عزت و ذلت کا کیسا منصفانہ اور کیسا بے مثال پیمانہ ہے، اگر کسی سماج میں عزت و ذلت کا یہ پیمانہ رائج ہوجائے، تو اس سے بہتر سماج اور کون سا ہوسکتا ہے؟
وہ سماج تو تہذیب و تمدن کی اتنی بلند چوٹی پر ہوگا، اس قدر پرسکون، پرامن اور خوشحال ہوگا اور اس میں عدل و انصاف کا ایسا دور دورہ ہوگا کہ دیکھنے والا اسی دنیا کے اندر اس کے آئینے میں جنت کی تصویر دیکھ لے گا۔
حکام کے سلسلے میں ہدایات
پھر آپؐ نے جہاں برائی اور خدا کی نافرمانی میں کسی حاکم کی اطاعت سے منع فرمایا، وہیں رعایا کو اس بات کی تاکید فرمائی کہ وہ اپنے ذمے داروں یا سربراہوں کو گالیاں نہ دے۔ آپؐ نے فرمایا: امرا و حکام کو گالیاں نہ دو، ان کے لیے دعائیں کرو کہ وہ سدھر جائیں، کیوںکہ ان کے سدھر جانے سے تمہارے تمام معاملات سدھرجائیں گے۔
کتنی حکیمانہ بات فرمائی ہے آپؐ نے! امرا اور حکام کی برائیوں اور بے عنوانیوں سے نفرت اور بے زاری تو بہت اچھی اور قابل قدر بات ہے، لیکن اس کا علاج یہ تو نہیں ہے کہ انھیں گالیاں دی جائیں۔ انھیں گالیاں دینے سے ان کی برائیاں اور بے عنوانیاں تو دور نہیں ہوںگی، البتہ اس سے ایک نئی برائی جنم لے گی۔ ان سے خود گالیاں دینے والوں کا کردار داغ دار ہوگا۔
آپؐ نے حکمرانوں کو بھی تنبیہ کی، فرمایا:جس نے کسی گروہ میں سے کسی شخص کو کوئی عہدہ دیا، حالاں کہ اس گروہ میں کوئی ایسا شخص موجود ہے، جو اس سے زیادہ اللہ کی نگاہ میں پسندیدہ ہے، تو اس نے اللہ، اللہ کے رسول اور تمام مومنین کے ساتھ خیانت کی۔
کتنی عمدہ، متوازن اور جچی تلی ہدایت ہے یہ!
اگر عہدوں اور مناصب کی تقسیم محض نیکی، دین داری اور اہلیت کی بنیاد پر ہونے لگے تویہ دنیا کس طرح خیر کا گہوارہ بن جائے اور شر و فساد کو کہیں پنپنے کا موقع نہ ملے۔
یہ چند مثالیں ہیں، ورنہ آپؐ نے زندگی کے تمام شعبوں کے سلسلے میں اسی طرح رہنمائی دی۔ ہر معاملے کے، جو اچھے اور تعمیری پہلو تھے، ان کی تلقین فرمائی اور جو برے اور منفی پہلو تھے، ان سے منع فرمایا۔ آپؐ نے ہر اچھائی کی بھرپور حوصلہ افزائی کی اور ہر برائی کی شدت سے مذمت کی۔
رحمۃ للعالمینؐ کا امتیاز
یہ رحمۃ للعالمین کی ایسی خصوصیت ہے، جس میں آپؐ کا کوئی شریک نہیں، دنیا کی ایک ایک قوم کے مصلحین اور دانشوروں کو دیکھ ڈالو۔ ان کے کاموں اور ان کے پیغاموں کو دیکھ ڈالو، ان کی ہدایتوں اور ان کی نصیحتوں کا مطالعہ کرڈالو، تم کسی کے یہاں بھی نیکی اور بدی، حق اور ناحق، صحیح اور غلط کا واضح اور وسیع و ہمہ گیر تصور نہیں پاؤگے، جو رحمۃ للعالمینؐ کے یہاں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔
اپنی بعثت کا تعارف کراتے ہوئے آپؐ نے کتنی صحیح بات فرمائی تھی: ’’میں بھیجا گیا ہوں، تاکہ اچھے اخلاق کی تکمیل کروں، تمام اچھائیوں کو کمال کی بلندیوں تک پہنچادوں۔‘‘
اگر آج دنیا چاہتی ہے کہ ایک پاکیزہ سماج اور ایک پاکیزہ ماحول کے اندر ایک پاکیزہ ز ندگی بسر کرے اور ایک پاکیزہ زندگی کی، جو لذتیں اور برکتیں ہوتی ہیں، ان سے ہم کنار ہو تو اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ کسی تعصب سے کام لیے بغیر رحمۃ للعالمین کی دی ہوئی تعلیمات اور ہدایات کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائے۔ وہ زندگی کی تاریک گلیوں میں ان سے روشنی حاصل کرے۔
ورنہ زندگی کی ظلمتوں سے نکلنا ممکن نہیں، انسانی سماج کی برائیوں سے نجات پانا ممکن نہیں اور ان ظلمتوں اور برائیوں کے ہاتھوں، آج کا انسان کرب و اضطراب کے، جن انگاروں پر لوٹ رہا ہے، ان انگاروں سے چھٹکارا پانا ممکن نہیں۔
——