’’پھر(اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی ان لوگوں میں شامل ہو، جو ایمان لائے اور جنھوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلقِ خدا پر) رحم کی تلقین کی۔‘‘ (البلد:۱۷)
اہلِ ایمان کے معاشرے کی امتیازی شان یہی ہے کہ وہ ایک سنگ دل، بے رحم اور ظالم معاشرہ نہیں ہوتا بلکہ انسانیت کے لیے رحیم و شفیق اور آپس میں ایک دوسرے کا ہمدرد و غم خوار معاشرہ ہوتا ہے۔ فرد کی حیثیت سے بھی ایک مومن اللہ کی شانِ رحیمی کا مظہر ہے اور جماعت کی حیثیت سے بھی مومنوں کا گروہ خدا کے اس رسول کا نمائندہ ہے، جس کی تعریف میں فرمایا گیا کہ وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین (الانبیا:۱۰۶) آنحضور ﷺ نے سب سے بڑھ کر جس بلند اخلاقی صفت کو اپنی امت میں فروغ دینے کی کوشش فرمائی ہے، وہ یہی رحم کی صفت ہے۔ مثال کے طور پر آپؐ کے حسب ذیل ارشادات ملاحظہ ہوں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نگاہ میں اس کی کیا اہمیت تھی۔ حضرت جریر بن عبداللہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر رحم نہیں کرتا۔‘‘ (بخاری، مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے۔ زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ (ابوداؤد، ترمذی)
حضرت ابوسعیدؓ خدری حضور کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: ’’جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔‘‘ (بخاری فی الادب المفرد)
ابنِ عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کھائے اور ہمارے بڑوں کی توقیر نہ کرے۔‘‘ (ترمذی)
ابوداؤد نے حضورﷺ کے اس ارشاد کو حضرت عبداللہ بن عمرو کے حوالے سے یوں نقل کیا ہے: ’’جس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کھایا اور ہمارے بڑوں کا حق نہ پہنچانا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔‘‘
حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے ابوالقاسم صادق و مصدوق ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے: ’’بدبخت آدمی کے دل ہی سے رحم سلب کرلیا جاتا ہے۔‘‘ (مسند احمد، ترمذی)
حضرت عیاض ؓ بن حمار کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: تین قسم کے آدمی جنتی ہیں۔ ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو ہر رشتہ دار اور ہر مسلمان کے لیے رحیم اور رقیق القلب ہو۔‘‘ (مسلم)
حضرت نعمان بن بشیرؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’تم مومنوں کو آپس کے رحم اور محبت اور ہمدردی کے معاملے میں ایک جسم کی طرح پاؤگے کہ اگر ایک عضو میں کوئی تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی خاطر بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘’ (بخاری و مسلم)
حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا: ’’مومن دوسرے مومن کے لیے اس دیوار کی طرح ہے جس کا ہر حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ ،حضورﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس کی مدد سے باز رہتا ہے، جو شخص اپنے بھائی کی کسی حاجت کو پورا کرنے میں لگا ہوگا اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگ جائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کو کسی مصیبت سے نکالے گا، اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت سے نکال دے گا، اور جو شخص کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے گا اللہ قیامت کے روز اس کی عیب پوشی کرے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
ان ارشادات سے معلوم ہوجاتا ہے کہ نیک اعمال کرنے والوں کو ایمان لانے کے بعد اہلِ ایمان کے گروہ میں شامل ہونے کی جو ہدایت قرآنِ مجید کی اس آیت میں دی گئی ہے اس سے کس قسم کا معاشرہ بنانا مقصود ہے۔ (تفہیم القرآن، ششم، ص ۲۴۴،۲۴۶، البلد، حاشیہ ۱۴)
ضبطِ نفس
ضبط نفس سے مراد یہ ہے کہ آدمی کی خودی جسم اور اس کی طاقتوں پر اچھی طرح قابو یافتہ ہو اور نفس کی خواہشات و جذبات پر اس کی گرفت اتنی مضبوط ہو کہ وہ اس کے فیصلوں کے تابع ہوکر رہیں۔ انسان کے وجود میں خودی کا مقام وہی ہے جو ایک سلطنت میں حکمراں کا مقام ہوا کرتا ہے جسم اور اس کے اعضا خودی کے آلۂ کار ہیں۔ تمام جسمانی اور دماغی طاقتیں خودی کی خدمت کے لیے ہیں۔ نفس کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ خودی کے حضور اپنی خواہشات کو درخواست کے طور پر پیش کرے۔ فیصلہ خودی کے اختیار میں ہے کہ وہ ان آلات اور طاقتوں کو کس مقصد کے لیے استعمال کرے اور نفس کی گزارشات میں سے کسے قبول اور کسے رد کردے۔ اگر کوئی خودی اتنی کمزور ہو کہ جسم کی مملکت میں وہ اپنا حکم اپنے منشا کے مطابق نہ چلا سکے اور اس کے لیے نفس کی خواہشیں مطالبات اور احکام کا درجہ رکھتی ہوں تو وہ ایک مغلوب اور بے بس خودی ہے۔ اس کی مثال اس سوار کی سی ہے جو اپنے گھوڑے کے قابو میں آگیا ہو۔ ایسے کمزور انسان دنیا میں کسی قسم کی بھی کامیاب زندگی بسر نہیں کرسکتے۔ تاریخ انسانی میں جن لوگوں نے اپنا کوئی نقش چھوڑا ہے وہ وہی لوگ تھے جنھوں نے اپنے وجود کی طاقتوں کو بزور اپنا محکوم بناکر رکھا ہے، جو خواہشاتِ نفس کے بندے اور جذبات کے غلام بن کر نہیں بلکہ ان کے آقا بن کر رہے ہیں۔ جن کے ارادے مضبوط اور عزم پختہ رہے ہیں۔
لیکن فرق اور بہت فرق ہے اس خودی میں جو خود خدا بن جائے اور اس خودی میں جو خدا کی تابع فرمان بن کر کام کرے۔ کامیاب زندگی کے لیے خودی کا قابو یافتہ ہونا تو بہرحال ضروری ہے، مگر جو خودی اپنے خالق سے آزاد اور دنیا کے مالک سے بے نیاز ہو، جو کسی بالاتر اخلاقی قانون کی پابند نہ ہو، جس کو کسی حساب لینے والے کی باز پرس کا اندیشہ نہ ہو، وہ اگر اپنے جسم و نفس کی طاقتوں پر قابو پاکر ایک پُرزور خودی بن جائے تو وہ دنیا میں فرعون اور نمرود ، ہٹلر اور مسولینی جیسے بڑے بڑے مفسد ہی پیدا کرسکتی ہے۔ ایسا ضبطِ نفس نہ قابلِ تعریف ہے اور نہ وہ اسلام کو مطلوب ہے۔ اسلام جس ضبطِ نفس کا قائل ہے وہ یہ ہے کہ پہلے انسان کی خودی اپنے خدا کے آگے سر تسلیم خم کردے، اس کی رضا کی طلب اور اس کے قانون کی اطاعت کو اپنا شعار بنالے، اس کے سامنے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھ لے، پھر اس مسلم و مومن خودی کو اپنے جسم اور اس کی طاقتوں پر حاکمانہ اقتدار، اور اپنے نفس اور اس کی خواہشوں پر قاہرانہ تسلط حاصل ہو، تاکہ وہ دنیا میں ایک مصلح قوت بن سکے۔ ——