معاشرے میں رسم و رواج کو بڑی طاقت حاصل ہے۔ مومن کو اس طاقت کے مقابلے میں بھی اپنے ایمان کی قوت کا امتحان دینا ہوتا ہے ایک طرف رسم و رواج کا دباؤ ہوتا ہے، دوسری طرف ایمان کے تقاضے۔ ایسے وقت میں وہی لوگ ایمان کے تقاضے پورے کرسکتے ہیں جن کے ایمان مضبوط ہوں، اور جو اللہ کے سامنے حاضر ہونے کا پختہ یقین رکھتے ہوں۔ رسم و رواج کے خلاف اہل ایمان کی جنگ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ خود نبیﷺ کو آگے بڑھ کر اس قلعہ پر حملہ کرنا ضروری ہوا۔ عربوں میں منہ بولے بیٹے (لے پالک متنبی) کا عام رواج تھا اور ان کے منہ بولے بیٹوں کو تقریباً وہی حقوق حاصل تھے جو حقیقی بیٹوں کے ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس رواج کو غلط ٹھیرایا اور فرمایا:
ترجمہ: ’’(اللہ نے) تمہارے لے پالکوں کو تمہارا بیٹا نہیں بنایا یہ سب تمہارے منہ کی باتیں ہیں۔ لے پالکوں کو ان کے اصلی باپوں کے نام سے پکارا کرو اللہ کے نزدیک یہی بات ٹھیک ہے۔‘‘ (قرآن)
ترجمہ: ’’کسی مومن مرد اور کسی مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب کسی بارے میں اللہ اور اس کا رسول کوئی بات طے کردیں تو پھر بھی وہ یہ سمجھیں کہ اس کام کے بارے میں انہیں کوئی اختیار ہے۔ (قرآن)
اسلام کا مطلب ہی یہ ہے کہ انسان بلا شرط اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول کے حوالے کردے جب یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں بات کے بارے میں اللہ اور اس کے رسول کا حکم یہ ہے تو پھر اسے بلا حجت فوراً مان لے، اب ایک طرف تو اسلام کا یہ کھلا ہوا مطالبہ تھا کہ مومن اپنے اختیارات سے اللہ او راس کے رسول کے حق میں دست بردار ہوجائے دوسری طرف رسم و رواج کا دباؤ تھا۔ عربوں میں منہ بولا بیٹا مثل اپنے بیٹے کے سمجھا جاتا تھا، اس کی بیوی کا وہی مقام تھا جو حقیقی بہو کا ہوتا ہے وہ تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ طلاق یا موت کے بعد لے پالک کی بیوی سے نکاح بھی ہوسکتا ہے۔ حالاں کہ خدائی قانون کے مطابق نہ لے پالک بیٹا تھا اور نہ اس کی بیوی بہو، یہ بڑا نازک سوال تھا اوربڑا سخت امتحان، ایک طرف خدائی قانون کے مطابق حلال او رحرام کی حدیں تھیں۔ دوسری طرف رسم و رواج کی زنجیریں تھیں، پھر مسئلہ یہ نہیں تھا کہ اسلام کسی ایسے کام کا حکم دے رہا تھا جو رِواجاً برا تھا بلکہ بات صرف اتنی تھی کہ اسلام ایک ایسے کام کی اجازت دے رہا تھا جسے رسم و رواج نے معیوب بنا رکھا تھا۔ ایسے نازک موقع پر خود نبیﷺ نے رسم و رواج کی زنجیروں کو توڑا۔ اپنی ذات کو لوگوں کے اعتراضات کا نشانہ بنایا اور جب آپؐ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید نے اپنی بیوی حضرت زینب کو طلاق دے دی تو آپؐ نے حضرت زینب سے نکاح کرلیا اور اس طرح امت کے لیے یہ نمونہ پیش فرمایا کہ جب اللہ کے ٹھیرائے ہوئے حلال کو لوگ حرام اور معیوب سمجھنے لگیں تو یہ وقت مومن کے امتحان کا ہوتا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ آگے بڑھے او راپنے عمل سے ثابت کردے کہ جس بارے میں شریعت نے کوئی فیصلہ کردیا ہے اس میں رسم و رواج کے بندھنوں کو توڑنا عین اسلام کا تقاضا ہے اس وقت مومن کے لیے لوگوں کی انگشت نمائی سے ڈرنا ٹھیک نہیں ہے۔ برادری، قوم یا رشتے داروں کے دباؤ یا خوف سے وہ کوئی ایسا کام نہیں کرسکتا جو اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف ہو قرآن کا ارشاد ہے:
واللہ احق ان تخشہ ’’اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ تم اس سے ڈرو۔‘‘
خود ہندوستانی مسلمانوں میں بیوہ کا نکاح ایک عیب شمار ہونے لگا تھا۔ ملک کی غیر مسلم قوموں کے اثر سے اور اسلامی تعلیمات کی بے خبری کی وجہ سے رسم و رواج نے ایسی اہمیت اختیار کرلی تھی کہ کسی شریف گھرانے کی بیوہ بہن یا بیوہ بیٹی کو نکاح کا پیغام دینا گالی سے زیادہ سخت سمجھا جاتا تھا۔ عام لوگوں کا تو کہنا ہی کیا اچھے اچھے عالم فاضل اور مشائخ کے گھروں میں جوان بیوائیں بیٹھی رہتی تھیں، او رکس کو ہمت تھی کہ ان کے سامنے بیوہ کے دوسرے نکاح کی بات چیت چھیڑتا۔ حالاں کہ قرآن پاک میں صاف صاف حکم ہے کہ بیوی کا نکاح کردو، ایک طرف قرآن کا حکم تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین کی سنت اور دوسری طرف خاندانی اور ملکی رسم و رواج کا دباؤ۔ لیکن ہوا یہی کہ ایمان کی کمزوری نے لوگوں کے اندر اتنی ہمت اور جرأت ہی نہ چھوڑی کہ وہ رسم و رواج کی زنجیروں کو توڑ دیتے۔ وہ تو اللہ جنت نصیب کرے ان باہمت علماء اور اہل ایمان کو جنہوں نے سب سے پہلے خود آگے بڑھ کر رسم و رواج کے بت کو توڑا تب کہیں جاکر بیوہ کے دوسرے نکاح کا کچھ چلن ہوا۔
اسی طرح میراث میں عورت کے حصے کا مسئلہ ہے۔ شریعت نے صاف صاف عورت کا حصہ متعین کیا ہے اور اسے ادا کرنے کا حکم دیا ہے لیکن رسم و رواج کی شریعت نے جب عورت کو میراث سے محروم کر دیا تو کتنے ہی ’’دین دار‘‘ والدین اور بھائیوں نے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو اس حق سے محروم ہی رکھا۔ اسلام کے تقاضے او راللہ کے احکام سامنے تھے لیکن رسم و رواج کے دباؤ نے ہمتیں پست کردیں۔ حد یہ کہ اللہ کی شریعت کے خلاف عدالتوں میں بیان کیا جاتا رہا کہ ’’اگرچہ ہم مسلمان ہیں لیکن ہمارے ہاں لڑکی کو حصہ دینے کا رواج نہیں ہے۔‘‘ اور اس رواج کا دباؤ اتنا سخت رہا کہ عدالتوں کو بھی مسلمانوں کے رواج کے مطابق فیصلے دینے پڑے اور یہی نہیں، خود عورتوں نے اپنے اس حق سے بیزاری کا اعلان کیا بلکہ برادری میں بدنامی کے خوف سے ملتے ہوئے حصے لینے سے انکار کر دیا۔
جن گھرانوں میں جن رشتے داروں سے پردے کا رواج نہیں ہے چاہے وہ شریعت میں نامحرم ہی کیوں نہ ہوں ذرا وہاں پردے کی اسلامی حدود کا تذکرہ تو کر کے دیکھئے۔ کس طرح ناک بھووں پر بل آجائیں گے یا پھر جن خاندانوں میں سرے سے پردے کا رواج نہیں ہے انہیں اس کی پابندی کی تلقین تو کیجیے مسلمان نام کی یہ خواتین کس طرح تلملا اٹھیں گی۔ او ریہ معاملہ ان لوگوں کا ہے جن کو دین داری عزیز ہے اور جو خدا اور رسول کے احکام کی قدر و منزلت کے دعوے دار ہیں۔ رہ گئے وہ لوگ جن کے نزدیک مذہب اور دین محض تاریخی یادگاریں ہیں تو ان کا تو کہنا ہی کیا۔ ایسے لوگ جو دین داری کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے گھر سے سفرکے لیے نکلتے ہیں تو ان کی بیٹیاں اور بیویاں جب بلا جھجک بے پردہ سامنے آتی ہیں اور ان سے کہا جاتا ہے کہ اسلام میں پردے کی کیا اہمیت ہے تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ ’’ہمارے یہاں پردے کا رواج نہیں ہے۔‘‘
یہ چند مثالیں ہیں جن سے آپ رسم و رواج کی طاقت کا اندازہ لگا سکتی ہیں۔ مومن کو اس طاقت کے مقابلے میں بھی اپنیایمانی پختگی کاامتحان دیناہوتا ہے۔ آئے دن مومن ے سامنے یہ مسئلے آتے رہتے ہیں، ایک طرف خاندان، برادری اور قوم کے مطالبے ہوتے ہیں۔ دوسری طرف دین کے تقاضے، اللہ اور اس کے احکام۔ اور مومن کو ہر قدم پر فیصلہ کرنا ہوتا ہے کہ اسے ان دونوں میں سے کس کا ساتھ دینا ہے، شادی، بیاہ ، موت اور پیدائش کے تعلق سے ہمارے گھرانوں میں رسم و رواج کی ’’پوری شریعت‘‘ جاری ہے۔ لوگ اس کے خلاف کوئی بات سننے کے لیے تیار نہیں، لیکن وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے دین کے تقاضوں کو پورا کرنے کا ارادہ کیا ہو انہیں ہر قدم پر اس ’’گھریلو شریعت‘‘ سے مقابلہ کرنا پڑے گا اور یہ ثابت کرنا ہوگا کہ انہیں اسلامی شریعت کے مقابلے میں کسی رسم و رواج کی پروا نہیں ہے۔lll