رسول اللہ ﷺکے بارے میں لوگ طرح طرح کے عقیدے رکھتے ہیں۔ یہودی حضرت عزیر علیہ السلام کو اور عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹامانتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اس سے بڑھ کر رسول کو ’’اوتار‘‘ مانا جاتا ہے۔ ’’اوتار‘‘ کا مطلب یہ کہ جب جب دنیا میں دھرم نشٹ ہوا تب تب اللہ تعالیٰ زمین پر اُترا اور اس نے دھرم کو زندہ کیا۔ کبھی اس نے انسان کے روپ میں جنم لیا۔ کبھی شیر بن کر اچانک آگیا اور کبھی دوسرے جانور کی شکل میں ظاہر ہوا۔ ہمارے ملک میں ایسے بہت سے اوتار مانے جاتے ہیں۔ میرے ایک ہم وطن ودّوان نے ایک کتاب لکھی ہے۔ انھوں نے بڑی پہچانوں اور دلیلوں سے ثابت کیا ہے کہ ’’انتم اوتار‘‘ (آخری رسول) محمد ﷺ ہیں۔ آج کل یہ کتاب بہت پڑھی جارہی ہے۔ مسلمان خوش ہوکر اس لیے پڑھتے ہیں کہ اس کتاب میں ایک ہندو ودّوان نے نبی ﷺ کو آخری رسول ثابت کردیا، اب سارے ہندو مسلمان ہوجائیں گے۔ ہندو اس لیے اس کتاب سے خوش ہیں کہ اس سے وحدتِ ادیان (سارے دھرم ایک ہیں) کا مسئلہ حل ہونے میں مدد ملے گی، ہوسکتا ہے کہ اب مسلمان بھی ہندوؤں میں اسی طرح جذب ہوجائیں گے جس طرح بودھ ہندوؤں کا ایک جزو بن کر رہ گئے۔
عبدہٗ و رسولہٗ (اللّٰہ کابندہ اور اس کا رسول)
قرآن مجید نے جس طرح اللہ کی کتابوں، ملائکہ، جنّ وغیرہ کے بارے میں ٹھیک ٹھیک عقیدہ دیا ہے اور لوگوں کے خیالوں اور وچاروں کو سدھارا ہے، اسی طرح ’’رسول‘‘ کے بارے میں بھی بتایا ہے کہ اسے کیا مانا جائے اورکیا نہ مانے جائے۔
سب سے پہلے قرآن نے یہ بتایا کہ فرشتوں، جنّوں اور انسانوں کی طرح رسول بھی مخلوق ہیں۔ پیدا کیے گئے ہیں۔ ہر رسول اللہ کا بندہ پہلے ہے اس کے بعد رسول۔ مسلمان جس طرح اللہ کے آخری رسول حضرت محمد ﷺ کے بارے میں یوں گواہی دیتا ہے کہ محمداً عبدہٗ و رسولہ۔ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اسی طرح سارے رسول بھی اللہ کے بندے اور رسول ہی تھے۔ یعنی ان میں الوہیت (خدائی) نہیں پائی جاتی۔ نہ ان کی شکل میں اللہ زمین پرآیا اور نہ اللہ کا کوئی خاندان ہے۔ لم یلد ولم یولد نہ اس کا کوئی بیٹا ہے اور نہ کوئی اللہ کا باپ ہے۔ ولم یکن لہ کفواً احد اور نہ کوئی اس کے جوڑ کا، برابری کا، اس کے کفو کا ہے کہ کہیں اس کا بیاہ ہوسکے۔
بشرٌ مثلکم (تمہاری طرح انسان)
جس طرح سارے انسان عناصر ترکیبی (مٹی پانی وغیرہ) سے بنائے گئے ہیں اسی طرح رسول بھی انسان ہی ہے اور انہی عناصر ترکیبی سے بنایا گیا ہے۔ رسول کو موت بھی آتی ہے، رسول بیمار بھی ہوتا ہے، رسول کے چوٹ بھی لگتی ہے۔ رسول کو رنج بھی ہوتا ہے اور خوشی بھی۔ رسول اپنے جسم کی بناوٹ اور جسم کی ظاہری شکل و صورت میںپورے کا پورا انسان ہی ہے۔ اس کے جسم میں خون اسی طرح دوڑتا ہے جس طرح دوسرے انسانوں کی رگوں میں، اس کا دل اسی طرح حرکت کرتا اور دھڑکتا ہے جس طرح دوسرے انسانوں کا۔ رسول دوسرے انسانوں کی طرح کھاتا ہے، پیتا ہے، سوتا ہے، شادی بیاہ کرتا ہے۔ بازار جاتا ہے وغیرہ۔
یوحیٰ الیَّ (اس کے پاس وحی آتی ہے)
البتہ ایک فرق انسانوں اور رسولوں میں ضرور ہے وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ رسول کی طرف وحی بھیجتا ہے۔ یعنی اپنے بزرگ فرشتے کے ذریعہ اسے اپنی مرضی بتاتا ہے۔ اپنے حکم سے آگاہ کرتا ہے اور ذمہ دار بناتا ہے کہ وہ اللہ کے حکموں کو بندوں تک پہنچادے اور ان پر چل کر نمونہ دکھادے تاکہ اسی طرح لوگ اللہ کے حکموں پر چلیں اور اللہ کو مانیں۔
رسولوں پر اللہ کا یہ فضل خصوصی ہے۔ یہی وہ فضل ہے جو دوسرے انسانوں کو نہ حاصل ہوسکتا ہے اورنہ کبھی حاصل ہوگا۔ ایسا بھی نہیں ہے کہ جس شخص کو اللہ نے اپنا رسول بنایا، اس نے کوئی بڑا کام کیا ہو اللہ نے جس کو چاہا یہ بلند مرتبہ دے دیا۔ کسی صلے یا خدمت کے عوض نبوت نہیں ملتی۔
رسولوں کے بارے میں لوگوںکا جو عقیدہ اور خیال تھا، اس کی وجہ سے وہ تعجب کرتے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہی جیسے انسان کے پاس اللہ کا فرشتہ آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے اسی تعجب کے بارے میں فرمایا:
أَکَانَ لِلنَّاسِ عَجَباً أَنْ أَوْحَیْْنَا إِلٰی رَجُلٍ مِّنْہُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِیْنَ آمَنُوْا۔
(یونس: ۲)
’’کیا لوگوں کے لیے یہ عجیب بات ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک آدمی کو وحی کی تاکہ وہ لوگوں کو جہنم سے ڈرائے اور ایمان لانے والوں کو (جنت کی) خوشخبری سنائے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا:
لو کان فی الارض ملائکۃ یمشون مطمئین لنزلنا علیہم من السماء ملکا رسولاo (بنی اسرائیل)
’’اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور کسی فرشتے ہی کو ان کے لیے رسول بناکر بھیجتے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ انسانوں کی ہدایت کے لیے انسان ہی کو رسول بنانا ٹھیک ہے۔ اگر انسان کے لیے کسی ہاتھی یا شیر یا فرشتے کو پیغمبر بناکر بھیجا جاتا تو انسان تقلید اور پیروی کیا ہاتھی یا شیر کی کرتا؟ کیسے کرتا؟ رسول بنانے کا مقصد ہی فوت ہوجاتا۔
لوگوں نے ہر رسول پر یہ بھی اعتراض کیا کہ یہ کیسا رسول ہے جو کھاتا ہے پیتا ہے۔ بازاروں میں سودا سلف لیتا ہے۔ کیوں نہ اس کے پاس کوئی فرشتہ بھیجا گیا جو اس کے ساتھ رہتا اور نہ ماننے والوں کو دھمکاتا کہ اسے نہ مانوگے تو تباہ کردوں گا۔
اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اے محمد! تم سے پہلے جو رسول بھی ہم نے بھیجے وہ سب بھی کھانا کھانے والے اور بازاروں میں چلنے پھرنے والے لوگ ہی تھے۔‘‘ (الفرقان:۲۱)
سورئہ انعام میں ایسے ہی اعتراضات کا جواب یوں دیا ہے:
’’کہتے ہیں کہ اس نبی پر کوئی فرشتہ کیوں نہیں اتارا گیا۔ اگر کہیں ہم نے فرشتہ اتار دیا ہوتا تو اب تک کبھی کافیصلہ ہوچکا ہوتا۔ پھر انھیں کوئی مہلت نہ دی جاتی اور اگر ہم فرشتے کو اتارتے تب بھی اسے انسان ہی بناکر اتارتے اور اس طرح انھیں اس شبہ میں مبتلا کردیتے جس میں اب پھنسے ہیں۔‘‘
رسول معصوم ہوتا ہے
تمام رسول گناہوں سے پاک تھے۔ ان سے کبھی نہ خطا ہوئی اور نہ انھوں نے کبھی گناہ کا کام کیا۔ قرآن اور حدیث میں نبی کریم ﷺ کے بارے میں کچھ ایسی آیتیں اور جملے ملتے ہیں جن پر لوگ انگلی رکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ کیا محمد (ﷺ) سے بھی یہ اور یہ غلطیاں ہوگئیں۔
میں ان باتو ںکو لکھتا ہوں۔ آپ بھی غور کریں کہ واقعی کیا وہ غلطیاں تھیں یا انھیں خوبیاں ہی کہا جائے گا۔ یہ باتیں دلچسپ بھی ہیں اور ان سے نصیحت بھی ملتی ہے۔
(۱) پہلا واقعہ سنیے۔ نبی کریم ﷺ تشریف فرما تھے۔ مکہ کے کچھ رئیس پاس بیٹھے تھے۔ آپ پوری توجہ کے ساتھ ان کے سامنے اسلام پیش فرما رہے تھے۔ اتنے میں حضرت امِ مکتومؓ آگئے اور کوئی مسئلہ پوچھنے لگے۔ حضورؐ کی پوری توجہ رئیسوں پر تھی۔ چاہتے تھے کہ ان لوگوں کے دل میں اسلام اتر جائے۔ حضورﷺ تو اس دھن میں تھے اور اسی حالت میں حضرت امِ مکتومؓ جو نابینا تھے، آکر مسئلہ پوچھ بیٹھے۔ حضورؐ نے ان کی طرف دھیان نہ دیا۔ اسی کا ذکر ’’عبس و تولیّٰ‘‘ میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیشک حضورﷺ کو توجہ دلائی ہے لیکن پہلے یہ تو سوچیے کہ حضورﷺ کیا یہ کوئی غلطی کررہے تھے؟ ذرا اس شخص سے پوچھئے جسے اللہ کا دین پھیلانے کی دھن ہوکیا ایسے موقع پر اپنے بیٹے کی بات سنے گا؟ اُسے تو یہ دھن ہوگی کہ کسی طرح لوگوں کے دل میں بات اُتر جائے۔ حضرتِ امِ مکتومؓ کوئی غیر نہ تھے۔ حضورؐ کے قریبی رشتہ دار تھے۔ ہر وقت پاس اٹھنے بیٹھنے والے مشہور صحابی، حضرتؐ نے سوچا ہوگا کہ ان کو مسئلہ بعد میں بتادیا جائے گا اس وقت موقع ہے کہ پوری بات قریشی سرداروں کو بتادی جائے۔ شاید ان میں کوئی مسلمان ہوجائے اور دعوتی کام آگے بڑھے۔
اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے ایک معرکے کی بات حضورﷺ کو بتائی۔ فرمایا: ’’اے نبی! آپؐ نے ام مکتومؓ کے آنے پر توجہ نہیں دی۔ اس نابینا کی قیمت ان رئیسوں سے زیادہ ہے۔ آپ کیا جانیں کہ ام مکتومؓ آپ سے علم حاصل کرکے پورے طور پر سنور جاتے یا وہ جو خاص مسئلہ پوچھ رہے تھے اس سے نصیحت پاتے اور کس درجہ فائدہ حاصل کرتے۔ آپؐ تو اس کی فکر میں ہیں جو دین سے بے پروائی کرتا ہے حالانکہ اگر وہ نہ سنورے تو آپؐ پر کوئی الزام نہیں آتا۔ اس کے مقابلے میں آپؐ اس کی فکر کیجیے جو دوڑ کر آپؐ کے پاس آتا ہے اور وہ خدا سے ڈرتا ہے۔ آپ اس پر زیادہ توجہ دیں۔ کلاَّ، آپؐ آئندہ ہرگز ایسا نہ کیجیے۔
’’آئندہ آپ ایسا ہرگز نہ کریں۔‘‘ مطلب یہ ہے کہ اب جب کبھی ایسا ہی موقع ہو۔ بڑے بڑے رئیسوں کی موجودگی میں کوئی مسلمان آجائے تو رئیسوں پر یہ جتا دیجیے کہ اس مسلمان کی اہمیت تم سے زیادہ ہے چاہے وہ نابینا ہو یا غلام یا غریب۔
اب لطف کی بات سنئے: اگر اللہ تعالیٰ یہ آیتیں نازل نہ فرماتا تو کسی کے وہم و خیال میں بھی کبھی نہ آتا کہ یہ بھی کوئی توجہ دلانے کی بات ہے۔ اب جو اللہ تعالیٰ نے پیار سے ایک چھوٹی بات کے مقابلے میں بڑی بات بتادی تو اعتراض ہوتا ہے کہ محمد (ﷺ) نے یہ غلطی کی تھی جس پر اللہ نے ڈانٹا، خوب ہے یہ اعتراض بھی۔
(۲) دوسرا واقعہ اس سے زیادہ حضورﷺ کے بلند اخلاق کو ظاہر کرتا ہے اس میں آپؐ کے مزاج کی نرمی اوررحمدلی پوری کی پوری سامنے آتی ہے۔ ہوا یہ کہ بدر کی جنگ میں ستّر کافر قید کیے گئے تھے۔ آپؐ کو ان پر بڑا رحم آیا۔ آپ نے فدیہ لے کر انھیں چھوڑدیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے وہ آیتیں نازل فرمائیں جن کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ حضورؐ سے غلطی ہوگئی۔ میں پھر وہی کہتا ہوں کہ اگر قرآن مجید کے اندر اس فدیہ کے بارے میں یہ آیتیں نہ ہوتیں تو کسی کو پتہ بھی نہ چلتا کہ یہ بھی کوئی غلطی ہوسکتی ہے بلکہ الٹے حضورﷺ کے رحمۃ للعالمین ہونے کی گواہی دیتے۔
(۳) تیسرا واقعہ سنئے: ایک بار آپؐ نے دوسروں کا دل رکھنے کے لیے قسم کھائی کہ ’’شہد نہ کھائیں گے۔‘‘ جبکہ شہد حرام نہیں ہے۔
اب اس قسم کی نزاکت سمجھئے۔ اللہ کا رسول ایک حلال شے نہ کھانے کی قسم کھا بیٹھا۔ اگر اللہ تعالیٰ حضورﷺ کو اسی قسم پر رہنے دیتا تو نبی کی یہ قسم قانون بن جاتی۔ نبی کی دیکھا دیکھی امت بھی حلال چیزوں کے نہ کھانے پر قسم کھاتی اور اس قسم کو جائز سمجھا جاتا۔ لہٰذا اس سے پہلے کہ اس قسم کا حال دوسروں کو معلوم ہو۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وقت آیت نازل فرمائی اور حکم دیا کہ قسم توڑو۔ حضورﷺ نے اسی لمحہ قسم توڑدی۔ پھر عرض کرتا ہوںکہ اگر اس قسم پر قرآن انگلی نہ رکھتا تو کسی کو پتہ بھی نہ چلتا۔
یہ تین واقعے ہیں۔ ایک واقعہ سے معلوم ہوتا کہ دعوت و تبلیغ کی دھن میں آپؐ اپنے ایک خاص عزیز کی طرف سے بے توجہ ہوگئے تھے۔ دوسرے واقعہ میں آپ کے دل کی نرمی کا عظیم نمونہ پایا جاتا ہے۔ اور تیسرے واقعے میں ’’دوسروں کا دل رکھ لینا حجِ اکبر کے برابر ہے۔‘‘ والی بات ہے۔
ان باتوں کو جو شخص خدا کی نافرمانی اور حضورﷺ کی غلطی کہتا ہے۔ اسے واقعات اور معاملات سے نتیجہ اخذ کرنا نہیں آتا۔ وہ ظالم ہے۔ دعوتی دھن دل کی نرمی اور دوسروں کا دل رکھنا۔ یہ تینوں باتیں ایک شخص کے حسنِ اخلاق کا پتہ دیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے اس حسن کو دوبالا کردیا۔بالفرض اگر انھیں غلطیاں مان بھی لیا جائے تو ایک صوفی کے بقول، ایسی غلطیوں پر ہزاروں اخلاقی کردار قربان ہیں۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اللہ کا رسول معصوم ہی ہوتا ہے۔ اس سے گناہ اور نافرمانی نہیں ہوتی اور اگر کہیں حسن اتفاق کے تحت کوئی ذرا سی بات ہوجائے اور جسے صرف اللہ کی حکمت ہی محسوس کرلے تو اللہ تعالیٰ وہ حکمت کی بات بتاکر اس میں مزید حسن پیدا فرمادیتا ہے۔