جگہ جگہ میرج بیورو بن جانے کے باوجود شادیاں اول تو ہونے کا نام نہیں لیتیں اگر ہو جائیں تو نبھتی دکھائی نہیں دیتیں۔ پریشان تو ہر دوسرا فرد ہے لیکن نہ کوئی وجہ ڈھونڈنے کو تیار ہے اور نہ ہی حل سوچنے کے لیے۔
بہت لمبا عرصہ نہیں گزرا جب بچوں کے بلوغت کی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی ماں باپ بچوں کی شادیوں کے لیے فکر مند ہونے لگتے تھے۔ ملنے جلنے والے اور رشتہ دار ایک دوسرے کے بچے بچیوں پر نظر رکھتے اور وقت سے مناسب رشتوں کی تلاش میں مدد کیا کرتے تھے۔ کبھی تو ایسا بھی ہوتا کہ ایک رشتہ دار آتا اور کہتا کہ میں نے تمہارے بیٹے یا بیٹی کا رشتہ طے کردیا ہے۔ باہمی اعتماد اور اخلاص کا عالم یہ ہوتا کہ وہ پلٹ کر ’’اچھا‘‘ کہنے کے علاوہ کوئی سوال بھی نہ پوچھتا۔ نہ دیکھنے دکھانے کی موجودہ دور کی تکلفات اور بھاری بھرکم اخراجات نہ ردو قبول کا تردد۔ نہ لڑکے دھتکارے جاتے نہ ہی لڑکیاں ٹھکرائی جاتیں۔پھر بچوں کو بٹھا کر زمانے کی اونچ نیچ سمجھاتے ہوئے مدعا بیان کیا جاتا۔
تب انسان، انسانوں سے ناطے جوڑتے تھے، جن میں مروت و لحاظ کو مقدم رکھا جاتا تھا۔
پھر زمانے کا چلن بدلا، لوگوں کے معیار اور انداز سبھی بدل گئے۔بائیس سال کی نوخیز لڑکی، بچی اور پچیس سال کا خوبرو جوان، بچہ کہلایا جانے لگا۔تعلیم نسواں کا غلغلہ مچا اور کرئیر کی دوڑ نے بہت کچھ تبدیل کردیا۔رہی سہی کسر بے لگام میڈیا اورگلیمرس زندگی نے پوری کر دی۔ اب لوگ شہزادے، شہزادیوں کی تلاش میں منڈیاں لگاتے ہیں۔ حسن کا شاہکار، تعلیم، یافتہ، گورنمنٹ نوکری، خاندانی، سانچے میں ڈھلا بدن، گورا رنگ، سرمگیں آنکھ، بولے تو پھول جھڑیں اور سب سے بڑھ کر عقل سے پیدل ہو۔ موم کی طرح جیسے چاہے موڑ لیں۔ لڑکا ہو تو بیوی کا خادم بن جائے لڑکی ہے تو سسرال آکر پچھلا سب بھلا دے اور گھر بھر کی خدمت کرکے دل جیت لے۔
دعوتیں ہوتی ہیں، ملمع چڑھائے خیر سگالی کے جذبات دکھائے جاتے ہیں، خوب ٹھونک بجا کر تسلی کی جاتی ہے، ریٹ لگتے ہیں، بھاؤ تاؤ ہوتے ہیں، بات نہیں بنتی تو اگلے گھر کا رخ ہوتا ہے، بنا یہ سوچے اور سمجھے کہ یہ دکانوں میں سجے شو پیس نہیں، گوشت پوست کے انسان ہیں جو دل بھی رکھتے ہیں اور احساسات بھی۔
بڑھتی عمریں، روز روز کی نمائش اور آخر میں انکار۔ خودکشیوں، قتل، نفسیاتی امراض، بانجھ پن، ڈپریشن، زنا اور ریپ کے واقعات میں اضافے کی بڑی وجوہات ہیں۔
یہ سب کیوں ہے؟ اس کی وجہ ہمارا اپنا رویہ اور اپنی ہی سوچ و فکر ہے جس نے ہمیں اور ہمارے معاشرے کو تباہی سے دوچار کیا ہے۔ ہمارے دین اور ہمارے رسولؐ نے تو شادی کو عبادت بتایا تھا ار ہم نے اسے ایک رسم اور سیلیبریشن بنادیا۔ نتیجہ تو یہی ہونا تھا۔
اس کا حل سوچ کی تبدیلی ہے۔ اس لیے سوچ بدلئے، معاشرہ بدل جائے گا۔ll
ڈر سا جاتا ہے ہر کوئی کہ یہاں کیمرے لگے ہیں، یہاں احتیاط برتی جانی چاہیے مطلب کوئی بھی اس جگہ چوری یا کوئی غلط کام کرنے سے پہلے کئی بار سوچتا ہے۔ لیکن ہم عقل و فہم کے مالک نہ جانے اس بات کو کیونکر نظر انداز کرجاتے ہیں کہ وہ رب کہ جو ہر جگہ ہر سعت ہر ساعت ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہر لمحہ ہمارے ساتھ دو فرشتے موجود رہتے ہیں جو ہمارا اعمال نامہ لکھ رہے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا شعور عطا کیا اور دو راستے ہمیں دیے اور اب فیصلہ ہم پر چھوڑا کہ ہم اپنے لیے خسارے کو چنتے کہ مفاد کو ؟ لیکن انسان کو ہمیشہ شیطان کے وسوسے بہلاتے ہیں اور وہ برے کو اچھا دیکھنا شروع کر دیتا ہے، انسان راستہ بھٹک جاتا ہے اور پھر خسارے کی دلدل میں پھنستا چلا جاتا ہے جب برا ہو جائے تو قسمت پر الزام، کبھی دوسروں کو ذمہ دارٹھہراتاہے، مگر کبھی بھی انسان خود کو الزام نہیں دیتا اور یہ بھی ایک بنیادی غلطی ہے ہمیں اپنے عیب کیوں نہیں دکھتے ہم خود کی اصلاح پر توجہ کیوں نہیں کرتے۔ بات ایک ہی ہے کہ ایک بار غلطی دو بار اور پھر کرو تو وہ غلطی نہیں سنگین جرم اور گناہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ دنیااتنی ترقی کر گئی ہے کہ ایک جدید تحقیق کے مطابق ہوا میں پھیلی ہوئی سالوں پرانی آوازوں کو بھی سنا جا سکے گا ارے یہ تو انسان کی ایجاد ہے اس رب کی ذات کو کبھی سوچا ہے کہ جسے ہر بات کا علم ہےکوئی چھپا ہےیاظاہر سب جانتا ہے وہ۔ ہمیں در حقیقت ان کیمروں سے ڈرنا چاہیے جو ہمارے کندھوں پر ہر لمحہ سوتے جاگتے موجود ہیں ہر عمل ہر حرکت کی ریکارڈنگ جاری ہے اور ہم اس بات سے باخبر بھی ہیں کیونکہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمارے ایمان کا حصہ ہے فرشتوں پر ایمان لانا ہم سے جو ہم نہیں کر رہے ہیں۔
مجھے اپنے بچپن کی کچھ باتیں آج بھی حرف بہ حرف یاد ہیں ہماری دادی جی بولتی تھیں۔ زمین پر زور سے پاؤں نہ مارو کہ اسکو بھی درد ہوتا ہے اور پھر یہ بات ہم ذہن میں بٹھا لیتے تھے۔وہ دن بھی کتنے اچھے تھے سچے لوگ احساس پیار دین سے محبت اور جاندار کے ساتھ بے جان چیزوں کی بھی حفاظت سکھائی جاتی تھی۔
بچنا تو ہمیں ہر قدم پہ ہوگا۔ احتیاط تو بالکل ایسے ہی کرنی ہوگی جیسے کہ ہر لمحہ کوئی ہماری ویڈیو بنا رہا ہو۔ ہم امت محمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ہمارا ایمان ہےکہ ہمیں ایک دن مرجانا ہے اور اپنی زندگی کے تمام کاموں کا حساب دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں دیکھ رہا ہے اور ہم جو کچھ کرتے ہیں سب اس کے ریکارڈ میں ہے۔
ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے ہمارے لیے سی سی ٹی وی کیمروں کا کام کر رہے ہیں اور ہمیں دنیا کی نہیں بلکہ اس رب العزت کی بارگاہ میں حاضری کی شرمندگی سے بچنا ہے۔نبی پاک ﷺ کی امتی ہونے کے ناطے اپنے ہر کیے کا خیال رکھنا ہوگا کہ اسی میں اللہ اور رسول کی اور ہماری بھلائی ہے۔
احتیاط یہ نہیں کہ کسی دنیاوی کیمرے کی آنکھ آپکو دیکھ رہی ہے احتیاط تو یہ کرنی ہے کہ رب ذوالجلال کو ہمارے ہر کیے کی ہر لمحہ خبر ہے۔ ہم ساری دنیا سے ڈرتے ہیں کہ کوئی دیکھ نہ لے۔ دنیا جو بے وفا ہے اور انسان جو خود مرمٹ جانے و الے ہیں اور اس رب کائنات سے نہیں ڈرتے جس نے ہمیں پیداکیا اور جس کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
رب سے ڈریے سارے زمانے کے ڈر فکر سے آزاد ہو جائیں گے اور ہمیں تو بس رب ہی کافی ہے۔