’’میں اور اس سے ملنے جاؤں ایسا تو میں کبھی نہیں کروں گی۔ پتا نہیں کس بات کا زعم ہے اس کو۔ میرا تو اس کی شکل دیکھنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔ میں اس سے ملنے جاؤں ہرگز نہیں؟ ارے وہ تو بہت حسد کرتی ہے مجھ سے، ارے معاف کرو ہم برے ہی بھلے، مگر ہم تو کبھی ان کی بیٹی کی شادی میں بھی نہیں جائیں گے۔ ہم نے اپنے بیٹے کی منگنی کی تقریب میں بلا یا تھا، کیا کوئی آیا تھا ان کے گھر سے؟‘‘ یہ اور ان جیسے نہ جانے کتنے جملے ہماری زندگیوں میں کثرت سے سنائی دیتے ہیں۔
ہم آگے بڑھنا چاہیں تو نہیں بڑھ پاتے۔ رشتوں میں پڑنے والی دراڑیں ہم بھرنا چاہیں تو نہیں بھرسکتے۔ ایسا کیوں ہے، کب سے ہے؟ نہیں معلوم آپ کو۔ سنئے ایسا اس وقت سے ہوا ہے جب پہلی بار ہم نے کسی غیر کو اپنے گھر میں دخل اندازی کی اجازت دی۔ ہم نے محبتوں سے، رشتوں سے منہ موڑ لیا۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب دلوں میں رنجشیں نہیں تھیں، بغض اور حسد جنم نہیں لیتے تھے۔ اب ایسا کیا ہوا کہ آپ کے عزیز نے آپ کو دیکھ کر منہ پھیرلیا۔ آپ خود آگے بڑھ کر اس سے گلے مل لیں اور اگر وہ آپ کے گھر کی کسی تقریب میں شریک نہیں ہوئے تو آپ بڑے پن کا مظاہرہ کریں اور ایک خوبصورت سے تحفے کے ساتھ ان کی خوشیوں میں شریک ہوجائیں۔ آخر ان کی بیٹی آپ کی بھی تو کچھ لگتی ہے اور اگر آپ کو ایسا لگ رہا ہے آپ کا فلاں عزیز آپ سے حسد کرتا ہے تو کیا ہوا؟ اس حسد کی آگ کو اپنی محبت کی ہوا دیجیے نا۔ اس سے نہیں ملنا، اس کے گھر نہیں جانا، اسے اپنے گھر نہیں بلانا! یہ سب باتیں آپ کو اپنوںکی محبت سے بہت دور لے جاتی ہیں۔ دلوں میں دوریاں پیدا کرتی ہیں اور ساتھ ہی آپ کو کمزور بھی کردیتی ہیں۔ خدا دلوں میں بغض اور حسد رکھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ دوسروں کی غلطیاں ان کی کمزوریاں سمجھ کر نظر انداز کردیجیے۔ اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے دوسروں کو خوش کردیں۔ پتہ ہے مٹھی بند ہو تو ہاتھ کی انگلیاں بھی مضبوط معلوم ہوتی ہیں۔ اپنا دل بڑا کیجیے۔ پھولوں کے گلدستے کے ہمراہ روٹھے عزیزوں کے گھر جائیں ، یہ آپ کے اپنے ہیں۔ گھر کی بات گھر کے اندر ہی رہے تو چھوٹے چھوٹے مسئلے بڑے بڑے مسائل کی صورت کبھی اختیار نہیں کرسکتے۔ عموماً ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ایک بہن کی دوسری بہن سے لڑائی ہوئی تو ایک بہن نے اپنے دل کا بوجھ اپنی پڑوسن کو سنا کر ہلکا کیا۔ اسی طرح اگر ایک بھائی کا دوسرے بھائی سے جھگڑا ہوگیا تو وہ اپنے شکوے شکایت غیروں کو سنانے بیٹھ گیا۔ یہ سوچے بغیر، یہ جانے بغیر کہ ایسا کرکے وہ اپنے آپ کو نہ صرف کمزور کررہے ہیں بلکہ دوسروں کو اپنے ہی گھر میں دخل اندازی کا موقع بھی فراہم کررہے ہیں۔
یاد رکھئے وہ آپ کے دوست نہیں جو آپ کو اپنوں ہی سے دور کردیں۔ دلوں کو بڑا کیجیے اور اپنے دل کے بند کواڑ کھولیے۔ سب آپ کے ہیں اور آپ کے لیے ہیں۔ پیاری بہنا کسی بات پر روٹھ گئی ہے تو جلدی سے اسے ایک کپ گرما گرم چائے بناکر دیجیے اور اس میں اپنے پیار کے خلوص کی شکر گھولیے۔ پیاری بہنا کو چائے پسند نہیں تو کیا ہوا، وہ آئس کریم تو کھاتی ہے نا۔ اسے آپ کی مسکراہٹ تو اچھی لگتی ہے نا، تو بس پھر مسئلہ کیا ہے۔ بھر پور مسکراہٹ کے ساتھ روٹھی ہوئی پیاری بہنا کو گلے لگا لیجیے۔ تمام گلے شکوے خود بخود ختم ہوجائیں گے۔
اور اگر پیارا بھائی روٹھ گیا ہے اور بڑابھی ہے تو جلدی سے بازار جائیے۔ بھائی کی پسند کی کوئی چیز خریدئیے یا پھر بھائی کے ذوق کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی کتاب، کوئی کیسٹ یا پھر کوئی سی ڈی خریدئیے اور ایک معذرتی کارڈ کے ساتھ پیارے بھائی کے حوالے کردیجیے۔ آخر بھائی آپ ہی کے ہیں نا! ——