رشتوں کی بدلتی معنویت

ثریا اقبال

ایک حساس دل خاتون جن کو ایک چھ سالہ بچے کی نانی ہونے کا شرف حاصل ہے، انتہائی دکھی دل کے ساتھ ایک واقعہ کی راوی تھیں۔ بچے نے بڑے شوق سے ان کو اپنی میز پر سجی ہوئی تصویریں دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ ہماری فیملی ہے۔ ان تصویروں میں نانی کی تصویر غائب تھی۔ انتہائی تعجب سے پوچھا کہ ان میں میری تصویر تو نہیں ہے؟ بچہ گویا ہوا: فیملی کا مطلب ہے ماں، باپ اور ان کے بچے، اس میں آپ کیسے شامل ہوسکتی ہیں! یہ بظاہر معمولی واقعہ سناتے ہوئے نانی کا دکھ ان کے چہرے سے عیاں تھا۔ اس کیفیت کی وجہ شاید ان کا خصوصی پس منظر بھی تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ، ایک باوقار پیشہ سے وابستگی رکھتی تھیں لیکن اپنی اس وابستگی کو نواسے کی پرورش کی ذمہ داری کی وجہ سے محدود کرچکی تھیں کہ اکلوتی بیٹی ملازمت کی مصروفیت کا شکار تھیں۔ نواسے کی اس معصومانہ وضاحت کے بعد اپنے آپ سے یہ سوال کررہی تھیں کہ ’’میں کون ہوں؟‘‘ اس گفتگو کے بعد میرے ذہن میں وہ تمام موضوعات گھوم گئے جو آج کل مختلف مذاکروں، مباحثوں اور گفتگو کا موضوع بنے ہوتے ہیں۔ یعنی خاندان کی اہمیت، خاندان کو درپیش خطرات یا خاندانی نظام کا مستقبل وغیرہ۔ معصوم بچے کی وضاحت دراصل جدید اصولِ تعلیم کے مطابق تھی کہ بچے کے ذہن میں تصورات واضح ہونے چاہئیں، اسی کے تحت استاد نے فیملی کے تصور کو واضح کرتے ہوئے اس کی عملی شکل مرتب کروائی تھی۔ بات بظاہر بہت چھوٹی سی ہے لیکن اسی چھوٹی سی بات میں اس سوال کا بڑا سا جواب مضمر ہے کہ ’’خاندانی نظام تباہی کا شکار کیوں ہے؟‘‘

تھوڑا سا پیچھے دیکھیں تو نظر آتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کنبہ یا فیملی کے بجائے مستعمل لفظ ’’خاندان‘‘ تھا، یہ ایک وسیع المعنی لفظ ہے۔ جس کی حدود کا تعین کرنے کی ضرورت کبھی پیش نہیں آئی اور نہ ہی اس حوالے سے بچوں کے تصور کو واضح کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اس کیفیت کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ کسی دور دراز کے رشتہ دار کی بیماری، پریشانی یا کسی بھی نوعیت کا کوئی مسئلہ پورے خاندان کو مضطرب اور امداد کے لیے تیا رکردیتا تھا، اور الحمدللہ ابھی تک یہ سلسلہ کسی حد تک قائم ہے، لیکن جب خاندان کی اس اصطلاح کو فیملی کے محدود احاطے میں قید کردیا جاتا ہے تو نتائج آگے چل کر مزید محدود ہوجاتے ہیں اور وہ وقت آتے دیر نہیں لگتی جب کل کا بچہ آج کے لفظ ’’میں‘‘ کا اسیر ہوجاتا ہے۔ یہ وہ سلسلہ ہے جو مغرب سے نکل کر اب ہمارے مرعوبیت کے شکار ذہنوں کا احاطہ کرچکا ہے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ الفاظ صرف حروف کا مجموعہ نہیں ہوتے، ان کا ایک مفہوم، ایک تہذیب اور نفسیات ہوتیہے۔ ذرا لفظ ’’انکل‘‘ پر غور کیجیے۔ چچا اور ماموں بڑے پیارے رشتے ہوتے ہیں۔ بچوں کی وابستگی بسا اوقات دوستانہ بھی ہوجاتی ہے کہ باپ کے ساتھ تو تھوڑی سی مرعوبیت بھی موجود ہوتی ہے۔ آج انکل کے لفظ نے دلچسپ صورت حال پیدا کردی ہے جب ہر وہ فرد جو رابطہ میں آیا… محلہ، گلی، دکان، بازار، گھر، باہر وہ انکل کہلایا، گویا ’’ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز‘‘ اور اس بھیڑ میں وہ پیارے چچا گم ہوگئے۔ خالہ، آنٹی، اس کا مخاطب کون ہے! وضاحت کی ضرورت نہیں کہ ہم سب اسی صورت حال کاشکار ہیں۔ ایک اور لفظ کثرت سے مروج ہوا ’’کزن‘‘۔ ہمارے معاشرے میں قریبی رشتوں میں لفظ بہن اور بھائی کی اصطلاح ہی عام تھی، اگر کبھی وضاحت کی ضرورت ہوئی تو چچا زاد یا خالہ زاد سے وضاحت ہوجاتی، ورنہ بھائی بہن کا لفظ ہی کفایت کرتا تھا ہر تعارف کے لیے۔ بظاہر یہ بہت چھوٹی اور غالباً غیر اہم باتیں ہیں کہ چاند کو کسی بھی نام سے پکارو چاند ہی رہے گا۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہے؟ (ماخوذ)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146