رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک

ساجدہ فرزانہ صادق

قرآن و حدیث کے اندررشتہ داروںکے ساتھ بہتر سلوک کرنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ رشتہ داروں کے ساتھ محبت و خلوص سے پیش آنا، ان کے دکھ درد، خوشی و مسرت میں شریک رہنا، وہ غریب ہوں تو ان کی مالی اعانت کرنا، وہ پریشان اور دکھی ہوں تو ان کی پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کرنا، ان کی جان و مال عزت و آبرو کا احترام کرنا، ان کی بھلائی بہتری،ہدایت اور مغفرت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا، وہ صلہ رحمی نہ بھی کریں تو ان کے ساتھ صلہ رحمی کرنا۔ یہ رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی چند صورتیں ہوسکتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

فات ذا القربی حقہ و المسکین وابن السبیل، ذالک خیر للذین یریدون وجہ اللہ۔ (الروم: ۳۸)

’’پس (اے مومن) رشتے دار کو اس کا حق دے اور مسکین و مسافرکو(اس کا حق) یہ طریقہ بہتر ہے، ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہیں۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’رشتے داری رحمان کی ایک شاخ ہے، پس اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ (اے رشتہ داری) جو تجھے جوڑے گا میں اس سے جڑوں گا اور جو تجھے کاٹے گا میں اس سے کٹ جاؤں گا۔‘‘ (بخاری)

رشتہ داروں کے ساتھ اچھاسلوک کرنا اور ان کے حقوق ادا کرنا اللہ تعالیٰ کی صفت رحمان کی تجلی کا ایک عکس ہے اور اس کی رحمت کے آثار میں سے ایک اثر ہے۔ جو شخص رشتہ داروں کے ساتھ بہتر سلوک کرتا ہے اور ان کے حقوق ادا کرتا ہے وہ اللہ کی رحمت اور نگاہ کرم کامستحق ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس جو رشتہ داروں سے تعلقات توڑ لیتا ہے اوران کے حقوق ادا نہیںکرتا وہ خدا کی رحمت سے دور ہوجاتا ہے۔

اللہ کے پیارے رسول ﷺنے فرمایا:’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے مہمان کا اکرام کرے، اور جو شخص اللہ اورآخرت کے دن پرایمان رکھتاہو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہواسے چاہیے کہ بھلائی کی بات کرے یا پھر خاموش رہے۔‘‘ (بخاری و مسلم -ابوہریرہؓ)

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ سرورِ کونین ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص کو یہ پسند ہو کہ اس کا رزق کشادہ ہو اور اس کی عمر لمبی ہو تو اسے چاہیے کہ رشتہ داروں سے حسن سلوک کرے۔‘‘ (بخاری)

یعنی جو آدمی رشتہ داروںکے ساتھ مل جل کر رہے گا، ان کی خوشی وغمی میں ساتھ دے گا، ان کے ساتھ ہر حال میں حسن سلوک کرے گا اللہ تعالیٰ ان کے مال اور عمرمیں برکت عطا کرے گا، اس کے دل کوسکون اور اطمینان کی دولت عطا فرمائے گا۔ جہاں رشتہ دار ایک دوسرے کے دشمن ہوتے ہیں ایک دوسریسے نفرت کرتے ہیں، ایک دوسرے کی برائی چاہتے ہیں لازماً وہ جلن، کڑھن اور اضطراب کاشکار رہتے ہیں اور ان کے دل بے سکون ہوتے ہیں۔ اسی لیے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’رشتہ داروں سے تعلق توڑنے اور ان سے بدسلوکی کرنے والاجنت میں داخل نہیں ہوگا۔‘‘ (ترمذی)

ایک اورحدیث میں اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’سرکشی اور قطع رحمی سب گناہوں سے زیادہ اس بات کی مستحق ہے کہ ان کاارتکاب کرنے والے کو خداتعالیٰ دنیا میں بھی سزا دے، علاوہ اس سزا کے جو اس نے اس کے لیے آخرت میں رکھی ہے۔‘‘ (ابوداؤد)

حضور ﷺ پر والدین کی نافرمانی کی سنگینی منکشف ہوئی تو آپؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس جرم کے مرتکب کو اس کی وفات سے پہلے بھی دنیا میں سزا دے کر رہے گا۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ والدین کی نافرمانی کرنے والے، ظالم اور قطع رحمی کرنے والے نہ صرف یہ کہ قیامت کے دن اپنے اپنے گناہوں کی سزا پائیں گے بلکہ دنیا میں بھی اپنی موت سے پہلے ان کو سزا دی جائے گی اور وہ اپنے کئے کا بدلے پاکر رہیں گے۔

اچھاسلوک کرنے والے رشتہ داروں کے ساتھ اچھا سلوک توسب ہی کرتے ہیں لیکن کمال درجے کی صلہ رحمی یہ ہے کہ جو ہم سے اچھا سلوک نہ کریں، ہم سے کٹنے کی کوشش کریں، ہمارے حقوق ادا نہ کریں، بلکہ براسلوک کریں ہم ان کے ساتھ بہتر سلوک کرتے رہیں اور ان کے حقوق ادا کرتے رہیں صرف اس لیے کہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے اور ہم آخرت میں اس کی نعمتوں بھری جنت کے مستحق بن جائیں۔

رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’صلہ رحمی کرنے والاوہ نہیں ہے جو(اپنے رشتہ داروںکی طرف سے کی گئی صلہ رحمی کے) جواب میں صلہ رحمی کرے بلکہ صلہ رحمی کرنے والاتو وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ (اس کے جواب میں) صلہ رحمی کرے۔‘‘ (ترمذی)

ایک آدمی نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! میر ے بعض رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں ان سے جڑتا ہوں اور وہ مجھے کاٹ پھینکتے ہیں میںان سے حسن سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے برا برتاؤ کرتے ہیں۔ میںان سے درگذر کرتا ہوں اور وہ مجھ سے اجڈپن دکھاتے ہیں۔‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اگر تو ایسا (بلند اخلاق) ہے جیسا کہتا ہے تو گویا، تو انھیں بھوبھل (گرم راکھ) کھلارہا ہے۔ جب تک تو اس رویہ پر قائم ہے اللہ کے یہاں تیرے ساتھ ایک معاون مقرر ہوگا جو ان کی شرارتوں سے تیری حفاظت کرتا رہے گا۔‘‘ (مسلم، ابوہریرہؓ)

مطلب یہ ہے کہ جو رشتہ دار تمہارے حسن سلوک اور صلہ رحمی کا جواب قطع رحمی اور برے سلوک سے دیتے ہیں وہ ذلیل و رسوا ہوں گے۔ ان کی ایذا رسانی کے باوجود جب تک تم ان سے اچھا سلوک کرتے رہو گے اور ان کے حقوق ادا کرتے رہو گے اللہ تعالیٰ ایک فرشتہ کے ذریعہ تمہیں ان کی شرارتوں سے بچاتا رہے گا۔

اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص تجھ سے قطع رحمی کرے تو اس سے حسنِ سلوک کر اور جوتجھ سے برا برتاؤ کرے تو اس پر احسان کر اور انصاف کی بات کہہ اگرچہ اس کی زد خود تجھ پر پڑے۔‘‘ (بخاری)

رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات درست رکھنے کے لیے بہت صبر وتحمل، حوصلہ اور عفو و درگذر کی ضرورت ہے۔ تعلقات کو نبھاہنے کے لیے خوف خدا کی ضرورت ہے کہ کوئی ہم سے بہتر سلوک کرے یا نہ کرے ہم اللہ کے احکام پر چلتے ہوئے اس کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے اور اس لیے کریں گے کہ اس میں خدا کی رضا اور اس کا حکم ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جو مسلمان لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں کو برداشت کرتا ہے وہ کہیںبہتر ہے اس شخص سے جو لوگوں سے الگ تھلگ رہتا ہے اور ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر برداشتہ خاطر ہوتا ہے۔‘‘ (ترمذی)

ایک اور حدیث میں اللہ کے رسول نے فرمایا:

افشوا السلام و اطعموا الطعام وصلوا الارحام تدخلوا الجنۃ بسلام۔

’’سلام کو پھیلاؤ، بھوکوں کو کھانا کھلاؤ اور صلہ رحمی کرو تو تم سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔‘‘

صلہ رحمی یا برا سلوک کرنے والے رشتہ داروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنا بڑے دل گردے اور عزم و حوصلہ کا کام ہے۔ اور جو لوگ یہ عظیم کام انجام دیں وہ واقعی عظیم اور نیک لوگ ہیں۔ اور یہ ایسی صورت میں ممکن ہے جب ہمارے اندر اللہ کی رضا کی طلب اور اس کے احکام کی پابندی ہو۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں