رشتہ

ام ایمان

آج نہ جانے کون سا چاند چڑھائیں گی۔‘‘
دروازے سے اندر داخل ہوتی نند صاحبہ کو دیکھ کر حلیمہ بیگم کے منہ سے بے اختیار نکلا اور وہ انجانے وسوسوں میں گھری استقبال کے لیے اْٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’السلام علیکم!آپا۔‘‘
اگرچہ باہر سے آپا آئی تھیں لیکن سلام بہر حال حلیمہ ہی کو کرنا پڑا۔
’’وعلیکم السلام…جلدی سے ۱۰؍ ہزار روپے لا کے دو، مجھے ضرورت ہے۔‘‘
حال احوال پوچھنے کا تکلف کیے بنا اُنہوں نے حکم صادر فرمایا اور خود ٹھسے سے سامنے بچھی چارپائی پر بیٹھ گئیں۔ یہ دیکھے بنا کہ اْن کی بات نے حلیمہ بیگم کو کس مشکل سے دوچار کر دیا ہے۔
’’آئے ہائے، ابھی تک منہ اْٹھائے کھڑی ہو۔ دس ہزار مانگے ہیں میں نے ،۱۰ ؍لاکھ روپے نہیں جو تمہیں یوں سکتہ ہو گیا۔‘‘حلیمہ بیگم کا گومگو کی کیفیت میں کھڑا رہنا اْنہیں مزید طیش دلاگیا تھا۔
’’نہیں آپا…وہ بات دراصل یہ ہے کہ …‘‘باوجود کوشش کے حلیمہ بات مکمل نہ کر پائیں۔
’’اے بی بی …اب یہ مت کہہ دینا کہ رقم نہیں۔ ارے ہمارا بھائی بے چارہ باہر بیٹھا کما کما کر بوڑھا ہو رہا ہے اور یہاں بیگم صاحبہ اللے تللوں میں اْڑا دیتی ہیں۔ اگر کبھی غلطی سے ہم بہنیں دو پیسے مانگ لیں تو آئیں بائیں شائیں کرنے لگتی ہیں۔‘‘
آپا بیگم کی باتوں نے حلیمہ بیگم کی رہی سہی ہمت بھی توڑ ڈالی اور وہ خاموشی سے اندر کی طرف بڑھ گئیں۔
’’آپا بیگم یہ کل ۷؍ ہزار روپے ہیں۔ ۵؍ ہزار آپ لے لیں ، ۲؍ ہزار میں رکھ لوں…؟‘‘سدرہ اور حنا کا بیگ اور یونیفارم لینا ہے اور اب اِس ماہ جویریہ کو بھی اسکول داخل کروانا ہے۔‘‘تھوڑی دیر بعد حلیمہ پیسے لے کر واپس آ گئیں اور اب منمناتے آپا بیگم کی منت کر رہی تھیں۔
’’آئے ہائے حلیمہ! میرے بھائی نے پیسوں کے ڈھیر لگا دیے تمہارے سامنے لیکن تمہاری بھوک پھر بھی ختم نہ ہوئی۔ میں کیا ۵؍ ہزار روپوں کا اچار ڈالوں گی جو تم یوں مجھے خیرات کی طرح پکڑا رہی ہو، رکھو اِنہیں بھی اپنے پاس۔ میں کہہ دوں گی احمد سے کہ تیری بیوی کو ہم سے تعلق داری نبھانا پسند نہیں تو تْو کیوں ہلکان ہوا پھر رہا ہے۔ ہم تو بس ماں جایا سمجھ کر آ جاتے ہیں کہ اپنا خون ہے ، پر بی بی جب تمہیں ہم بہن بھائی کی محبت نہیں پسند تو ہم کیوں روز جوتے کھانے تیرے دروازے پر آئیں؟‘‘
مصنوعی افسردگی طاری کرتے آپا بیگم کا کہنا حلیمہ کے اوسان خطا کر گیا۔ احمد سے بات کرنے کا مطلب وہ خوب اچھی طرح سے جانتی تھی۔
’’ارے نہیں…نہیں ! آپا بیگم کیسی باتیں کر رہی ہیں…مجھے کیوں برا لگے گا بھلا، آپ احمد کی ہی نہیں میری بھی آپا ہیں۔‘‘
حلیمہ کے مدہم لہجے نے آپا کو مزید شہہ دی۔’’رہنے دو بی بی‘ یہ سب منہ دیکھے کی باتیں ہیں۔ ارے اگر تم نے مجھے بہن سمجھا ہوتاا تو یوں آدھی ادھوری رقم ہاتھ میں نہ پکڑاتیں۔ لاکھوں روپے دبا رکھے ہیں مگر ہم بہنوں کو دیتے جان جاتی ہے تمہاری۔‘‘
آپا بیگم کسی صورت حلیمہ کو بخشنے کو تیار نہ تھیں۔
’’خدا گواہ ہے آپا بیگم، میرے پاس اِن ۷؍ ہزار روپے کے سوا ایک چونی بھی نہیں۔ آپ جانتی ہیں کہ عرب ممالک میں اب پہلے جیسی کمائی نہیں رہی۔ یہ روپے اْن ۲۰؍ ہزار میں سے بچے تھے جو پچھلے ماہ اْنہوں نے بھجوائے۔ آج نئے ماہ کی دس تاریخ ہونے کوآئی ، ابھی تک کچھ بھی نہیں بھجوایا احمد نے اور شاید ابھی مزید کچھ دِن لگیں گے۔ اِسی لیے میںنے ۲؍ ہزار کے لیے کہا تھا۔ اگر آپ کو زیادہ ضرورت ہے تو آپ رکھ لیں…میں تو صرف بچیوں کے خیال سے کہہ رہی تھی۔‘‘
حلیمہ نے بے چارگی سے وضاحت کی لیکن شاید آپا بیگم کو یقین آ گیا تھا۔ جبھی فوراً ہاتھ بڑھا کر ۲ ہزار جھپٹے تھے۔
’’آئے ہائے حلیمہ! تمہیں دس بار کہا ہے کہ لڑکی ذات ہیں، اْنہیں اِتنا سر مت چڑھاؤ۔ ارے کل کو بیاہ کر دوسرے گھر سدھاریں گی تو پھر ان کی پڑھائی پہ اِتنی رقم جھونکنے کی کیا ضرورت ہے؟ دس دس کر لیں تو گھر بٹھاؤ انہیں۔‘‘
آپا بیگم کے ارشادات حلیمہ سننے پر مجبور تھی سو سر جھکائے سننے لگی۔ یہ الگ بات ہے کہ عمل کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
’’اچھا اچھا، اب زیادہ مظلومیت منہ پہ طاری کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ لو رکھ لو گھر کے خرچ پانی کے لیے۔‘‘
حلیمہ کے جواب نہ دینے پر اْنہیں تاؤ آ گیا لیکن پھر رقم ملنے کے خیال سے چپ ہو رہیں اور ہزار کا نوٹ حلیمہ کی طرف بڑھاتے ہوئے اْٹھ کھڑی ہوئیں۔ ان کے شاہانہ انداز پہ حنا کے جی میں آئی کہ ایک بار تو ٹھیک ٹھاک قسم کی سزا دے اپنی پھوپھو کو لیکن پھر ماں کی تنبیہی نظروں سے خائف منہ سیے کھڑی رہی۔ لیکن یہ خاموشی بس آپا بیگم کے گھر سے باہر نکلنے تک ہی تھی، ان کے نکلتے ہی وہ حلیمہ بیگم کے سر ہو گئی’’امی آپ بھی کمال کرتی ہیں۔ پھوپھو کو سارے پیسے لا کر پکڑا دیے۔ اْنہیں الہام تھوڑی ہوا تھا کہ ہمارے پاس دو ، تین ہزار روپے ہیں یا سات ہزار…؟‘‘
حنا کی بات پر حلیمہ بیگم نے ایک پل کو اْسے دیکھا اور کہا ’’جب تمہارے ابو خود ہی پیسے پیسے کا حساب اْنہیں دیتے ہیں تو پھر میرے چھپانے سے وہ بھلا کہاں ماننے والی ہیں؟ اْلٹا مزید باتیں سنا جاتیں میری فضول خرچی پہ اور اللے تللوں میں اْڑانے کے طعنے الگ۔‘‘ماں کی بات نے حنا کو مزید مشتعل کردیا’’تو آپ اْنہیں کہیں کہ ہمارے روپے ہیں، ہم جیسے مرضی استعمال کریں ، وہ کون ہوتی ہیں پوچھ پڑتال کرنے والی۔‘‘
’’ہاں تاکہ وہ تمہارے باپ کو ایک کی دس لگا کر بتائیں۔ وہ تو پہلے ہی بہنوں کے کہنے میں آ کر مجھے چھوڑنے کی دھمکیاں دیتے رہتے ہیں پھر تو ایک پل کی دیر نہ لگائیں۔ کہاں جاؤں گی میں اِس کے بعد تم تینوں کو لے کر …؟اور تم بھی ان معاملات میں دخل اندازی سے پرہیز کیا کرو۔ سدرہ تم سے سال بھر بڑی ہے لیکن مجال ہے جو اْس نے کبھی یوں منہ ماری کی ہو میرے ساتھ اور تمہیں ہر بات میں سوائے اعتراض کے اور کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ اگر یہی حال رہا تو تمہاری پھوپھیاں نے ابھی سے گھر بٹھا دیں گی کجا کہ کالج تک پہنچنے دیں تم لوگوں کو۔‘‘
حلیمہ بیگم کے غصے نے وقتی طور پر تو حنا کو چپ کر وا دیا لیکن وہ دل میں ابھی بھی اپنی پھوپھیوں سے خائف تھی، جو اْن کے منہ کا نوالہ تک چھین لینا چاہتی تھیں۔ اْس نے بچپن سے ہی ماں کو پھوپھیوں اور باپ کے سامنے گھگیاتے دیکھا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ جہاں وہ خود اْن کی باتوں پر جواب دیتی، وہیں ماں کو بھی عمل پر اْکساتی لیکن پھر حلیمہ بیگم کی ناراضی کے ڈر سے خاموش ہوجاتی۔
’’پتا نہیں کب ابو کو یہ بات سمجھ میں آئے گی کہ وہ یوں دوسروں کی باتوں میں آ کر اپنے خاندان کو کس طرح سے نظر انداز کر رہے ہیں۔‘‘تاسف سے سر ہلاتے ہوئے حنا مسلسل سوچتی جا رہی تھی۔
٭٭
’’سدرہ…سدرہ، بیٹا دیکھو باہر دروازے پہ کون ہے؟‘‘ دھلے کپڑوں کو تہہ لگاتے حلیمہ بیگم نے سدرہ کو آواز دی۔
’’امی یہ منی آرڈر آیا ہے۔‘‘
سدرہ نے ہاتھ میں پکڑی رقم اور منی آرڈر کی رسید ماں کی طرف بڑھائی۔
’’ہاں وہ تمہارے ابو کہہ رہے تھے کہ بڑی آپا کا رمیز ایف۔ اے میں اچھے نمبروں سے پاس ہونے پر موٹر سائیکل کی فرمایش کر رہا ہے،اْس کے لیے بھجوائے ہیں۔ کہہ رہے تھے۴۰؍ ہزار روپے ابھی دے دو۔ باقی اگلی بار بھجوا دوں گا‘‘۔
دستخط کر کے پرچہ سدرہ کی طرف بڑھا دیا اور خود رقم گننے لگیں۔
’’رمیز صاحب نے ایسا کون سا تیرا مارا ہے؟ رو پیٹ کر سیکنڈ ڈویڑن لی ہے نواب زادے نے اور میری جو بورڈ میں پانچویں پوزیشن ہے اْس کا کیا؟‘‘
جب تک سدرہ رسید ڈاکیے کو پکڑا کر واپس ہوئی، حنا رمیز کی شان میں ٹھیک ٹھاک قصیدہ پڑھ چکی تھی۔
’’تمہیں اللہ کا واسطہ ہے حنا ، میرا دماغ مت چاٹو۔ جو کہنا ہے اپنے باپ سے کہو جا کر …‘‘ حلیمہ بیگم نے دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے غصے سے کہا۔
حنا اُن کے غصے سے خائف ہوئے بغیر فوراً اندر گئی اور کہا ’’ان سے تو ایسا کہوں گی کہ رمیز صاحب بس خواب میں ہی بائیک چلانے کا شوق پورا کر یں گے۔‘‘
منہ ہی منہ میں بڑبڑاتی وہ اندر بڑھ گئی۔ جب دس منٹ بعد اْس کی واپسی ہوئی تو ہاتھ میں پکڑا فون ماں کی طرف بڑھاتے ہوئے مسکرا کر بولی ’’ابو آپ سے بات کرنا چاہ رہے ہیں۔‘‘
مزے سے بازو اِدھر اُدھر جھلاتے اْس نے گویا اپنی ہی بات کا لطف لیا جبکہ حلیمہ بیگم حیرت زدہ نگاہوں سے اسے دیکھتی فون کی طرف متوجہ ہو گئیں۔
’’جی…جی…جی اچھا…جی لیکن آپ نے تو کہا تھا کہ وہ پیسے رمیز کو…جی جی …جی ٹھیک ہے۔ چلیں جیسے آپ کہیں…‘‘
اُنہوں نے فون بند کر کے حنا کی طرف بڑھایا اور گہری سانس بھر کر بولیں ’’کیا کہا تھا تم نے اپنے ابو سے؟‘‘
’’کچھ بھی نہیں…‘‘حنا بٹن دباتے سرسری لہجے میں بولی۔
’’تو پھر اُنہوں نے یہ کیوں کہا کہ ۱۵؍ ہزار رمیز کو دے دو اور باقی حنا سے پوچھ کر اْس کو خریداری کروا دو۔‘‘
حلیمہ بیگم نے اْلجھن بھرے لہجے میں استفسار کیا۔
’’میں نے صرف اِتنا کہا تھاکہ رمیز کے نمبروں سے میرے نمبر اور پوزیشن تین گنا بہتر ہے،اِس حساب سے مجھے آپ تین بائیکوں کے پیسے بھجوا دیں کیونکہ یہ میری عزت کا سوال ہے۔ سارے لوگ کہتے ہیں کہ ابو تمہارے اور پیسے اور تحائف تمہارے عم زادوں کے لیے آتے ہیں۔ کیا تمہارے ابو کو تم لوگوں سے پیار نہیں…؟‘‘
حنا کی بات پر سدرہ نے مسکرا کر گویا اْس کی تائید کی۔ وہ خاموش طبع، دھیمے مزاج کی لڑکی تھی لیکن دل تو آخر اْس کا بھی تھا جو اپنے باپ سے فرمائشیں اور لاڈ اْٹھوانے کی ضد کرتا تھا۔
’’لیکن اب میں تمہاری پھوپھو کو کیا جواب دوںگی؟‘‘ ایک نئی پریشانی حلیمہ بیگم کے سر پر سوار ہو گئی۔
’’کہنا کیا ہے، کہیے گا کہ ابو نے رمیز کے موبائل کے لیے روپے بھجوائے ہیں اور حنا کے کمپیوٹر کے لیے۔‘‘
اپنی بات کے اختتام پر موبائل ہاتھ میں گھماتی حنا تو لاپروائی سے اندر چلی گئی لیکن حلیمہ بیگم کے لیے نئی پریشانی چھوڑ گئی۔ اْنہیں پتا تھا کہ بڑی آپا اِس بات کو آسانی سے برداشت نہیں کریں گی اور ہوا بھی یہی ، جبھی فوراً احمد کو فون کھڑکادیا۔
’’احمد دیکھا ،تمہاری بیوی نے کیسے تنگ دلی کا ثبوت دیا۔ ارے، جب تم نے رمیز کے موٹر سائیکل کے پیسے بھجوائے تو پھر اْس نے کیوں ۱۵؍ہزار بچے کی ہتھیلی پر رکھے۔ کیا بتاؤں کتنا دِل بْرا ہوا ہے میرے بچے کا۔ دو دِن سے ڈھنگ سے کھانا بھی نہیں کھایا اْس نے…‘‘
آواز میں سوز بھرے آپا بیگم نے احمد کو غصہ دلانے کی ٹھیک ٹھاک کوشش کی لیکن جواب اْن کی توقع کے خلاف تھا جبھی حیرت سے منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
’’ارے نہیں آپا، حلیمہ کو میں نے خود کہا تھا۔ دراصل میرے پاس ابھی یہی رقم تھی اور حنا کانتیجہ بھی آپ سب کو پتا ہے کہ کتناشاندارآیا ہے۔ اِس نے بھی کمپیوٹر کی فرمایش کی تھی بلکہ اب تو اِس کی ضرورت بھی ہے۔ فرسٹ ائیر میں کمپیوٹر جو رکھ رہی ہے، بڑی سمجھدار بچی ہے میری۔ پاس ہونے کا تحفہ لیا بھی تو ضرورت کی چیز ورنہ رمیز کی طرح اگر موبائل وغیرہ لے لیتی یا کپڑے جوتوں پر خرچ کر دیتی تو کمپیوٹر تو پھر بھی مجھے لے کر دینا ہی تھا۔‘‘
احمد کے لہجے میں حنا کے لیے جو محبت تھی، اْس نے آپا بیگم کو گویا کانٹوں پہ لوٹایا۔وہ ساری عمر بھائی کے کان بھرتی رہی تھیں تاکہ وہ بیوی اور بچیوں سے بدظن رہے اور اْن بہنوں کی ہتھیلی گرم کرتا رہے لیکن اب اِس کل کی لڑکی نے باپ کو نہ جانے کیا گیدڑ سنگھی سنگھائی تھی کہ وہ ساری محبت جو کل تک بہنوں اور ان کے بچوں پر لوٹائی جاتی تھی ، یک لخت اْس کا رْخ احمد کی اولاد کی طرف ہو گیا۔یہ ایسا جھٹکا تھا کہ چند لمحوں کے لیے ان سے کچھ بولا ہی نہ گیا جبکہ احمد ان کی کیفیت سے بے خبر الوداعی کلمات کے بعد فون رکھ چکا تھا۔
٭٭
’’حنا…دیکھنا ذرا، دروازے پر کون ہے…؟‘‘
مسلسل بجتی گھنٹی پر کپڑے استری کرتی سدرہ نے حنا کو مڑ کر آواز دی۔ تھوڑی دیر بعد حنا کی غیر متوقع چیخ سن کر سدرہ اور باورچی خانے میں کھانا پکاتی حلیمہ دہل کر باہر نکلیں۔
’’الٰہی خیر…کیا ہوا حنا؟‘‘ حلیمہ بیگم کی تشویش زدہ آواز اْبھری لیکن پھر وہ ٹھٹھک کر دروازے میں ہی رْک گئیں۔
’’ابو آپ…؟‘‘
خوشی سے چہکتی سدرہ بھی احمد کے گلے لگ گئی۔ حنا پہلے ہی ان کے کندھے سے جھول رہی تھی۔
’’ارے میرا بیٹا کیسی ہو ؟…اور جویریہ کہاں ہے…؟‘‘
اْنہوں نے جویریہ کے متعلق پوچھ کر حلیمہ بیگم کو ورطِ حیرت میں ڈالا۔ پہلے اْنہوں نے کب ایسی بے صبری کا مظاہرہ کیا تھا؟ برسوں بعد آتے اور آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں چلے جاتے۔ باہر باپ سے ملنے کو بے تاب بچیوں کو وہ ہزاروں بہلاوؤں سے بہلانے کی کوشش کرتیں۔
’’ابو وہ سو رہی ہے۔ اسکول نیا نیا جانا شروع کیا ہے ناں تو تھک جاتی ہے، اِس لیے آتے ہی سو جاتی ہے۔‘‘
گرمیوں کی لمبی چھٹیوں کے بعد ایک بار پھر سے نئے سرے سے اسکول کالج جانا بچوں کے لیے مشکل کام ہوتاہے۔ جبھی احمد، سدرہ کی بات پر ہنس پڑے۔
’’اور جناب والدہ محترمہ کیسی ہیں آپ کی…؟ہمیں دیکھ کر تو گویا سانس لینا بھول گئی ہیں۔‘‘
حلیمہ کو شرارتی نظروں سے دیکھتے احمد نے بچیوں سے سوال کیا تو حلیمہ جھینپ کر آگے بڑھی۔
’’اپنے ابو کو دروازے میں ہی کھڑا کر لیا۔ اندر تو آنے دو اْنہیں، اِتنا لمبا سفر کیا ہے، تھک گئے ہوں گے۔‘‘
حلیمہ کے کہنے پر تینوں باپ بیٹیاں اندر کی طرف بڑھ گئیں۔ اب خوش گپیوں کا نیاد ور شروع ہو چکا تھا۔ نہ جانے یہ سلسلہ کتنی دیر تک جاری رہتا کہ حلیمہ نے سدرہ کو آواز دے کر کھانا لگانے کے لیے کہا۔
’’ارے امی، آپ نے اکیلے ہی سب کچھ کر لیا، مجھ سے کہہ دیا ہوتا…‘‘سدرہ نے باقی کام مکمل دیکھ کر شرمندگی سے کہا۔
’’کوئی بات نہیں بیٹا ، تمہارے ابو اِتنے عرصے بعد آئے ہیں، تم لوگوں سے باتیں کرنے کو دل چاہ رہا ہوگا اْن کا، اور کام کون سا زیادہ تھا ، سب کچھ تیار ہے بس، تم برتن لگاؤ۔‘‘
کھانے کے بعد چائے کا دور شروع تھا جب آپا بیگم کی آمد ہوئی۔ سامنے بیٹھے احمد کو دیکھ کر حیرت کی زیادتی سے وہ گویا گنگ ہو گئیں۔
’’ارے احمد…تم …اِتنا اچانک…؟ بتایا ہی نہیں اپنے آنے کے بارے میں۔ تمہیں لینے ہوائی اڈے آ جاتے…‘‘ بھائی سے گلے ملتے اْنہوں نے کہا۔
’’بس آپا میں نے سوچا اِس بار سب کو حیران کر دوں۔ اِسی چکر میں نہ فون پر آنے کے بارے میں بتایا اور نہ ہی ہوائی اڈے پہنچ کر اطلاع دی۔‘‘ آپا کے بیٹھنے کے لیے جگہ بناتے احمد نے تفصیل سے جواب دیا۔
’’آئے ہائے حنا، سدرہ… تمہیں عقل نہیں ہے پھوپھو باہر سے آئی ہیں، سلام دْعا ہی کر لیں یا چائے پانی کے لیے پوچھ لیں۔دیکھ رہے ہو احمد، یہ تربیت کی ہے تمہاری بیوی نے بچیوں کی۔ ارے ہم تو تمہاری عزت کے خیال سے خبرگیری کرتے رہتے ہیں ورنہ تو بچیوں کی بے حسی دیکھ کر دل کڑھتا ہے۔‘‘
حنا اور سدرہ کو باپ کے گرد گھیرا ڈالے دیکھ کر اْنہیں عجب کوفت نے آ گھیرا تھا،لہٰذا کچھ اور سمجھ نہ آنے پر اِسی بات پر اعتراض کرنا شروع کر دیا۔ مقصد تو صرف احمد کی بیوی کی نااہلی دِکھانا مقصود تھا۔
’’نہیں نہیں آپا…میری بچیاں ایسی نہیں ہیں، یہ تو بس میرے آنے کی خوشی میں…‘‘ احمد نے محبت سے حنا کو ساتھ لگاتے بات اَدھوری چھوڑ دی۔
’’آپ آئے بھی پورے پانچ سال بعد ہیں نا۔‘‘ حنا نے لاڈ سے ابو کے کندھے پر سر رکھتے کہا۔اِس کے انداز پر احمد گویا نہال ہوگیا جبکہ آپا بیگم کو محبت کا یہ مظاہرہ ایک آنکھ نہ بھایا۔
’’اے ہے اب یوں تو نہ چمٹو باپ کو، بے چارا تھکا ہارا آیا ہے، کچھ دیر آرام تو کرنے دو۔‘‘ اْنہوں نے غصے سے حنا کو گھورتے ہوئے کہا۔
’’ارے نہیں آپا…اِن کو کچھ مت کہیے۔ اِن کو دیکھ کر تو میری ساری تھکن دْور ہو گئی ہے۔‘‘
سدرہ کے سر پر محبت سے ہاتھ پھیرتے احمدنے آپا بیگم کو ٹوکا تو ان کے ساتھ حلیمہ بھی حیران رہ گئیں۔ پانچ سال پہلے کا منظر اْن کی نگاہوں کے سامنے گھوم گیا جب احمد کے آنے پر قدم قدم پر آپا نے بچیوں کو ڈانٹا تھا اور حلیمہ کی بھی سرزنش کرتی رہتی تھیں۔ احمد اْن کی ہاں میں ہاں ملاتے رہے تھے لیکن اب مسلسل ان کی ہر بات کی نفی کیے جا رہے تھے۔
’’اچھا اب غصہ تھوک دیں اور ایک اور حیران کن بات سنیں۔ میں نے کینیڈا کے لیے ویزہ اپلائی کیا تھا، وہ منظور ہو گیا ہے۔ اگلے مہینے میں خاندان سمیت کینیڈاچلا جاؤں گا۔‘‘احمد کی بات سن کرہر کوئی سکتے میں آ گیا۔
’’ہیں…سچی ابو؟‘‘ حنا گویا اْچھل ہی پڑی۔
’’بالکل سچ بیٹا…میں نے کافی عرصے سے درخواست دی ہوئی تھی جومنظورہوگئی ہے۔ سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ رہائش بھی مل رہی ہے۔ اب میرا بچہ کینیڈا جا کر پڑھائی کرے گا اور وہیں پوزیشن لے گا۔ کیوں ٹھیک ہے نا؟‘‘
احمد نے حنا کی پوزیشن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تو حنا نے زور و شور سے سر ہلایا اوربولی:’’بالکل ٹھیک ابو …لیکن جانے سے پہلے میں اپنی دوستوں کو پارٹی دوں گی۔‘‘ اس نے اْٹھ کر کہا۔
’’ضرور لیکن صرف دوستوں کو ہی کیوں بھئی…ہم بڑے پیمانے پر دعوت کریں گے اور سارے خاندان کو بلائیں گے، پھر پتا نہیں کب وطن آئیں، ایک بار تو سب مل بیٹھ لیں۔ کیوں آپا ، ٹھیک کہہ رہا ہوں نا…‘‘
حنا کے ساتھ پروگرام ترتیب دیتے آخر میں اْنہوں نے بڑی آپا کی رائے لینا چاہی۔وہ بھی حالات کی تبدیلی کو بھانپ گئی تھیں، جبھی دھیمے انداز میں سر ہلا کر تائید کی۔
احمد نے ان کے انداز اور حلیمہ کی حیرت کو بغور دیکھا اور صوفے کی پشت سے ٹیک لگا کر آنکھیں موند لیں۔
’’مجھے آپ لوگوں کی حیرت بخوبی نظر آ رہی ہے۔ آپ سب میرے بدلے رویے پر حیران ہیں لیکن اگر فاروق حسن کا حال نہ دیکھتا تو شاید میں بھی ساری زندگی یوں ہی رِشتوں کو بے توازن رکھتا۔ اْس نے بھی ساری زندگی اپنے بھائی بہنوں کو ترجیح دی اور اپنی اولاد اور بیوی کو نظر انداز کیے رکھا۔ اب جبکہ ایک حادثے میں وہ اپنی ٹانگوں سے ہاتھ دھو بیٹھا تو اِس کی اولاد نے تو اِس سے نظریں پھیری ہی تھیں ، اْس کے بہن بھائیوں نے بھی قطع تعلق کر لیا جن کے لیے ساری زندگی وہ مشین بن کرکام کرتا رہا اور ان کے بچوں کی فرمائشیںپوری کرنے میں لگا رہا۔ اب ایک سرکاری ہسپتال میں لاوارثوں کی طرح پڑا وہ ہر پاکستانی جاننے والے کو جو اِس کی عیادت کو آتا تھا ، ایک ہی نصیحت کرتا کہ رِشتوں میں توازن رکھو ، ورنہ آخری عمر میں خود بے توازن ہو جاؤ گے۔ آپا میں کیسے خود کو فاروق کی جگہ دیکھنا پسند کر سکتا ہوں؟ لہٰذا ابھی سے میں نے واپسی کا سفر شروع کر دیا ہے تاکہ کل جب خدا نخواستہ میں زندگی کے کسی موڑ پر تھک کر رکوں تو مجھے سنبھالنے والے ، میری تھکن اْتارنے والے سہارے موجود ہوں۔
’’تب میری بیٹیاں اپنی معصوم مسکراہٹ سے میری دِلجوئی کریں اور میری شریک سفر جسے ساری زندگی میں نے نظر انداز کیا، شاید میری اب توجہ اور محبت پا کر پچھلی زندگی کی اذیت بھول جائے۔ اْس وقت میری تھکن کو اپنے نرم ہاتھوں سے سمیٹ لے، میرے دْکھ پر روئے اور میری خوشی میں خوش ہو۔ اگرچہ مجھے یہ بات بہت دیر سے سمجھ میں آئی لیکن اب بھی زیادہ وقت نہیں گزرا۔ میں اپنے آج کے عمل سے اپنا کل سنوار سکتا ہوں۔ اپنے بے توازن رشتوں کو توازن بخش کر میں آپ سب کے ساتھ ساتھ اپنے کل کو بھی بچانے کی ایک چھوٹی سی کوشش ضرور کروں گا۔‘‘
یہ کہہ کردِل میں پختہ عہد باندھے احمد آنے والے کل کی سرشاری میں کھو سا گیا۔
٭٭
’’اے حلیمہ…اگر کوئی کام ہے تو مجھے بھی بتاؤ۔ کہاں اکیلی ہلکان ہوتی پھر رہی ہو…؟‘‘
دعوت والے دن آپا بیگم کے ساتھ چھوٹی آپا بھی حلیمہ کے پیچھے پیچھے پھر رہی تھیں۔ احمد کے رویے نے اْنہیں خوب اچھی طرح سے باور کروا دیا تھا کہ اب حلیمہ سے بنا کر رکھنے ہی میں اْن بہنوں کی بہتری ہے۔ جبھی کل تک انہیں پاؤں کی جوتی برابر نہ سمجھنے والی نندیں اب چھوٹی سے چھوٹی بات میں اْن کی رائے لے رہی تھیں اور آگے پیچھے پھر رہی تھیں۔
’’نہیں آپا سب کام مکمل ہیں، آپ تکلف نہ کریں۔ آئیں اِدھر ہی بیٹھ جائیں۔‘‘
صوفے پر جگہ بناتے حلیمہ نے اْنہیں پاس بیٹھنے کو کہا۔ قریب ہی دو تین اور رشتے دار خواتین جمع تھیں۔ تھوڑی دیر میں کھانا لگنے کی اطلاع پر ساری خواتین اْٹھ کر باہر چلی گئیں۔
’’سنو حلیمہ‘ باہر جا کر ہم بہنوں کو بھول مت جانا۔ ارے ہماری تو جان اٹکی ہے بچیوں میں! احمد سے کہا بھی تھا کہ سدرہ کا نکاح میرے رمیز سے اور حنا کا چھوٹی کے فرخ سے کردے۔ کل کو لڑکوں کو بھی باہر بلوا لینا ، اپنے لڑکے ہیں، ماموں کا احترام کریں گے۔ باہر کے لڑکوں کا کیا بھروسا…؟ لیکن اْس نے کوئی خاص بات ہی نہیں کی۔ اب بھی اْسے یاد دِہانی کرواتی رہنا۔ اگلی بار جب آؤ تو بچیوں کے نکاح کر جانا، پھر کیس جمع کروانے میں بھی وقت لگے گا۔‘‘
بڑی آپا اب حلیمہ سے اپنے بیٹوں کا مستقبل محفوظ کروانا چاہ رہی تھیں۔ احمد نے تو رِشتوں کی بات پر کچھ سال بعد کے لیے کہا تھا اور وہ بھی بچیوں کی مرضی پر منحصر تھا لیکن دونوں بہنیں حلیمہ کے ذریعے سے ہی سہی اقرار سننے کی خواہاں تھیں تاکہ کل کو ان کے بچے بھی کینیڈا جا کر ڈالر کمانے لگیں۔
’’آپا آپ کیوں پریشان ہوتی ہیں۔ احمد نے انکار تو نہیں کیا، بس مناسب وقت کے لیے کہا ہے، جب بچے شادی کے قابل ہوں گے تو اس کے بعد ہی رسم وغیرہ کریں گے۔ ابھی تو سارے بچے پڑھ رہے ہیں ، اِس طرح ان کی پڑھائی بھی متاثر ہوگی۔‘‘
حلیمہ کی بات پر دونوں بہنوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اثبات میں سر ہلا دیا۔ اْن کے چہروں سے اندرونی کیفیت کا اندازہ لگاتے حلیمہ دھیرے سے مسکرا دی۔
’’واہ مولا…! تیری شان ہے۔ ایک وقت تھا کہ یہ بہنیں مجھے کسی گنتی میں نہ رکھتی تھیں اور اب احمد کی سوچ کیا بدلی، ہر کوئی بدل گیا۔ سچ کہتے ہیں، صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ میں نے اور میری بچیوں نے طویل عرصہ اْن لوگوں کی زیادتیوں کو سہتے گزارا اور اب تْو نے انعام کے طور پر ہمارا احمد ہمیں لوٹا دیا تو پھر میں اکڑ دِکھا کر ناشکری کیوں کروں؟ جب مشکل دن ختم ہو گئے تو ان کو دہرا کر خود کو اذیت میں کیوں گرفتار رکھوں؟ مجھے اْن لوگوں سے اچھا سلوک کرنا ہے تاکہ احمد مکمل طور پر ہمارے ہو جائیں اور ان کا بھی دِل نہ دْکھے۔ آخر کو ہیں تو احمد کی بہنیں ہی نا۔ ان کے بغیر احمد بھی ادھورے ہوں گے۔ اب اِتنے لمبے عرصے بعد مجھے بٹا ہوا احمد نہیں بالکل مکمل چاہیے۔ اِسی لیے ان کے ساتھ محبت کا برتاؤ خود میرے حق میں بہتر ہے۔‘‘
دل میں آئی بدگمانیوں کو دْور ہٹاتے حلیمہ نے محبت سے سوچا اور باہر کی طرف قدم بڑھا دیے، جہاں شوہر اور بچیاں اْن کی منتظر تھیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں