۲۷؍دسمبر ۲۰۰۵ء کو رضیہ آپا انتقال فرماگئیں۔ وہ چلی گئیں لیکن یادوں کا ایک بڑا سرمایہ ہمیں سونپ کر اور امانت … شہادت حق کی امانت ہم لوگوں کے سپرد کرکے۔ حفیظ میرٹھی نے کہا تھا:
حیات جس کی امانت تھی اس کی لوٹا دی
میں آج چین سے سوتا ہوں پاؤں پھیلاکر
اللہ تعالیٰ ان کی نیکیوں کو قبول فرمائے، ان کی خطاؤں سے درگذر کرے اور ان کی قبر کو نور سے بھردے۔
بچپن میں رضیہ آپا ہمارے پورے سرکل میں (بچوں کی) چڑچڑی آپا کے نام سے مشہور تھیں۔ بچپن میں ہم سب لوگ آپا کے نام سے خار کھاتے تھے۔ہماری عربی معلمہ محترمہ فہمیدہ خان صاحبہ وقتاً فوقتاً آپا کے یہاں کسی نہ کسی کام سے بھیجا کرتی تھیں۔ استاد کے احترام میں ہم بلا چوں و چرا چلے تو جاتے مگر واپس لوٹتے وقت آپا کے دروازے سے باہر نکلتے ہی پکا عہد کرلیتے کہ اب تو آپا کہ گھر کبھی نہیں آنا اور فہمیدہ باجی سے ہم بالکل ماںکی طرح بے تکلف ہیں اس لیے ان سے بلا تکلف منہ پھلا کر آپا کی شکایت لگادیتے۔ ’’باجی! آج آپا نے فلاں معمولی بات پر ڈانٹ دیا اب ہم نہیں جایا کریں گے۔‘‘تو وہ بڑی محبت سے ہمیں سمجھایا کرتیں اور ہم بچوں میں سے کسی کی بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر باجی کو آپا میں ایسا کیا دکھائی دیتا ہے جو وہ ان کی اتنی عزت کرتی ہیں۔ گھر پر دادی، امی یا بڑی امی ہمارے ہاتھوں کوئی چیز آپا کو بھجوانے کو کہتیں تو ہم کئی زاویوں سے منہ بگاڑ کر وہاں جانے کو بمشکل راضی ہوتے۔ اور جب واپس آتے تو بگڑے ہوئے زاویوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملتا۔ گھر آتے ہی ہم بآواز بلند اعلان کرتے ’’ہمیں اب آپا کے گھر نہ بھیجا جائے ہم کسی قیمت پر نہیں جائیں گے۔‘‘ مگر عہد توڑ کر پھر جانا پڑتا کیونکہ بھائی ذرا بڑے ہوئے تو آپا ان سے بھی پردہ کرنے لگی تھیں۔
وہ بڑی نفاست پسند اور رکھ رکھاؤ والی ایک سلیقہ شعار خاتون تھیں۔ اور ہر چیز اس کی جگہ پر دیکھنا پسند کرتی تھیں۔ وہ بچوں کی کسی چیز سے چھڑ چھاڑ بالکل برداشت نہیں کرتی تھیں نتیجتاً ڈانٹ دیا کرتی تھیں، وہ ہر بچے کو بھی خود کے جیسا ہی سلیقہ شعار دیکھنا چاہتی تھیں۔ ان دنوں مطلب پانچویں تا دسویں کے درمیان ہم ان کے گھر مہینوں کے وقفے سے جاپاتے تھے اور جب بھی جاتے وہ ’صفّہ‘ کی لائبریری کی کتابوں کی فہرست تیار کرنے کو کہتیں۔ اور ہم ’’ہاں کریں گے نا آپا‘‘ کہہ کر اپنی جان چھڑاتے۔ ہائی اسکول کے زمانے میں تین کتابوں سے بھری گودریج کی الماریوں کو دیکھ کر تو ہم چکراجاتے تھے اور فہرست تیار کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔
ڈھائی سال قبل بارہویں کے امتحانات کے بعد ہم لوگوں نے ان کی شکایت کو دور کرنے کا فیصلہ کیا اس میں بھی ہماری ہی غرض چھپی تھی کہ چھٹیوں میں ہمیں مطالعہ کے لیے ڈھیر ساری کتابیں چاہئے تھیں۔ بارہویں کے امتحانات سے فراغت کے بعد میں اور حمیرا روزانہ تقریباً دو سے ڈھائی گھنٹے آپا کی لائبریری کو دیتے۔ نور، بتول، ہلال، حجاب، ذکریٰ وغیرہ تمام رسائل کو سن کے حساب سے جماتے اور ٹھیک جگہ پر لگاتے جاتے۔ ان دنوں آپا ہم سے بہت خوش تھیں۔ ہمیں ڈانٹنے واٹنے کا سلسلہ تو خیر اب بھی جاری تھا مگر فرق صرف اتنا تھا کہ پہلے ہم آپا کی ڈانٹ کو دل پہ لے لیا کرتے اور اب ان کی ڈانٹ سن کر مسکراتے رہتے اور ان سے بے حد محبت محسوس ہوتی تھی۔ ہم لوگ جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے ان کو سمجھتے گئے بلکہ ایک وقت وہ آگیا کہ ہمارے دلوں میں ان کے لیے احترام و محبت کے سوا کچھ باقی نہ رہا۔
وہ آکولہ میں جماعت اسلامی حلقۂ خواتین کی ناظمہ تھیں اور اس وقت تک رہیں جب تک صحت بالکل خراب نہ ہوگئی اور وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگئیں۔ حلقۂ خواتین کا نام انھوں نے ہی ’’صفہ‘‘ رکھا تھا۔ خلافِ شریعت وہ کوئی بات بردادشت نہیں کرتی تھیں۔ اجتماع کی سبھی خواتین ان کا بے حد احترام کرتی تھیں ا ور آپا کا رویہ ان سب سے خاصا بے تکلفانہ تھا اسی لیے اکثر ’’یارو‘‘ کہہ کر مخاطب کرتیں۔ چھوٹی سے چھوٹی بات کو وہ جامع انداز اور حوالوں کے ساتھ سمجھایا کرتیں۔ ہم لوگوں کا شروع سے یہ حال تھا کہ جہاں کہیں کوئی مسئلہ پیش آیا جھٹ آپا کا خیال آتا۔
یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب ہم آپا کی لائبریری سیٹ کررہے تھے۔ کتابوں کا مطالعہ اور ان پر آپا سے تبصرہ بھی ہوتا رہتا تھا۔ آپا نے خاص طور سے مجھے ’’آپا حمیدہ بیگم‘‘ پڑھنے کے لیے دی تھی۔ میں اسے ناول سمجھ کر لے آئی۔ مکمل پڑھنے کے بعد آپا مجھ سے ا ور اسماء باجی سے اس کے متعلق کافی دیر تک باتیں کرتی رہیں۔ باتوں کے دوران میں نے کتاب کے ورق الٹتے ہوئے آپا سے کہا ’’آپا آپ کے انتقال کے بعدمیں بھی آپ پر ایسا ہی مضمون لکھوں گی۔‘‘ تبھی اسماء باجی کا ایک زور دار گھونسا میری پیٹھ پر پڑا میں نے کراہتے ہوئے پلٹ کر باجی کو دیکھا ان کی آنکھیں انگارے برسا رہی تھیں۔ ’’سوچ سمجھ کر بات کیا کرو۔‘‘ تب مجھے پتا چلا میں کیا کہہ گئی۔ گھبرا کر رضیہ آپا کو دیکھا اور ان کی زبردست ڈانٹ پھٹکار کی منتظر ہوئی۔ مگر آپا انجان بن کر یوں باتیں کرنے لگیں تھیں جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اس بات پر مجھے اب تک پشیمانی ہے۔ بلاشبہ رضیہ آپا اپنی نوعیت کی ایک الگ ہی چیز تھیں بے حد خاص اور زبردست۔ اپنے بچپن سے لے کر اب تک ہم نے انھیں بیمارہی دیکھا تھا مگر اب تک ان کے لبوں سے کبھی کسی بیماری کا تذکرہ یا تکلیف کی شکایت وغیرہ نہیں سنی تھی۔ وہ ہمہ وقت کسی نہ کسی کام میں مصروف نظر آتیں۔ کوئی کام نہ ہو تو مطالعہ میں غرق ہوجاتیں اور بقیہ وقت عبادت میں صرف ہوتا۔ اصلاح کا ان کا ایک الگ انداز تھا بہت اچھا کہ ایک بار اگر کسی غلطی کی اصلاح آپا نے کردی تو دوبارہ وہ غلطی کرنے والے سے نہ ہوتی۔تحفے دینے کا انھیں بہت شوق تھا اجتماعات میں وہ اپنے سرکل کی خواتین کو مسواک تحفتاً دیتیں اور کہتیں یہ بہترین تحفہ ہے۔ انھوں نے اپنے کسی تحفہ کو بھی حقیر یا کمتر نہیں سمجھا۔ اٹھا کر دو کھجور یں ہی بھجوادیتیں ، کبھی شہد بھجوادیتیں۔ کبھی اپنے گھر آئے کسی بچے کو پنسل یا پین دے دیا۔ کبھی کوئی کتاب دے دی۔ پونے میں جب وہ ڈیڑھ سال گزار کر آئیں تو ان کے پاس تحفوں کا ڈھیر تھا جو وہ دینے کے لیے لائی تھیں۔ خوبصورت پھولوں کا بیچ، کانچ اور تام چینی کے برتن وغیرہ۔
مئی ۲۰۰۴ء میں ہمیں پتہ چلا کہ وہ گرمیاں گزارنے اپنے بھتیجے کے پاس پونے جارہی ہیں۔ اسماء باجی نے جب ان سے تصدیق چاہی تو وہ پل بھر میں ہی ملول نظر آنے لگیں اور ان کی گہری آنکھوں میں آنسو چمکنے لگے۔ ’’ہم تو نہیں جانا چاہ رہے ہیں بیٹے مگر …‘‘ مگر وہ اکیلی یہاں کیسے رہ سکتی تھیں۔ یہاں وہ کل تین افراد رہتے تھے آپا کی بہن، بھائی اور تیسرے آپا خود۔ پھر وہ چلی گئیں اور ہم سے خط و کتابت کرتی رہیں۔ ان کے بے مثال و لاجواب خطوط ہمارے پاس ان کی بہترین یادگاریں ہیں۔ ان کا ارادہ پونے میں صرف دوماہ قیام کا تھا مگر وہ وہاں ڈیڑھ سال رہیں۔ درمیان میں وہ صرف دو مرتبہ چند دنوں کے لیے آکولہ آئیں۔ پھر ہم سب کے شدید اصرار پر وہ عیدالفطر کے دوسرے دن آکولہ آئیں۔ انھیں آکولہ آئے صرف ڈیڑھ ماہ ہوا تھا کہ وہ اپنے دائمی سفر پر روانہ ہوگئیں۔ یہ اللہ کا ہم سب پر بہت بڑا احسان ہے کہ اخیر وقت میں ہمیں ان کی تھوڑی خدمت کا موقع مل گیا تھا اورہم نے ان کے پُر نور چہرے کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کو سیراب کیا تھا۔
پچھلے سال ہوئے جلگاؤں کے ارکان و کارکنان کے اجتماع میں ہمیں یہ قطعی امید نہ تھی کہ وہ شرکت کرپائیں گی مگر وہ بہت ہمت والی تھیں۔ انھوں نے نہ صرف اس اجتماع میں شرکت کی بلکہ ’’میرا تحریکی سفر‘‘ سے بھی سب کو مستفیض کیا۔ اپنے خط میں انھوں نے تذکرہ کیا تھا کہ وہ یہ سفر نامہ ’’حجاب‘‘ کو بھیجیں گی مگر صحت کی وجہ سے دیر ہورہی ہے اور پھر موت نے انھیں مہلت ہی نہ دی کہ وہ اپنا سفر نامہ شائع ہوتا دیکھیں۔ حجاب سے ان کی وابستگی دیرینہ ہے وہ مائل خیر آبادیؒ کے زمانے سے اس کی خریدار تھیں۔ حجاب بندہونے کے بعد جب دوبارہ جاری ہوا تووہ حجاب کو خریدار فراہم کرنے پر زور دیتیں۔ وہ ’’حجاب اسلامی‘‘ کے ہر تازہ شمارے پر اپنے خیالات کا اظہار کرتیں۔ میری کہانیوں والے شماروں کو خصوصی جگہ رکھتیں اور ہر کسی کو اس کے متعلق بتاتیں۔ اسلامی رسائل میں کبھی کوئی غیر مناسب بات شائع ہوجاتی تو انھیں دیر تک افسوس رہتا تھا اور وہ اس وقت تک مضطرب رہتیں جب تک رسالے کو خط نہ لکھ لیںیا ذمہ داران سے بات نہ کرلیں۔ ہماری دادی محترمہ عظیم النساء سے انھیں خصوصی محبت و عقیدت تھی۔ گیارہویں جماعت میں جب میں نے ’’ہماری دادی‘‘ کے عنوان سے ایک مزاحیہ مضمون لکھا تھا تو آپا مجھ سے بہت ناراض ہوگئی تھیں۔ رسالہ پٹخ کر شدید غصہ کے عالم میں مجھ سے کہا۔ ’’یہ کیا لکھ مارا ہے ہماری اماں کے متعلق‘‘ گو میں نے وہ مضمون اپنی دادی پر نہیں بلکہ ’’عمومی دادیوں‘‘ پر لکھا تھا اور اپنی صفائی میں بھی یہی کہنا چاہ رہی تھی مگر وہ کچھ سننے کے لیے راضی نہ تھیں۔
عیدالفطر پر جب وہ آئیں تو انھوں نے کہا ’’ہم اماں سے ملنا چاہتے ہیں مگر یہ ذرا شوال کے روزے پورے ہوجائیں تو آپ کے گھر آئیں گے۔‘‘ پھر روزے مکمل ہونے کے بعد انھوں نے اپنی والدہ کی وصیت کو پورا کرنے کے لیے اتنی ضعیفی اور سخت جاڑے کے موسم میں ناک چھدوائی تو وہ آنہ سکیں پھر موت نے مہلت نہیں دی۔ ان کی والدہ نے اصلی ہیرے کی لونگ انھیں دے کر وصیت کی تھی ’’بانو! یہ تم پہننا‘‘ ۔ انھیں پہننے اوڑھنے سے کوئی خاص شغف نہیں تھا سالوں وہ لونگ پڑی رہی۔ مرنے سے چار دن قبل انھوں نے وہ لونگ پہنی تھی اور اپنی والدہ کی وصیت کو پورا کیا تھا۔اللہ نے شاید انھیں اسی لیے زندہ بھی رکھا تھا۔ وہ وصیتوں کو ایسے بھی پورا کرواتا ہے۔
مجھے اکثر وہ (شاید حوصلہ افزائی کے لیے) میری معصوم و پیاری ادیبہ، کہتی تھیں اور اس خوبصورت خطاب پر میں گھنٹوں ہواؤں میں اڑی پھرتی۔ میری تحریروں کا تنقیدی مطالعہ کرتیں اور دیر تک تبصرہ فرماتیں۔ انھوں نے سماج میں بکھرے بے شمار موضوعات پر قلم اٹھانے کے لیے مجھے توجہ دلائی۔ تھینکس فار دی انفارمیشن پر تبصرہ کرکے انھوں نے اپنے ایک خط میں کہا تھا اللہ تمہارے قلم کو جہاد بالقلم کے لیے ہی وقف کردے۔ مجھے دئے ایک تحفہ پر انھوں نے دعائیہ لکھا تھا: اس دعا کے ساتھ کہ اللہ جہاد زندگی میں اس کے قلم کو وہ شمشیر بنادے جو یقین محکم عمل پیہم اور محبت فاتح عالم کا حق ادا کردے۔‘‘ (آمین)
ان کی میت میں حلقہ خواتین و GIOکی لڑکیوں کا روتے روتے برا حال تھا۔ اور انہی کا کیا؟ سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں خواتین اور نوعمروں کے گالوں سے آنسو ڈھلکے پڑ رہے تھے۔ اس لیے کہ میرکارواں جس نے سالوں سال کی محنت سے قافلہ کو منظم کیا تھا اپنی آخری منزل کی طرف جانے والا تھا۔ اس آخری منزل کی طرف جہاں سے واپسی نہیں ہوتی۔ اور اب ہم یہ سوچ کر صبر حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں کہ انھوں نے اپنی زندگی کے میسر اوقات کو اللہ کی خوشنودی کے حصول اور اس کے دین کی خدمت میں لگایا اور وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ یہ کائنات کا اصول اور سب سے بڑی حقیقت ہے۔ ہمیں بھی اس حقیقت کا خواہی نہ خواہی مقابلہ کرنا ہی ہے۔ اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم نے اس کے لیے کچھ تیاری کی ہے یا نہیں اگر نہیں تو ہمیں آگاہ ہوجانا چاہیے کہ ’’ہم دیکھیں کہ ہم نے کل کے لیے کیا کچھ تیار کیا ہے؟‘‘