رفاقت

عفت گل اعزاز

’’عبدالقادر! بھئی موتیے کی کیاریوں میں کھدائی ودائی کردو۔ پودوں کو بھی سیدھا کردو۔ کل کی بارش سے سب پودے آڑے ترچھے ہوئے پڑے ہیں!‘‘ مسز فاروقی نے مالی کو ہدایات دیں جو وہیں کیاریوں کے قریب کھرپا لیے بیٹھا تھا۔

’’ٹھیک ہے بیگم صاحب جی، میں ابھی سب ٹھیک کردیتا ہوں!‘‘ عبدالقادر نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ وہ مطمئن ہوکر اندر چلی گئیں۔ گھر میں وہی خاموشی تھی جو صبح کے وقت اس کا حصہ بن چکی تھی۔ چاروں بچے اسکول اور کالج چلے جاتے۔ فاروقی صاحب صبح ساڑھے سات بجے دفتر کے لیے نکلتے اور عموماً پانچ چھے بجے لوٹ کر آتے۔ کبھی کبھار تو رات کے نو دس بھی بج جاتے۔ صبح سویرے ہی جنت بی بی کام کاج کرنے آجاتی، تاہم کھانا پکانا ان کی اپنی ذمہ داری تھی۔ فاروقی صاحب کو ان کے تیار کیے ہوئے کھانوں میں وہ لطف آتا جو بڑے بڑے ہوٹلوں کے مہنگے کھانوں میں کبھی نہ آیا تھا۔ ان کی پیار بھری التجا یہی تھی کہ کھانا نوکروں کے بجائے صرف بیگم صاحبہ تیار کیا کریں۔ سترہ سال سے وہ اس ہدایت پر سختی سے کاربند تھیں۔ ایک وفا شعار بیوی کی طرح وہ اپنے شوہر کی اطاعت گزار تھیں۔ شادی کے دوسرے دن فاروقی صاحب نے ان سے کہا تھا:

’’مہندی کا رنگ یوں تو بعض لوگ بہت پسند کرتے ہیں، مگر عجیب طبیعت ہے میری کہ مجھے زیادہ اچھا نہیں لگتا!‘‘ اس کے بعد مسز فاروقی نے پھر کبھی مہندی نہ لگائی۔ عید بقرعید یا خاندان میں شادیوں کے موقع پر ان سے اصرار کیا جاتا، تو وہ سادگی سے کہہ دیتیں:’’ارے بھئی! ہمارا ہار سنگھار تو فاروقی صاحب کے لیے ہے، اگر انہیں پسند نہیں تو پھر کیا فائدہ؟‘‘ بعد میں لوگوں نے ان سے کہنا بھی چھوڑ دیا۔

یہی کچھ نوکری کا احوال ہوا، ابھی ایم اے کا نتیجہ بھی نہ آیا تھاکہ وہ سمیعہ عابد سے سمیعہ فاروقی بن کر رخصت ہوگئیں۔ شادی سے پہلے بڑے بھاری بھرکم ارادے تھے کہ پی ایچ ڈی کرنے باہر جائیں گی۔مگر وہ سب ایک سنہرا خواب معلوم ہوئے۔ اب ذمے داریاں کچھ اور تقاضا کررہی تھیں۔ ایک بڑا سا گھر ان کی سرپرستی چاہتا تھا۔ پھر ایک ننھا منا بچہ ان کی گود پر قابض ہوگیا۔ وہ ہمیشہ کی طرح بڑے تحمل اور سمجھداری کے ساتھ اپنے فرائض ادا کرتی رہیں۔

’’میرا دل ملازمت کرنے کو چاہتا ہے!‘‘ ایک روز انھوں نے وقار کے گورے چٹے، نرم ونازک جسم پر پاؤڈر چھڑکتے ہوئے فاروقی صاحب سے کہا۔

’’یہ ملازمت کچھ کم ہے! اتنے بڑے گھر کی تمام تر ذمے داری اور ان چھوٹے میاں کی دیکھ بھال!‘‘ فاروقی صاحب مسکرا کر بولے۔

’’ہاں! یہ سب اپنی جگہ ہے، مگر میں کسی اچھے ادارے میں ملازمت کرنا چاہتی ہوں۔ گھر پر اماں بھی ہیں… میرے پیچھے وقار کو سنبھال لیں گی، کسی بھی چیز کا حرج نہ ہوگا!‘‘

’’وقار سوکر اٹھے گا اور آپ کی شکل نہ دیکھ پائے گا تو بہت اداس ہوگا!‘‘ فاروقی صاحب نے ان کی صورت دیکھتے ہوئے کہا۔’’آیا سے اسے تسلی نہ ہوگی۔‘‘

’’بھئی وہ دادی کی محبت بھری آغوش میں ہوگا نا!‘‘ انھوںنے ذرا بلند آواز میں کہا۔ اس بات سے باپ کے دل میں بیٹے کی محبت اور اس کا خیال ان پر واضح ہوچکا تھا۔

’’کس لیے ملازمت کرنا چاہتی ہیں آپ؟ میرے خیال میں تو گھر بذاتِ خود ایک ہمہ وقتی ملازمت ہے!‘‘

’’بھئی وقت ضائع ہونے کا احساس ہے ہمیں… اور کیا ہے؟ … کام کاج ملازمہ کردیتی ہے، وقار کو دادی اماں سنبھال لیتی ہیں۔ روٹی سالن پکانے کا تو ایک کام رہ گیا ہے۔ اس میں کتنی دیر لگتی ہے؟ میں تو ملازمت کرنا چاہتی تھی،فعال رہنا چاہتی تھی، گھر نے تومجھے قید کردیا ہے… میں نے یہ سوچا بھی نہ تھا کہ شادی مجھے اس درجہ بے مصرف بنادے گی… کس قدر یکسانیت کا شکار زندگی ہے! مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے میں وقت ضائع کررہی ہوں۔‘‘ انھوں نے پژمردگی سے کہا۔

فاروقی صاحب بڑے سکون سے ان کے چہرے کے اتار چڑھاؤ دیکھتے رہے۔

’’اگر واقعی آپ اس قدر بور ہورہی ہیں، تو شوق سے ملازمت کیجیے۔ ہم دفتر سے تھکے ہارے آئیں گے، تو آپ ہوں گی نہ کوئی کھانا نکال کر دینے والا، ٹھیک ہے گزارہ کرلیں گے۔‘‘

’’میں آپ سے پہلے گھر آجایا کروں گی، وعدہ کرتی ہوں کہ آپ کے معمولات میں خلل نہ پڑنے دوں گی، سب کچھ آپ کی مرضی کے مطابق ہوگا۔ سالن صبح ہی کو تیار کردیا کروں گی اور روٹیاں آکر پکاؤں گی۔‘‘

’’بہت تھک جایا کریں گی آپ!‘‘

’’اُف! تھکن کو تو میں ترستی ہوں، کرنے کا کوئی کام ہی نہیں!‘‘ سمیعہ نے کہا۔ اب وہ مسکرا بھی رہی تھی، کیونکہ ان کی ایک خواہش پوری ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے تھے۔

جلد ہی انہیں ایک اسکول میں ملازمت مل گئی، یہ ملازمت ان کے معیار کے مطابق نہ تھی، مگر اتنا ضرور تھاکہ وقت کا کچھ حصہ بہتر انداز میں کٹنے لگا تھا۔

فاروقی صاحب کے ذاتی کام جن میں کپڑوں پر استری اور جوتوں پر پالش وغیرہ شامل تھے، وہ نہایت اہتمام سے کرتی رہیں۔ جب اسکول سے آتیں تو ننھا وقار لپک کر ان کے پاس آتا اور ان کی گود سے اترنے کا نام نہ لیتا۔ وہ بھی جی بھر کے اسے پیار کرتیں اور یوں چند گھنٹوں کی غیر حاضری کا بڑی حد تک مداوا ہوجاتا۔

وقارکے پیٹ میں کچھ خرابی تھی، دانت نکلنے والے تھے، رات ہی سے اسے بخار بھی تھا۔ صبح اس کا ماتھا بہت گرم تھا۔ بچے کو یوں چھوڑ کر جانے کو سمیعہ کا جی نہ چاہا، لیکن اسکول میں کام زیادہ تھا، امتحانات ہورہے تھے، نگرانی بھی کرنی تھی اور ہیڈ مسٹریس شادی شدہ اسٹاف ممبروں سے خاص طور پر بہت نالاں تھیں کہ وہ شوہر اور بچوں کی بیماریوں کا بہانہ کرکے بہت چھٹیاں کرتی ہیں۔ یہ نصیحت بھی کرتی تھیں کہ بچوں کی تیمار داری کے لیے میاں کو چھٹی کرکے گھر بیٹھنا چاہیے۔ بیگم فاروقی کو ان کی بعض باتیں ناگوار اور بے جا معلوم ہوتیں۔ وہ ملازمت چونکہ اپنے شوق سے کررہی تھیں اس لیے کسی کو بھی شکایت کا موقع نہیں دینا چاہتی تھیں! تاہم اس قسم کے جملے ان کے اعصاب میں تناؤ پیدا کردیتے تھے۔ وہ سوچنے لگتیں کہ ازدواجی تعلقات کی نزاکت سے وہ عمر رسیدہ کنواری ہیڈ مسٹریس کیونکر واقف ہوسکتی ہے، جس نے عمر بھر سوائے پڑھانے کے اور کوئی کام نہ کیا ہو۔

وقار کی ناسازیٔ طبع کی وجہ سے آج انھوں نے اسکول سے چھٹی کرلینی چاہی، لیکن ہیڈ مسٹریس مسز نیاز کی سخت طبیعت کی وجہ سے وہ پریشان ہوگئیں اور آپاکو اچھی طرح سمجھا کر بادلِ ناخواستہ اسکول کے لیے نکل کھڑی ہوئیں۔ ساڑھے دس گیارہ بجے ان کی طبیعت بہت پریشان ہوئی تو وہ مجبوراً مس نیاز کے پاس گئیں اور آدھی چھٹی کی درخواست دی۔ خدا جانے اوپر کے افسروں نے کچھ دیر پہلے ان سے باز پرس کی تھی یا کوئی اور مصیبت ان پر آن پڑی تھی کہ وہ ایک دم برافروختہ ہوگئیں:

’’دیکھئے مسز فاروقی! بچوں کا کیا ہے؟ وہ تو بیمار ہوتے ہی رہتے ہیں۔ ان کی خاطر آپ یہاں کام ادھورا چھوڑ جائیں، تو میں اس کی بالکل اجازت نہیں دوں گی۔ کس حکیم نے آپ لوگوں کو مشورہ دیا ہے ملازمت کرنے کا؟ آخر آپ کسی کے پاس تو بچہ چھوڑ کر آئی ہوں گی!‘‘

’’جی ہاں… آیا ہے، اس کی دادی بھی ہیں!‘‘ وہ آہستہ سے بولیں۔

’’تو پھر کیا فکر ہے؟ آپ چھٹیاں کرکے بیٹھ جائیں، تو کام کون کرے گا؟ میں دفتر میں بیٹھوں یا کلاسیں لیتی پھروں؟ جائیں آپ کلاس میں جائیں، بچہ مر نہیں جائے گا۔‘‘

مسز فاروقی نے اسٹاف روم میں آکر اپنااستعفیٰ لکھا اور اسے لے جاکر مسز نیاز کے سامنے آہستہ سے رکھ دیا۔ ان کے خاموش چہرے پر کسی قدر سختی کے آثار دیکھ کر مسز نیاز نے کاغذ پڑھنا شروع کیا: ’’میرا مطلب یہ تو نہ تھا!‘‘ انھوں نے ایک جبری مسکراہٹ ہونٹوں پر لاتے ہوئے کہا۔

’’آپ نے اپنی کوکھ سے کسی بچے کو جنم دیا ہوتا، تو شاید ممتا کی لذت سے آشنا ہوتیں۔‘‘ انھوں نے بڑے وقار سے کہا اور خدا حافظ کہے بغیر اپنے قدم باہر کی طرف اٹھالیے۔

’’سنیے تو سہی!‘‘ مسز نیاز نے کھڑے ہوکر انہیں روکنا چاہا، مگر وہ سیدھی باہر نکل آئیں اور گھر آکر وقار کو پیار کرنے لگیں: ’’میری جان! یہ نوکری تو کچھ بھی نہیں تیرے سامنے!‘‘ وقار بالکل گم صم تھا۔ اسے تیز بخار تھا۔ وہ پوری تندہی سے اس کی تیمار داری میں مصروف ہوگئیں۔ دوسرے دن اس کی طبیعت سنبھلی، تو سمیعہ کی جان میں جان آئی۔

کتنا اچھا ہوا کہ میں نے ملازمت کا بوجھ اتار پھینکا۔ اس نے وقار کے ماتھے کا بوسہ لیتے ہوئے سوچا۔ فاروقی صاحب نے بھی اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا۔

پندرہ سولہ برس میں ان کے آنگن میں چار پھول مہکنے لگے۔وقار سے چھوٹی صائمہ، اس کے بعد احتشام اور سائرہ۔ ہر ماں کی طرح وہ اپنے بچوں سے بے حد پیار کرتیں۔ فاروقی صاحب اچھے عہدے پر فائز تھے۔ اپنے دفتر میں دیانت اور محنت کی نہایت اچھی مثال سمجھے جاتے تھے۔ گھر پر اپنے بال بچوں کے محبوب بھی تھے۔ بچوں کو ہر معاملے میں ماں باپ کی رہنمائی اور بھر پور توجہ حاصل تھی۔ بیٹے فرماں بردار تھے اور بیٹیاں اطاعت شعار! گھر اور بچوں کی بے پناہ مصروفیات کے باوجود مسز فاروقی کا دل اب بھی کبھی کبھی ملازمت کے لیے تڑپتا تھا۔

کام کاج سے فارغ ہوکر انھوں نے مطالعہ شروع کردیا تھا۔ کچھ سماجی مصروفیات نکال لی تھیں اور ایک سماجی انجمن کے لیے کئی سال تک رکن کی حیثیت سے کام کیا اور اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوا لیا تھا۔ ان تمام سرگرمیوں کے باوجود کبھی کبھی خیال آتا کہ اگر شادی کا بندھن نہ ہوتا تو شاید وہ پی ایچ ڈی کرچکی ہوتیں اور ساری دنیا نہ سہی، دوچار ملک دیکھ چکی ہوتیں، مگر وہ زندگی تو ادھوری ہوتی، ان کی ذات نامکمل رہ جاتی۔ جو کچھ ہوا بہت اچھا ہوا… ایک ملازمت انھوں نے بچے کی خاطر چھوڑ دی تھی اور اس پر کبھی پچھتائی نہ تھیں… اب جب بچے سمجھدار ہورہے ہیں،تو شاید دبا ہوا شوق پورا کرنے کا موقع مل جائے۔

سمیعہ نے قریبی میزپر سے اخبار اٹھایا اور اس پر سرسری نظر ڈالنی شروع کی۔ ایک دفتر میں کچھ اسامیاں نکلی تھیں۔ اشتہار اخبار کے آدھے صفحے پر پھیلا ہوا تھا۔ انھوں نے مختلف عہدوں کی نوعیت، تعلیمی لیاقت اور دیگر شرائط غور سے پڑھیں۔

’’ہوں، بات بن تو سکتی ہے!‘‘ اچانک شوق انگڑائیاں لے کر بیدار ہوگیا تھا۔ وہ تعلیمی استعداد کے لحاظ سے اس معیار پر پوری اترتی تھیں اور اب ملازمت کرنے سے گھر کے نظام میں کوئی فرق بھی نہ پڑنا تھا۔ وقار سیکنڈ ائیر کا طالب علم تھا۔ صائمہ فرسٹ ائر میں آگئی تھی، احتشام آٹھویں اور سائرہ پانچویں جماعت میں تھی۔ وہ صبح کے وقت بالکل فارغ رہتیں۔ دوپہر کے وقت بچے پڑھ کر واپس آنا شروع ہوتے، اماں جان کو وہ کبھی اخبار پڑھ کر سناتیں یا ان سے ادھر ادھر کی باتیں کرتی رہتیں۔ پھر بچوں کے ساتھ کھانا کھایا جاتا اور اس کے بعد آرام۔شام کے وقت کبھی کبھار وہ باہر نکل جاتیں، اب اگر وہ صبح سے شام تک گھر سے باہر رہیں، تو بھی گھر ٹھیک ٹھاک چل سکتا ہے۔ ملازمہ سے البتہ کچھ مدد لینی پڑے گی۔ بچے چونکہ خود اسکولوں اور کالجوں میں دوپہر تک رہتے ہیں، اس لیے انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ ماں گھر پر ہے یا نہیں۔ یہ سوچ کر وہ مطمئن ہوگئیں۔

’’بھئی ہم سروس کرلیں؟ اجازت ہے آپ لوگوں کی؟‘‘ انھوں نے رات کے کھانے پر سب بچوں سے پوچھا۔

فاروقی صاحب مسکرائے۔ وقار اور احتشام حیران ہوئے۔ صائمہ سر اٹھا کر انہیں دیکھنے لگی اور سائرہ نے خوش ہوکر پوچھا: ’’کیا آپ بھی دفتر جائیں گی امی جان؟‘‘

’’ہاں بیٹے! گھر میں بیکار ہی تو رہتی ہوں۔‘‘

’’اچھی بات ہے مگر سروس کہاں کریں گی آپ؟‘‘ وقار نے پوچھا۔

’’ارے چھوڑیے امی! آپ تھک جایا کریں گی۔‘‘ احتشام نے کہا۔

’’اس کی آخرضرورت کیا ہے؟‘‘ صائمہ نے زبان کھولی۔ ’’آپ تو ہمیں یہی سمجھاتی رہتی ہیں کہ عورت کا اصل مقام گھر ہے۔ اسے بنانا سنوارنا اور سجانا ہی عورت کا فرضِ اولین ہے۔ پھر آپ کیوں سروس کرنا چاہتی ہیں؟ پیسہ کمانا اور افرادِ خانہ کو ضروریاتِ زندگی فراہم کرنا مرد کی ذمے داری ہے۔‘‘

’’بھئی دیکھو! ایک وجہ تو یہ ہے کہ میری اعلیٰ تعلیم کا کچھ مصرف ہونا چاہیے۔ دوسری یہ کہ ملازمت سے کچھ پیسہ ہاتھ آئے گا، جسے پس انداز کرکے ہم بہت بڑے بڑے کام کرسکتے ہیں۔ جیسے مکان، تم لوگوں کی شادیاں…‘‘

’’خیر دل چاہتا ہے، تو کرلیں!‘‘ وقار نے رضامندی ظاہری کردی۔

’’امی جان کو ملازمت ضرور کرنی چاہیے!‘‘ سائرہ جوش سے بولی۔

فاروقی صاحب چپ چاپ کھانا کھاتے رہے۔ ان کے چہرے پر ناگواری کے آثار نہ تھے۔

’’کچھ آپ بھی فرمائیں۔‘‘ انھوں نے صائمہ کی طرف دیکھا۔

’’ملازمت نہ کریں، امی جان! میں اس کے حق میں نہیں ہوں!‘‘ صائمہ نے صاف انکار کردیا۔

’’کوئی وجہ تو ہوگی؟‘‘

’’اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ صائمہ بہت سنجیدہ تھی۔

’’امی جان! کیا آپ نے فیصلہ کرلیا ہے کہ سروس ضرور کریں گی؟‘‘ صائمہ اپنے کورس کی کتاب ہاتھ میں سنبھالے وہیں ان کے کمرے میں چلی آئی۔

’’بیٹی! آخرتم اتنی فکر مند کیو ںہو؟‘‘ انھوں نے محبت سے پوچھا۔

’’امی جان! ملازمت کے لیے جو مائیں دن بھر گھروں سے غائب رہتی ہیں، ان کے بچے عموماً بھٹک جایا کرتے ہیں۔ کوئی ان پر نظر رکھنے والا نہیں ہوتا۔‘‘ صائمہ بولی۔

مسز فاروقی چونک اٹھیں، انہیں صائمہ سے اتنی گہری بات کی توقع نہ تھی۔ وہ اسے غور سے دیکھنے لگیں۔

’’بھلا تمہیں اس کا کیا اندازہ؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔

’’آپ نے میری سہیلیاں تو دیکھی ہیں نا؟ وہی ریشماں، صولت، نورافشاں… کبھی کبھی میرے ہاں آجایا کرتی تھیں۔ اب ان کے اطوار اور مشاغل بدل گئے ہیں۔ میں نے ان سے ملنا جلنا بند کردیا ہے۔‘‘

’’کیوں، ان میں کوئی برائی پیدا ہوگئی ہے؟‘‘

’’برے لڑکوں سے ان کی دوستی ہے، وہ ہوٹلوں میں ان کے ساتھ جاتی اور انگریزی فلمیں دیکھتی ہیں۔ کالج کے پیریڈز اٹینڈ کرنے کے بجائے ان کے ساتھ سیرو تفریح کے لیے نکل جاتی ہیں، پھر اس دن کالج میں ان کی واپسی نہیں ہوتی۔ ہمارا معاشرہ اور ہماری تہذیب ان کے نزدیک دورِ جہالت کے بوسیدہ نمونے ہیں۔‘‘ صائمہ نے بتایا۔

’’کیا تمہیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ وہ …‘‘ مسز فاروقی کہتے کہتے رک گئیں۔

’’امی جان! صرف مجھے ہی نہیں، کالج کے تمام لوگ ان کی حرکات سے واقف ہیں۔‘‘

’’کیا ان کے ماں باپ نہیں جانتے؟‘‘

’’نہیں، یہی توالمیہ ہے۔ نور افشاں اور صولت بہت امیر گھرانوں کی لڑکیاں ہیں… ان کے ڈیڈی بڑے عہدوں پر فائز ہیں، اکثر ملک سے باہر ہی رہتے ہیں۔ دونوں کی مائیں دفتروں میں ملازمت کرتی ہیں۔ گھر پر نوکروں کا راج ہوتا ہے۔ ماں کو خبر نہیں ہوتی کہ بیٹی اس وقت کالج میں ہے یا سنیما ہاؤس میں۔ نوکر اگر جان بھی لیں، تو صولت اور نور افشاں بھاری ٹپ دے کر ان کا منہ بند کردیتی ہیں۔ ریشماں کے والد ایک معروف تاجر ہیں اور اس کی امی بھی ریڈیو اور ٹی وی پر فن کی خدمت کرتی رہتی ہیں، گھر کے حالات سے باخبر رہنے کا انھیں موقع ہی نہیں ملتا۔‘‘

’’امی! پلیز آپ ملازمت نہ کریں۔ یہ آپ کو اپنے بچوں سے دور کردے گی۔ ہم زندگی کے عملی میدان میں بالکل تنہا رہ جائیں گے۔ ہمیں اچھائی اور برائی کے مابین فرق بتانے والا کوئی نہ ہوگا۔‘‘

’’امی جان! بتائیے… آپ ملازمت کریں گی؟‘‘ صائمہ کی التجا بھری آواز ان کی سماعت سے ٹکرائی۔

مسز فاروقی نے کوئی جواب نہ دیا۔ چند لمحے میز پر رکھے ہوئے درخواست کے پرچے پر نگاہیں جمائے رہیں جو انھوں نے لکھا تھا اور پھر اس کے کئی ٹکڑے کردیے۔ ان کے چہرے پر ایک آسودہ مسکراہٹ ابھرنے لگی تھی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146