رمضان کا مبارک و مقدس مہینہ اپنے ساتھ بے شمار رحمتیں، مسرتیں اور انعامات لے کرہر سال آتا ہے، قرآن و حدیث میں اس کی بے شمار عظمتیں و فضیلتیں ملتی ہیں۔ یہ بابرکت مہینہ تمام مہینوں سے افضل ہے، اس کی فضیلت کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اسی مقدس مہینے میں اللہ عزوجل نے آسمانی کتاب قرآن مجید ہمارے نبی محمد ﷺ پر نازل فرمائی، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس فضیلت کے سبب اس ماہ کو بے شمار رحمتوں اور نیکیوں کے لیے خاص کرکے اس ماہ کے روزے اہلِ ایمان پر لازم کردیے۔
اس مہینے میں عبادت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اسی لیے مسلمان اس مہینے میں زیادہ سے زیادہ عبادت و ریاضت اور تلاوت قرآن میں مشغول ہوتے ہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی اور بے شعوری ہے کہ آج ہماری عبادت بھی محض رسم اور فارمالٹی بنتی جارہی ہیں۔ ان عبادات کی روح سے ہمارا مسلم معاشرہ دور ہوتا جارہا ہے۔ اس کی مثال میں ہم رمضان کی اہم ترین عبادت تراویح کو لے سکتے ہیں۔ تراویح کی نماز کے سلسلے میں ایک ہوڑ ہوتی ہے کہ تین دن میں قرآن ختم، ایک ہفتہ میں قرآن ختم یا دس دن میں قرآن ختم۔ اس کے بعد ظاہر ہے تراویح بھی ختم… تراویح کا مقصد اللہ کے کلام کو بغور سننا ہے مگر ہم کلام اللہ کو اتنی بے توجہی اور بے پروائی سے سنتے ہیں کہ حد نہیں۔ کچھ تو جمائیاں لیتے ہوئے حالتِ نیند میں ہی تراویح کے رکوع و سجود ٹھونک دیتے ہیں۔
ہم زبان سے قرآن کو مشعلِ ہدایت کہتے ہیں لیکن اسے گھروں میں ہم نے موٹے موٹے غلاف پہنا کر بڑے احترام کے ساتھ اٹھا کر طاقوںمیں سجادیا ہے، روشنی ملے بھی تو کیسے؟ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم سائنس، ریاضی، انگلش، فزکس، کیمسٹری وغیرہ موضوعات کو بڑی توجہ اور انہماک سے پڑھتے ہیں لیکن قرآن کریم کو صحیح مخارج اور تجوید سے پڑھنے اس کے معنی و مطلب کو سمجھنے اور اس کے احکام وتعلیمات کو جاننے کی کوشش کرنے میں عار سمجھتے ہیں اور یہ رونا بھی روتے ہیں کہ زندگیوں میںاطمینان نہیں۔ اطمینان حاصل ہو بھی تو کیسے ہم نے اپنے دستور العمل ہی کو نظر انداز کردیا ہے۔ اس کے احکام و تعلیمات سے ہماری غفلت کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اغیار ہماری زبوں حالی پر خوش ہیں اور ہم انہیں خوش ہونے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔
رمضان المبارک صبر و تقویٰ کا مہینہ ہے، روزے سے انسان کے اندر صبر و تقویٰ کا مادہ پیدا ہوتا ہے، کیونکہ انسان وقت پر بھوک و پیاس کی تکلیف کو برداشت کرتا ہے۔ لیکن آج کل مسلمانوں کی حالت تو یہ ہے کہ بہت سے ہٹے کٹے مسلمان روزے نہیں رکھتے۔ پوچھو تو کہہ دیا جاتا ہے’’ صحت خراب ہے، ڈاکٹر نے منع کیا ہے۔‘‘کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو روزہ رکھتے تو ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ اللہ پر احسان کررہے ہوں۔ دن بھر روزہ رکھ کر ہائے واویلا کرتے رہتے ہیں اور کچھ تو روزہ ایسا رکھتے ہیں کہ وہ روزہ، روزہ ہی نہیں محسوس ہوتا۔ سحری میں اتنا زیادہ ٹھونس لیتے ہیں کہ دن بھرکھٹی ڈکاریں آتی رہتی ہیں اور افطار میں کھانوں پر اور دوسری اشیاء پر اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں کہ اس چکر میں مغرب کی نماز ہی بھول جاتے ہیں۔ ظاہر ہے جب اتنا کھاچکے ہوتے ہیں تو عشاء اور تراویح کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ماہِ رمضان اور انفاق فی سبیل اللہ کو باہم خاص مناسبت ہے۔ اس مہینہ میں ہر عمل کا بدلہ ستر گنا ملتا ہے، چنانچہ اگر اس میں انفاق کیا جائے تو اللہ اس کا بدلہ کئی گنا دیتا ہے اور اس سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ غریب طبقہ بھی بہتر انداز سے رمضان گزارسکتا ہے۔ لیکن ہم مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ زکوٰۃ کی ادائیگی تو درکنار صدقۂ فطر ادا کرنا بھی مشکل ہے۔ بہت سے لوگ انفاق کرتے بھی ہیں تو محض ریاکاری اور نمود و نمائش کی خاطر۔ امیر لوگ افطار پارٹیوں اور عید ملن پارٹیوں میں اتنا زیادہ خرچ کرتے ہیں کہ اس سے کئی غریب گھرانوں کا کنبہ بآسانی چل سکتا ہے۔ لیکن مسلمان یہ نہیں سوچتے کہ اسلام وہ مذہب ہے جو فرد کی ویلفیر سے زیادہ معاشرے کی بہتری کے بارے میں سوچتا ہے۔
بہت سے روزے دار ایسے ہوتے ہیں جو حالت صوم میں بھی گناہوں سے اجتناب نہیں کرتے اور دھڑلے سے جھوٹ، غیبت، چغل خوری، گالی گلوج وغیرہ میں مشغول ہوتے ہیں۔ یہ تمام گناہ جب عام حالت میں ان سے حرام ہیں تو روزہ کی حالت میں اور بھی زیادہ بچنا چاہیے لیکن ان باتوں کا دھیان بہت کم ہی لوگ رکھتے ہیں۔
آج کے بگڑے ہوئے حالات میں مسلمانوں پر لازم ہے کہ اللہ اور رسول کریم ﷺ کے ارشادات کی روشنی میں رمضان المبارک کو اس کی روح کے مطابق گزاریں۔
ہرسال رمضان کا مبارک مہینہ مسلمانوں کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اس سال کی قدر کرو اور پچھلے سال جو غفلت ہوئی ہے اس کی تلافی کرو۔ ورنہ
’’اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزرگئے‘‘
کے مصداق ہوگا۔
——