رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لئے سراسرہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے ،لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو کوئی مریض ہویا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کر لے ۔اللہ اپنے بندوں پر نرمی کرنا چاہتا ہے سختی کرنا نہیں چاہتا اس لئے یہ طریقہ تمہیں بتایا جا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کر سکواور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز کیا ہے اس پر اللہ کی کبریائی کا اظہا ر و اعتراف کرو اور شکر گزار بنو۔ (مفہوم البقرہ)
رمضان المبارک کی برکت و فضیلت کو قرآن پاک واحا دیث شریف میں کھول کھول کر بیان کر دیا گیا ہے وہیں اس عظیم و بابرکت ماہ میں رونما ہونے والے تین بڑے واقعات سے بھی مسلمانوں کو متعارف کرایا گیا ہے:
پہلا بڑا واقعہ
رمضان المبارک کا سب سے پہلا اور بڑا واقعہ نزولِ قرآن ہے جو ساری دنیا کے انسانوں کو زندگی گزارنے کا بہترین راستہ بتاتی ہے۔جس کی پیروی دین و دنیا میں کا میابی و کامرانی کی ضمانت ہے۔جو بڑی خیر و برکت والی ہے ۔انسانوں کے فلاح و بہبودی کے لئے بہترین اصولوں سے مزین ہے ۔عقائد صحیحہ کی تعلیم سے لبریز ہے ۔بھلائیوں کی ترغیب دیتی ہے ۔اخلاق فاضلہ کی تلقین کرتی ہے ۔پاکیزہ زندگی بسر کرنے کا طریقہ فراہم کرتی ہے ۔جہالت،خود غرضی ،تنگ نظری،فحاشی،بے حیائی، کینہ ،بغض،کج روی اور دوسرے تمام برے کاموں سے خبردار کرتی ہے ۔ جسے اللہ پاک نے مختلف اوقات کی مناسبت سے اپنے آخری کلام کو خاتم النبین ﷺ پر نازل کیا اور خود ا س مقدس کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری لی ہے۔ جس کی پہلی آیت ـ’’اقرا بسم ربک الزی‘‘(پڑھ اپنے رب کے نام سے ) غارِ حرا میں نازل ہوئی اور آخری آیت ـ’’اَلیوم اکملت لکوم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا‘‘(آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمتیں پوری کر دی اور اس بات کو پسند کر لیا کہ تمہارا دین اسلام ہو ) ۔
دوسرا اہم واقعہ
دوسرا بڑا واقعہ جو ماہ رمضان میں رونما ہوا، بدر کی لڑائی ہے۔ ۱۷ ؍رمضان المبارک کی تاریخ کو قرآن اور اسلامی تاریخ میں یوم الفر قان کہا گیا ہے ۔ جو کفر و اسلام کے فرق کو بتانے والی ایک کسوٹی ہے۔غزوہ بدر حق و باطل کی جنگ تھی ۔بدر کے مقام پر مکہ اور مدینہ دونوں فوجوںکی مڈبھیڑ ہوئی،اس معرکہ میں کوئی کسی کا باپ تھا تو کوئی کسی کا بیٹا اور بھائی۔ اس جنگ میں مسلمانوں کی کل تعداد ۳۱۳ تھی اور دشمنانِ اسلام کی تعداد ۱۰۰۰ سے زائد۔ مسلمانوں کی فوج میں ۳گھوڑے ۷۰ اونٹ اور آٹھ تلواریں تھیں ، ان کے مقابلے میں کفار ہتھیاروں سے لیس تھے۔
حق و باطل کے درمیان گھماسان جنگ ہوئی ۔اس جنگ میں اللہ نے اپنے مجاہدین بندوں کی مدد کے لئے آسمان سے فرشتے بھیجے ۔اس میں باطل کو شکست ہوئی کفار کے ۷۰ آدمی مارے گئے اور ۷۰ قید کر لیے گئے ۔ حق و باطل کے اس معرکے میں جو ایمان لے آئے وہ محمد ﷺکے ساتھ ہو گئے۔ جنگ میں جنہوں نے فدیہ دیا انہیں رہا کر دیا گیا اور جو نہیں دے سکے انھیں محمد ﷺ نے مسلمانوں کو تعلیم دینے کے بدلے رہا کردیے جانے کا فیصلہ کیا ۔
تیسرا اہم واقعہ
تیسرا اہم واقعہ فتح مکہ ہے جو ۱۷؍رمضان المبارک یعنی یومِ الفرقان کے دن مسلمانوں کو حاصل ہوئی ۔مکہ کے لوگ برابر مسلمانوں پر حملہ آور تھے انہوں نے صلح حدیبیہ کو بھی توڑ دیا تھا اسی درمیا ن کفارکا سب سے حاسد ،شاطر اور مکار افسر ابوسفیان ٹوہ لینے کی غرض سے مسلمانوں کی طرف نکلا مگر پکڑا گیا اور پھر ایمان لے آیا اللہ نے اسے ہدایت سے سرفراز کیا ۔ابوسفیانؓ کے اسلام قبول کرنے سے اسلام کو بڑی تقویت ملی ۔اس جنگ کی قیادت خود محمد ﷺکر رہے تھے جب آپ ﷺ مکہ میں داخل ہوئے تو فوراً یہ اعلان کر دیا کہ:۔
٭ جو گھر بند کر لے اسے امان ہے ۔
٭ جو ابو سفیان ؓکے گھر آجائے اسے امان ہے۔
٭ جو خانہ کعبہ میں آجائے اسے امان ہے ۔
صرف ۱۶؍ افراد کو چھوڑ کر سبھی کو عام معافی دی گئی۔ ان لوگوں سے محمدؐ نے پوچھا تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ سب نے کہا آپ ؐ ہمارے بھائی ہیں اور آپؐ سے اچھی امید کرتے ہیں ۔محمد ؐ نے فرمایا جائو آج تم سب آزاد ہو تم پر کوئی قید نہیں ۔غور کرنے کا مقام ہے محمد ؐ کے ساتھ، ان کے صحابہ ؓکے ساتھ، مجاہدین کے ساتھ مظالم کی انتہا اور آپؐ انہیں معاف فرما دیتے ہیں ۔
پڑھئے گا درود اس پر دشمن کو بھی جس نے
خنجر سے نہیں مارا اخلاق سے مارا ہے
جس طرح سے اللہ رب العزت نے رمضان میں ان بڑے واقعات کے ذریعے اپنی حاکمیت، فیاضی،رحمدلی اور جلال کامظاہرہ کیا ہے اسی طرح روزے کو تین مختلف عشروں میں بانٹ کر انسانوں کو کامیابی حاصل کرنے کے تین مواقعے بھی دئیے ہیں۔ اس ماہ میں تمام مسلمان مل کر روزہ رکھتے ہیں۔ اس طرح انفرادی عبادت ایک اجتماعی عبادت بن جاتی ہے ۔ لوگوں کے فرداًفرداً روزہ رکھنے سے جو فائدہ ہوتا ہے اس کے بالمقابل اجتماعیت سے بے حد و حساب فائدہ معاشرے کو ہوتا ہے ۔ایک روحانی فضا قائم ہوتی ہے جو سارے ماحول میں نیکی اور پرہیز گاری کو فروغ دیتی ہے ۔ انسان کو روزہ رکھ کر گناہ کرنے میں شرم آتی ہے ۔لوگوں کے دلوں میں نیکی کی رغبت بڑھ جاتی ہے جو ان میں غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرنے کے جذبے کو مزید ابھارتی ہے ۔بھوک اور پیاس میں مبتلا ہو کر انسان اس بات کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ مفلسی اور تنگدستی میں کیا گزرتی ہے ۔تب وہ اپنے مسلمان بھائیوں کا حق بخوشی ادا کرتا ہے ۔خود نبی اکرم ﷺ اس ماہ میں حد درجہ رحیم اور شفیق ہو جایا کرتے تھے ۔کوئی سائل دروازہ سے خالی نہیں جاتا تھا اور نہ کوئی قیدی قید میں رہتا تھا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ محمد ﷺ نے فرمایا : ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے ۔ (ابن ماجہ )
روزہ اللہ رب العزت کی طرف سے Personality Development کا ایک مکمل کورس ہے جو 720 گھنٹے کی عبادت پر مشتمل ہے ۔ جس طرح دنیاوی زندگی میں لوگ آگے بڑھنے اور خود کو Boldبنانے کی غرض سے اس کورس کو مکمل کرنا ضروری سمجھتے ہیں ٹھیک اسی طرح روزہ بھی یہی کام انجام دیتا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ دنیاوی کورس کا اثر دنیا تک ہی محدود رہتا ہے مگر روزے کا ظاہر و باطن کی اصلاح کے ساتھ ساتھ دنیاوی و اخروی فائدہ ہوتا ہے اور امید کی جاتی ہے کہ بندے تقویٰ کی صفت اختیار کر لیںیہ عبادت ہزار مہینوں کی عبادت سے بہتر ہے جو انسانوں کو فرش سے عرش تک پہنچا دیتی ہے ۔ جو سارے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے ۔
ایک نظرروزہ کے متعلق جدید سائنسی تحقیقات پر ڈالیں ۔ جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق روزہ دل کی بیماری پیدا کرنے والے Cholesterol کوختم کرتا ہے ۔ حیدر آباد کے مشہور و معروف سائنٹسٹ محمد عارف الدین صاحب اور دوسرے ماہرین کے مطابق روزہ زیابطیس ،امراض قلب اور موٹاپے کے مرض کے لئے نہایت مفید ہے ۔روزہ محض فاقہ نہیں اس سے جسم کی زائد چربی ختم ہوتی ہے ۔گردے کی پریشانی میں آرام ملتا ہے ۔پیٹ کو راحت محسوس ہوتی ہے اور Hydrocholoric Acid کااخراج بند ہو جاتا ہے ۔ روزہ رکھنے کے درمیان انسان کے جسم میں 160 gm گلوکوز تیار ہوتا ہے جو دماغ کے لئے مفید ثابت ہوتا ہے ۔روزے کی حالت میں وہ تمام ہارمونس کافی بڑھ جاتے ہیں جو انسانی اعضاء کے لئے ضروری ہوتے ہیں ۔یہ بات بڑے اعتماد اور بلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ رمضان کے افادیت پر جو تحقیقات و معلومات حاصل ہو رہی ہیں اللہ پاک نے اپنے انبیاء کے ذریعہ اسے صدیوں پہلے بتلا دیا ہے۔ اسی لئے اسلام میں روزے کو جسم و روح دونوں کے لئے باعث خیر و برکت قرار دیا گیا ہے۔
اور جب بندے اپنے اللہ کو راضی کر لیتے ہیں تو اللہ ان کو 720 گھنٹے جو انھوں نے عبادت میں گزار ے ہیں اس کاتحفہ عید کی شکل میں دیتا ہے ۔ کسی قوم کی خوشی اور مسرت کے دن کا ذکر اللہ نے قرآن میں عید کے نام سے نہیں کیا ہے سوائے مسلمانوں کے ، آج پوری دنیا میں مسلمان بڑی دھوم دھام سے عید الفطر کا تہوار مناتے ہیں جہاں خوشی منانے کے ساتھ ساتھ اسلامی و اخلاقی اقدار کی پاسداری بھی کی جاتی ہے۔ ۔۔۔