رمضان المبارک میں معمولات نبوی

ماجد یزدانی

حضور ﷺ کا معمول تھا کہ جب رمضان کا مہینہ قریب آجاتا، تو کمر ہمت کس لیتے اور اہلِ ایمان کو بھی اس کا شایانِ شان خیر مقدم کرنے کو کہتے۔ایک بار شعبان کی آخری تاریخ کو حضورؐ نے خطبہ دیا اور فرمایا: ’’اے لوگو! ایک عظیم اوربابرکت مہینہ تم پر سایہ فگن ہونے کو ہے۔ وہ مہینہ جس کی ایک رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے، جس میں روزہ رکھنا فرض ہے اور جس کی راتوں میں تراویح پڑھنا افضل ہے۔ جو شخص اس مہینے میں برضا و رغبت نیکی کا کوئی کام کرے گا، اس کا ثواب عام مہینوں میں فرض کی ادائیگی کے برابر ملے گا اور جو اس ماہ مقدس میں فرض ادا کرے گا، اسے ستر فرضوں کے برابر ثواب ملے گا۔ رمضان کا مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کابدلہ جنت ہے اور یہ مہینہ معاشرے کے غریب اور حاجتمندوں کے ساتھ مالی ہمدردی کا مہینہ ہے۔‘‘

آنحضورﷺ کی سنت یہ تھی کہ جب تک رویت ہلال کی تحقیق نہ ہوجاتی یا کوئی عینی گواہ نہ مل جاتا، روزے شروع نہ کرتے۔ اگر ابر وغیرہ حائل ہونے کی وجہ سے چاند دکھائی نہ دیتا اور نہ کہیں سے کوئی شہادت ملتی، تو شعبان کے تیس دن پورے کرتے۔ یہی صورت رمضان کے آخری افطار کی تھی۔ صحیح بخاری کی روایت ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا: ’’جب تک چاند دیکھ نہ لو، روزہ نہ رکھو، (اسی طرح) جب تک چاند نظر نہ آجائے افطار نہ کرو (یعنی ماہ رمضان کو ختم نہ سمجھو) اور اگر بادل چھا جائیں، تو مہینے کی مدت پوری کرو۔‘‘ نبی ﷺ کی سنت طیبہ یہی تھی۔ روزہ رکھنے کے سلسلے میں صرف ایک مسلمان کی شہادت کافی سمجھتے اور ماہِ رمضان کے اختتام کے لیے دو مسلمانوں کی شہادت طلب کرتے۔ حضور ﷺ کا دستور تھا کہ افطار میں جلدی کرتے اور اہلِ ایمان کو اس کی ترغیب دیتے۔ سحری ضرور کھاتے اور وہ بھی آخری وقت۔ ارشاد تھا کہ سحری کھا لیا کرو، کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔ مغرب کی نماز پڑھنے سے پہلے افطار کرتے، تر کھجوریں مل جاتیں، تو ان سے، ورنہ خشک کھجوروں سے، یہ بھی نہ ملتیں تو پانی کے چند گھونٹ ہی پی لیتے۔

افطار میں تاریکی چھا جانے کا انتظار نہ کرتے۔ اہلِ ایمان کو ہدایت تھی کہ افطار میں جلدی کیا کرو اور اس معاملے میں یہودیوں کی مخالفت کرو کہ وہ اندھیرا چھا جانے کے بعد روزہ کھولتے ہیں۔ جب تک اہلِ ایمان روزہ کھولنے میں جلدی کرتے رہیں گے دین و ایمان کے لحاظ سے اچھی حالت میں رہیں گے۔ روزے کی حالت میں حضور ﷺ مسواک کیا کرتے، اپنے سر پر پانی ڈالتے، کلی وغیرہ کیاکرتے اور ناک میں (وضو کرتے وقت) پانی ڈال لیتے تھے۔ یعنی یہ چیزیں روزہ دار کے لیے ممنوع نہ تھیں۔

رمضان کی راتوں میں حضور ﷺ طویل قیام فرماتے۔ ایک بار حضورؐ نے مسلسل دو راتیں نماز تراویح با جماعت پڑھائیں، مگر اس طرح نہیں کہ اس کا خصوصی اہتمام کیا ہو۔ حضورؐ تراویح پڑھ رہے تھے کہ مسلمان ایک ایک دو دو کرکے شامل ہوتے گئے۔ اس طرح خاصے لوگوں نے باجماعت تراویح پڑھیں۔ دوسری رات بھی یہی ہوا۔ اب کے نمازی پہلی رات سے زیادہ تھے۔ تیسری رات مسلمان حضورؐ کی آمد کے منتظر رہے، لیکن آپؐ حجرے سے برآمد نہ ہوئے۔ مسلمان حضورؐ کو متوجہ کرنے کے لیے کھنکارے، لیکن حضورؐ تشریف نہ لائے۔ اگلے روز اپنے نہ آنے کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ’’مجھے معلوم تھا کہ تم میرے منتظر ہو، لیکن میں اس لیے نہیں آیا تھا کہ تمہارے ذوق وشوق کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ تراویح کو فرض ہی قرار نہ دے دیں۔‘‘ (اس کے بعد مسلمان لگ الگ تروایح پڑھتے رہے۔ حضرت عمر نے اپنے زمانے میں باجماعت تراویح پڑھنے کا اہتمام کیا،جو اب تک مسلمان معاشروں میں چلا آتا ہے۔)

دن کے وقت حضور ﷺ مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ دیتے۔ روزے کے فضائل اور اس کا اجرو ثواب بیان فرماتے۔ اس کی روح کو اپنانے کی دعوت دیتے اور ان امور سے بچنے کی تلقین فرماتے جن سے بھوک پیاس اور راتوں کو جاگنے کی مشقت بالکل اکارت جاتی ہے۔ ایک بار روزوں کا اجرو ثواب ان الفاظ میں بیان فرمایا: ’’جس شخص نے ایمانی کیفیت کے ساتھ اور اجر آخرت کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور راتو ںکو قیام کیا (نماز تراویح پڑھی) اللہ اس کے ان گناہوں کو معاف کردے گا جو پہلے سرزد ہوچکے ہیں۔‘‘ (بخاری ،مسلم)

ایک بار روزے کی فضیلت اس طرح بیان فرمائی: ’’روزہ اور قرآن مومن کے لیے سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا: اے میرے رب! میں نے اس شخص کو دن میں کھانے اور دوسری لذتوں سے روکا، تو رکا رہا، اس شخص کے حق میں میری سفارش قبول کر۔ قرآن کہے گا: میں نے اسے رات کے وقت سونے سے روکا (اپنی میٹھی نیند چھوڑ کر نماز میں قرآن پڑھتا رہا) اے میرے خدا! اس شخص کے بارے میں میری سفارش قبول کر۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ان دونوں کی سفارش قبول فرمائے گا۔‘‘

رمضان کا آخری عشرہ آتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بڑے جوش اور انہماک کے ساتھ عبادت میں لگ جاتے۔ انہی آخری ایام میں حضور ﷺ اعتکاف بھی کرتے تھے۔ صرف ایک بار اعتکاف چھوڑا، لیکن شوال میں اس کی قضا ادا کی۔ اعتکاف کے لیے مسجد میں خیمہ گاڑ دیا جاتا جس میں آپؐ اپنے خدائے رحیم و کریم کے ساتھ تنہائی اختیا رکرتے، اعتکاف کی حالت میں انسانی ضرورت کے سوا حضورؐ گھر تشریف نہ لے جاتے…… شوال کا چاند نظر آجاتا، تو اللہ کی حمد و تقدیس کرتے ہوئے اعتکاف سے نکل آتے۔ اگلے روز صبح سویرے حضورؐ اور مسلمان نماز عید کے لیے صاف ستھرے لباس پہنے جوق در جوق کھلے میدان کی طرف نکلتے اور مدینے کے راستے اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الاَّ اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد کی صداؤں سے گونج اٹھتے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146