یایہا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون۔ (البقرۃ: ۱۸۳)
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے۔‘‘
آئیے رمضان میں ایک نیا اپنا آپ دریافت کریں۔ فرضیت رمضان کا مقصد اللہ رب کریم نے حصولِ تقویٰ بتایا ہے۔
یہ تقویٰ کیا ہے؟
تقویٰ کے لفظی معنی خوف کے ہیں، اصطلاح میں یہ انسان کے اندر اس محاسب کا نام ہے جو اس کو ہر قدم پر اللہ کی نافرمانی سے روکتا ہے اور انسان کی رہنمائی کرتا ہے کہ وہ دنیا کے خارزار میں جہاں ہر طرف خواہشات، میلانات، ترغیبات، گمراہیوں اور نافرمانیوں کی خاردار جھاڑیاں ہیں، ان سے دامن بچا کر اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری اور اس کی خوشنودی کے راستے پر چل سکے جو بالآخر فلاح و کامرانی کی منزل تک پہنچادے۔
یہ تقویٰ ایک جانب بندے کو اللہ کی نافرمانی سے روکتا ہے اور دوسری جانب یہ اسلامی معاشرے کی ایک قوتِ نافذہ ہے جو بغیر کسی پولیس اور قانون ساز ادارے کے، انسانوں کو ایک دوسرے پر درس درازی سے روکتے ہوئے حقوق العباد کی درست ادائیگی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ گویا مختصر الفاظ میں اپنے آپ کو ہر حال میں اللہ کی اطاعت پر قائم رکھنے کا نام ہی تقویٰ ہے۔ خواہ انفرادی معاملہ ہو یا اجتماعی، گھر کے اندر ، باہر، اہلِ خانہ کے ساتھ، کاروبار، تجارت ، ملازمت، زیردستوںکے ساتھ معاملہ ہو سیاست، عدلیہ، پارلیمنٹ، حکومت ہر معاملہ اللہ کے حکم کے مطابق کرنا تقویٰ ہے اور اس کے برعکس ہر راستہ فجور کا راستہ ہے اور فسق وفجور شیطان کا راستہ ہے۔ اسلام کے نزدیک دنیا میں فساد کی جڑ اور انسانیت کی تباہی و بربادی کا اصل سبب ’’فجور‘‘ ہے۔ وہ اس فجور کے سانپ کو ہلاک کردینا چاہتا ہے یا کم سے کم اس کے زہریلے دانت توڑدینا چاہتا ہے تاکہ اگر یہ سانپ جیتا رہے تب بھی انسانیت کو ڈسنے کی طاقت اس میں باقی نہ رہے۔ اس کام کے لیے وہ نوعِ انسانی میں سے ان لوگوں کو چن چن کر نکالنا اور اپنی پارٹی میں بھرتی کرنا چاہتا ہے جو متقیانہ رجحانِ طبع رکھتے ہوں۔ فجور کی جانب ذہنی رجحان رکھنے والے لوگ اس کے کسی کام کے نہیں،خواہ وہ اتفاق سے مسلمانوں کے گھر پیدا کیے گئے ہوں اور مسلم قوم کے درد میں کتنے ہی تڑپتے ہوں۔ اسے دراصل ضرورت ان لوگوں کی ہے جن میں خود اپنی ذمہ داری کا احساس ہو جو آپ اپنا حساب لینے والے ہوں، جو خود اپنے دل، نیتوں اور ارادوں پر نظر رکھیں جن کو قانون کی پابندی کے لیے کسی خارجی دباؤ کی حاجت نہ ہو، بلکہ خود ان کے اپنے باطن میں ایک محاسب اور آمر بیٹھا ہو جو انھیں اندر سے قانون کا پابند بناتا ہو اور ایسی قانون شکنی پر بھی ٹوکتا ہو جس کا علم کسی پولیس، کسی عدالت اور کسی انسان کو نہیں ہوسکتا۔ وہ ایسے افراد چاہتا ہے، جنھیں یقین ہو کہ ایک آنکھ ہرحال میں انھیں دیکھ رہی ہے۔ جنھیں خوف ہو کہ ایک عدالت کے سامنے بہرحال انھیں جانا ہے۔ جو دنیوی منافع کے بندے، ہنگامی مصالح کے غلام اور شخصی یا قومی اغراض کے پرستار نہ ہوں۔ جن کی نظر آخرت کے اصلی و حقیقی نتائج پر جمی ہوئی ہو۔ جن کو دنیا کے بڑے سے بڑے فائدے کا لالچ یا سخت سے سخت نقصان کا خوف بھی خداوند عالم کے دکھائے ہوئے راستے اور اس کے بتائے ہوئے اصولِ اخلاق سے نہ ہٹا سکتا ہو۔ جن کی تمام سعی و کوشش صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو، جنھیں اس امر کا پختہ یقین ہو کہ آخر کار بندگی حق ہی کا نتیجہ بہتر اور بندگی باطل ہی کا انجام برا ہوگا، چاہے اس دنیا میں معاملہ برعکس ہو۔
فجور کا راستہ روکنے اور تقویٰ کی صفت پیدا کرنے اور اس کو مستحکم کرنے میں روزے سے زیادہ طاقت ور اور کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔ کہا جاتا ہے کہ روزہ تم پر اللہ نے فرض کیا ہے۔ صبح سے شام تک کچھ نہ کھاؤ پیو۔ کوئی چیز حلق سے اتاروگے تو تمہارا روزہ ٹوٹ جائے گا۔ لوگوں کے سامنے کھانے پینے سے اگر تم نے پرہیز کیا اور درپردہ کھاتے پیتے ہو تو خواہ لوگوں کے نزدیک تمہارا شمار روزہ داروں میں ہو مگر خدا کے نزدیک نہ ہوگا۔ تمہارا روزہ صحیح اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ خدا کے لیے رکھو، ورنہ دوسری کسی غرض مثلاً صحت کی درستی یا نیک نامی کے لیے رکھو گے تو اس دنیا میں کوئی انعام نہ ملے گا اور توڑوگے یا نہ رکھوگے تو یہاں کوئی سزا نہ دی جائے گی۔ یہ چند ہدایات دے کر آدمی کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کوئی سپاہی، کوئی ہرکارہ، کوئی سی آئی ڈی کا آدمی اس پر مقرر نہیں کیا جاتا کہ ہر وقت اس کی نگرانی کرے۔ زیادہ سے زیادہ رائے عامہ اپنے دباؤ سے اس کو اس حد تک مجبور کرسکتی ہے کہ دوسروں کے سامنے کچھ نہ کھائے پئے، مگر چوری چھپے کھانے پینے سے اس کو روکنے والا کوئی نہیں اور اس بات کا حساب لینا تو کسی رائے عامہ یا کسی حکومت کے بس ہی میں نہیں کہ وہ رضائے الٰہی کی نیت سے روزہ رکھ رہا ہے یا کسی اور نیت سے۔ گو یا پورے تیس دن ایک فرد کو ڈسپلن کے ماتحت رکھا جاتا ہے۔ مقرر وقت تک سحری، مقرر وقت پر افطار، جب تک اجازت ہے اپنی خواہشات نفس پوری کرتا رہے اور جب اجازت سلب کرلی جائے تو ہر اس چیز سے رک جائے جس سے منع کیا گیا ہے۔
غور فرمائیں! کتنا زبردست تربیتی کورس ہے، جس سے تمام مسلمان امت کو بیک وقت گزارا جاتا ہے تاکہ ان کے اندر تقویٰ کے ساتھ ساتھ اجتماعیت کا شعور بھی بیدار ہو۔ اور دیگر تمام مطلوب صفات بھی جو امت مسلمہ کو اس کے بنیادی فریضے کی اقامت میں معاون ہوں۔
گویا رمضان خواہشاتِ نفس میں انضباط کا مہینہ ہے۔ بقول شاہ ولی اللہؒ انسان و جن کے علاوہ دنیا میں دو طرح کی مخلوقات ہیں۔
فرشتے جو حیوانی خصوصیات سے مبرا ہیں۔ بھوک، شہوت، غم، خوشی کے احساسات سے عاری ہیں نہ جہل میں مبتلا ہوسکتے ہیں نہ ظلم کرسکتے ہیں۔ دوسری مخلوقات میں جانور ہیں جو علم حاصل کرسکتے ہیں نہ عدل جو ہر وقت جسمانی تقاضے پورے کرنے میں مشغول رہتے ہیں۔
انسان میں دونوں خصوصیات رکھ دی گئی ہیں ملکوتی صفات (فرشتوں والی) اور حیوانی صفات۔ اگر حیوانی صفات غالب آجائیں تو انسان نفس پرست اور پستی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اور ’’شرالدواب‘‘ کہلاتا ہے۔ اور اگر ملکوتی صفات غالب آجائیں تو انسان اعلیٰ صفات کا حامل ہوجاتا ہے۔ حقیقی کامیابی یہ ہے کہ خواہشات نفس و ہوس عقل کے تابع ہوں، نفسِ حیوانی، نفسِ روحانی کی اطاعت کرے۔ رمضان میں انسان تیس دن تک ان خواہشاتِ نفسانی کو مغلوب کرنے اور انضباطِ نفس کی مشق کرتا ہے۔ انضباطِ نفس کی اس مشق کے لیے بظاہر انسان کی صرف دو خواہشوں (یعنی غذا لینے کی خواہش اور جنسی خواہش) کو چھانٹ لیا گیا ہے اور ڈسپلن کی ساری پابندیاں صرف انہی دو پر لگائی گئی ہیں، لیکن روزے کی اصل روح یہ ہے کہ آدمی پر اس حالت میں خدا کی خداوندی اور بندگی و غلامی کا احساس پوری طرح طاری ہوجائے اور وہ ایسا مطیع امر ہو کہ یہ ساعتیں گزارے کہ ہر اس چیز سے رکے جس سے خدا نے روکا ہے اور ہر اس کام کی طرف دوڑے، جس کا حکم خدا نے دیا ہے۔ روزے کی فرضیت کا اصل مقصد اسی کیفیت کو پیدا کرنا اور نشوو نما دینا ہے نہ کہ محض کھانے پینے اور مباشرت سے روکنا۔ دیکھا جائے تو آج کا انسان انہی خواہشات نفس کے ہاتھوں افراط و تفریط کا شکار ہوکر شاہراہِ اعتدال سے بری طرح ہٹ چکا ہے۔ مثلاً خواہشِ طعام کی کثرت پراللہ نے خود فرمایا:
’’اور کفر کرنے والے بس دنیا کی چند روزہ زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں، جانوروں کی طرح کھا پی رہے ہیں ، ان کا ٹھکانا جہنم ہے۔‘‘ (محمد: ۱۲)
گویا کھانا محض ضرورت زندگی نہیں بلکہ ایک صنعت بن چکا ہے اور دن رات نت نئی ترقی کی بات بتانے کے چینل کھل چکے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے سارے صحت افزا کھانوں کی جگہ لے لی ہے اور ایسے مضر صحت کھانے انسانوں کو فراہم کیے جارہے ہیں جن میں حلال و حرام کی پرواہ بھی کم ہے۔ اور اسی لذت کام و دہن کی خاطر زیادہ پیسے کمانے کی دوڑ نے اعلیٰ انسانی اقدار کو داؤ پر لگاد یا ہے۔ ناجائز منافع کی خاطر حیا اور اخلاق سے عاری اشتہارات ایک دوسرے سے آگے بڑھنا اور تکاثر و تنافس میں شرافت کے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھ دینا معمول بن چکا ہے۔ بڑے پیمانے پر کرپشن کی وجہ ’’ہل من مزید‘‘ اور پیٹ کی پوجا کے سوا اور کیا ہے؟ ڈاکہ، چوری، لوٹ مار بھی اسی کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اسی طرح جنسی خواہش کو لیجیے۔ جو اللہ نے انسان اور جانوروں کے اندر بقائے نسل کے لیے رکھی اور انسانوں کے اندر صنفین میں کشش اس کا ذریعہ بنتی ہے، جو انھیں ساتھ رہنے کے لیے لازم و ملزوم بناتی ہے۔ اللہ نے اس پر حیا کا پہرا بٹھا کر اس کو ایک حد کے اندر پابند کیا۔ عورت اور مرد کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا:
’’وہ تمہارے لیے لباس ہیں تم ان کے لیے لباس ہو۔‘‘(البقرۃ: ۱۸۷)
اور نکاح کے دائرے کے اندر حدود کا پابند کرکے معاشرے کو ایک پاکیزگی عطا کی اور حکم دیا کہ تلک حدود اللّٰہ فلا تعتدوہا۔ (البقرۃ)
لیکن جب انسان نے نفس کی باگیں شیطان کے ہاتھ میں دے دیں، یہ ایک انڈسٹری بن گئی، جس کا اول و آخر مقصد انسان کی شہوانی خواہشات کی تکمیل ٹھہری اور آج کا انسان… آہ! آج کا انسان اس راہ پر اتنی افراط و تفریط کا شکار ہوچکا ہے کہ جانور بھی حیران ہوتے ہوںگے اور خود شیطان بھی بغلیں بجاتا ہوگا۔ نہ حیا رہی، نہ لباس، نہ حدود، نہ پابندیاں۔ بیڈرومز سے لے کر چوراہوں تک ہوس کے مظاہر دعوتِ نظارہ دیتے ہیں۔
اخبارات سے لے کر رسائل اور درسی کتب تک ان تصاویر سے مزین ہوگئیں، جو نفسِ شیطانی کی تسکین کا باعث ہو، اور جدید تعلیم یافتہ انسان نے قسم کھالی کہ ہر اس قانون کو توڑ کر دم لے گا جو اس کی خواہشِ نفس میں رکاوٹ ہو چاہے ہم جنس پرستی ہو یا اس کا کوئی اور مظاہرہ!
والعصر، ان الانسان لفی خسر۔
’’زمانے کی قسم ! انسان درحقیقت خسارے میں ہے۔‘‘
آج زمانہ بہت بڑا گواہ ہے کہ انسان الہامی ہدایت سے منہ موڑ کر کس طرح خسارے کے راستے پر سرپٹ دوڑ رہا ہے۔
رمضان اس بھٹکے ہوئے انسان کو پھر سے سیدھی راہ پر ڈالنے، اس کے نفس کو انضباط کی مشق کرانے، اور اعتدال کا راستہ دکھانے والا مہینہ ہے جو انسان کی انہی دو خواہشات پر قابو کرانے کی مشق کے ذریعے اسے اس قابل بناتا ہے کہ وہ دیگر کمزوروں پر بھی گرفت کرسکے، حیوانی صفات کو مغلوب کرکے انھیں امرِ ربّ کے تابع کرکے انھیں ملکوتی صفات کا آئینہ دار بناسکے اور وہ اللہ کے ان بندوں میں شامل ہوسکے، جن کے لیے اللہ جنت کے سارے دروازے کھول کر انتظار کرتا ہے۔ سبحان اللہ!
——