رمضان اور قرآن

ڈاکٹر رخسانہ جبین

روزے کا مقصد تقویٰ کی صفت پیدا کرنا ہے اور یہ تقویٰ قرآن پاک سے ہدایت حاصل کرنے کے لیے بھی ضروری ہے۔ اللہ ربِ کریم و رحیم سے زیادہ کون اس ضرورت سے واقف ہے۔ اس نے اتنا پیارا بندوبست کیا کہ رمضان اور قرآن کو ایک اہم رشتے میں پرودیا۔ جس رات قرآن نازل کیا اس رات کا حامل مہینہ ہی روزوں کی مشق کے لیے مخصوص کردیا یہ کہہ کر کہ:
’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔‘‘ (البقرۃ:۱۸۵)
قرآن رہتی دنیا تک اللہ کا واحد محفوظ اور مکمل کلام ہے اور امت مسلمہ اس کی امین ہے اور اس پر یہ بھاری ذمہ داری اللہ نے ڈالی ہے کہ اس کو محض خود ہی اس پر عمل نہیں کرنا بلکہ پوری دنیا کے انسانوں تک اس کو پہنچانا ہے۔
اس شہادت علی الناس کے فریضے کو ادا کرنے کے لیے کس قسم کا کردار، کیسی مضبوط شخصیت اور کیسا تقویٰ مطلوب ہے، روزہ اور قرآن دونوں کو ایک ماہ میں یکجا کرکے اللہ رب العزت اس شخصیت و کردار کی تعمیر کرنا چاہتا ہے۔ روزہ کے ذریعے تقویٰ پیدا ہو۔ اس کے ذریعے قرآن کو سمجھنے کی استعداد پیدا ہو اور بندہ مومن اس کو لے کر اٹھ کھڑا ہو۔ لہٰذا اس نے دن اور رات کے معمولات ایسے مقرر کیے کہ دن کو روزہ رکھیں اور رات کو قیام اللیل کریں، قرآن پڑھیں، سنیں اور اپنے رب کے احکام جانیں اور عمل میں ڈھالنے کی مشق کریں۔ اتنا خوبصورت، مکمل، حکمت سے بھرپور طریقہ تربیت اللہ رب العالمین کے علاوہ کوئی اور ہستی بنا ہی نہیں سکتی اور لاکھوں کروڑوں درود و سلام نبی رحمت ﷺ پر جنھوں نے اس خاکے میں عملی رنگ بھرے اور اپنی عملی رہنمائی سے امتِ مسلمہ کے لیے وہ مثالی نمونہ فراہم کیا۔ یہی تو اتمام تھا اسلام کے نظام تربیت کا، یہی تو مطلوب و مقصود تھا کہ نماز، روزے، حج، عمرہ، زکوٰۃ کی عبادات کے ذریعے وہ انسان دنیا میں ابھریں جو اللہ کی زمین پر اللہ کا بنایا ہوا مثالی نظام قائم کریں اور بندوں کو بندوں کے ہاتھوں پہنچے ہوئے دکھوں سے نجات دلائیں۔
رمضان قرآن اور آج کا انسان
آج کا انسان دکھوں کا ستایا ہوا ہے، بے سکونی، بدامنی، ڈپریشن اور طرح طرح کے ذہنی امراض میں گھرا ہوا ہے۔ انسانیت نے ربانی چشمہ ہدایت سے منہ موڑ کر دنیا کو نفسانیت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔ مادیت پرستی، مفادات اور شہرت و دولت کی بھوک نے اعلیٰ اقدار تباہ کردی ہیں۔ (الہٰکم التکاثر) انسان، انسان کا دشمن بن گیا ہے۔حسد اور شر نے سکون برباد کردیا ہے۔ قومیں، قوموں پر چڑھ دوڑی ہیں۔ خونی جنگیں جاری ہیں۔ آج نفسانیت اور خود غرضی کے ان پجاریوں کو پہلے سے کہیں زیادہ اسلام کے اس نظامِ تربیت کی ضرورت ہے۔ آج انسانیت پیاسی بھی ہے اور ضرورت مند بھی کہ یہ آب حیات لے کر کوئی اس کے پاس جائے۔ اندھیروں میں بھٹکتے ہوئے اللہ کے بندوں تک اللّٰہ نور السموات والارض کا نورانی کلام اور پاکیزہ احکام پہنچائے۔ رمضان ایک مثالی مہینہ بن سکتا ہے اگر امت مسلمہ اس مہینے کو اس شان وشوکت اور آب و تاب کے ساتھ گزارے کہ یہ شہادتِ حق کا نمونہ بن جائے۔ دیکھنے والے سر کی آنکھوں سے دیکھیں کہ ایک ماہ کی تربیت پاکر کیسی آب و تاب والا انسان اٹھ کھڑا ہوا۔
فرمانِ نبی رحمت ﷺ ہے کہ ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے تو اس کے وہ سب گناہ معاف کردیے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے۔ اور جس شخص نے رمضان میں قیام کیا ایمان اور احتساب کے ساتھ تو معاف کردیے جائیں گے اس کے وہ قصور جو اس نے پہلے کیے ہوں گے۔‘‘ (متفق علیہ)
یعنی روزہ اور قرآن شفاعت تو کریں گے لیکن شرائط کیا ہیں’ایمان و احتساب‘ ایمان تو خیر کسی بھی عمل کے نافع ہونے کی بنیادی شرط ہے، ورنہ تمام نیک اعمال بھی حیات دنیا کے ساتھ ہی ختم ہوجاتے ہیں اور جتنا اجر ملنا ہو، جس صورت میںبھی ہو، وہ اس دنیا میں ایک کافر حاصل کرلیتا ہے۔ آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا کیونکہ ایک کافر ایمان کو حیاتِ دنیا کے عوض بیچ چکا ہوتا ہے، جبکہ مومن اپنی جان، مال، اللہ کی رضا اور خوشنودی کے عوض اس کے ہاتھ بیچ چکا ہوتا ہے۔
’’حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے مومنوں سے ان کے نفس اور ان کے مال جنت کے بدلے خرید لیے ہیں۔‘‘ (التوبہ: ۱۱۱)
یہی اصل ایمان ہے کہ جو کچھ ہے، اے رب! تیرے لیے اور تیرا ہے۔ جان ہو یا مال، جو تیرا حکم ہے وہ سرآنکھوں پر، میری مرضی، میری خواہش، سب کچھ تیری رضا پر قربان۔ احتساب کیا ہے؟ ’اپنا جائزہ، نیت کا کہ کتنی خالص ہے؟ عمل کتنا درست ہے؟ بھلا کتنے انسان ہوں گے، جو روزہ رکھ کر اپنا احتساب بھی کرتے ہوں گے۔ جائزہ لیتے ہوں گے کہ کتنے اعضاء کا روزہ ہے؟ محض بھوک پیاس ہے یا واقعی آنکھوں، کانوں، زبان، ہر عضو نے روزہ رکھا ہے۔ کتنے لوگوں کو یہ حدیث یاد ہوگی کہ
’’کتنے ہی روزہ دار ہیں جنھیں روزوں سے بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام کرنے والے ہیں، جنھیں رت جگے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔‘‘ (ابنِ ماجہ)
ایسے کون لوگ ہوتے ہیں، ذرا جائزہ تو لیں۔ روزہ رکھا، جھوٹ نہ چھوڑا۔ جھوٹی قسمیں کھا کھا کر مال بیچا۔ رمضان آیا، مال کی قیمت بڑھا دی۔ ناجائز منافع خوری شروع کردی۔ عید آرہی ہے، خرچ بڑھ جائے گا۔ دودھ میں پانی ملادیا۔ اچھا دکھا کر گلا سڑا پھل تھیلے میں ڈال کر دے دیا۔ ملازمت کے اوقات میں ڈنڈی ماری۔ دیر سے آئے، جلدی گھر چلے گئے اور روزے رکھ کر خیانت کے مرتکب ہوگئے۔ سیر بھر اجر کمایا، من بھر گناہ کرلیے۔ اس لیے روزے رکھ کر احتساب ضروری ہے کہ اجر حاصل ہورہا ہے یا ضائع ہورہا ہے۔ اور یہ احتساب ہر طبقہ زندگی کے افراد کے لیے ضروری ہے۔ جس کے روزے کے ساتھ جتنا احتساب اور محنت ہوگی ان شاء اللہ اتنا ہی ورزنی روزہ ہوگا میزانِ عمل کو بھاری کرے گا۔
رمضان کا قیام اللیل، سماع قرآن کے ساتھ مشروط ہے رات کو تراویح پڑھی جاتی ہے اور اس میں قرآن سنایاجاتا ہے۔ قرآن اللہ تبارک و تعالیٰ کا پاک کلام ہے وہ رحمتوں اور برکتوں کا خزانہ ہے جو دنیا بھر کے خزانوں سے قیمتی ہے اور جس کے ملنے پر اللہ نے جشن منانے کو کہا: ’’لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے نصیحت آگئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفا ہے جو اسے قبول کرلے ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی! کہو کہ یہ اللہ کا فضل اور اس کی مہربانی ہے کہ یہ چیز اس نے بھیجی اس پر تو لوگوں کو خوشی منانی چاہیے۔ یہ ان سب چیزوں سے بہتر ہے جنھیں لوگ سمیٹ رہے ہیں۔‘‘ (یونس: ۵۷-۵۸)
اور رمضان کو تو خیروبرکت کی سعادت بھی اس قرآن کی وجہ سے ملی کہ اللہ نے یہ پاک کلام اس ماہ میں نازل فرمایا، اور پھر ربِ کریم نے رمضان المبارک میں قرآن کو کم از کم ایک مرتبہ مکمل دہرانے کا انتظام کیا۔ تراویح کی صورت میں کہ اللہ کے بندے سال میں کم از کم ایک مرتبہ اپنے رب کے احکامات سے پوری طرح باخبر ہوجائیں، وہ ہدایات دہرالیں، جو ان کے مالک نے زندگی گزارنے کے لیے انھیں دی ہیں۔
اپنے اعمال کو اس کے مطابق پرکھ لیں۔ اپنی غلطیاں درست کرلیں گویا رمضان المبارک کی ہر رات پکارتی ہوئی آتی ہے کہ اللہ کے بندو! آؤ اپنے رب کی پکار سنو! آؤ دیکھو اور جانو کہ فلاح کا راستہ کونسا ہے؟ آؤ یہ سمجھو کہ رمضان تمہارے لیے تقویٰ کے حصول کا باعث کیسے بن سکتا ہے؟ روزہ تمہارے کردار کو جلا کیسے بخش سکتا ہے؟
یہ قیام اللیل بڑے جلیل مقاصد کا حامل ہوتا ہے اگر احتساب کے ساتھ ہو، اگر مسلمانوں کو قرآن کی سمجھ آرہی ہو۔ اگر وہ اس کی روح سے آشنا ہوں، انھیں سمجھ آرہی ہو کہ ان کا رب کن باتوں کا حکم دے رہا ہے کن کاموں سے منع کررہا ہے؟ کس میں اس کی رضا ہے اور کس میں ناراضگی، کون سا راستہ جنت کو جاتا ہے اور جہنم میں لے جانے والے اعمال کون سے ہیں، اللہ کے پیارے بندے جب راتوں کو کھڑے ہوکر اپنے رب کا کلام پاک سنتے ہیں تو ان کی آنکھیں تر ہوجاتی ہیں، ان کا دل خشیت الٰہی سے بھرجاتا ہے:
’’سچے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر یقین و بھروسہ رکھتے ہیں۔‘‘ (الانفال: ۲)
اسی کا نام تقویٰ ہے اور اسی کیفیت کے تحت وہ رمضان کے دن گزارتے ہیں۔ قرآن کے ساتھ جڑ جاتے ہیں۔ دن بھر انھیں اللہ اور اس کے احکام یاد رہتے ہیں۔ وہ قدم قدم پر اپنا محاسبہ کرتے رہتے ہیں۔ پھر اگلی رات آجاتی ہے پھر قرآن سنتے ہیں اور ایمان بڑھتا چلا جاتا ہے اعمال نکھرتے چلے جاتے ہیں، گناہ دھلتے چلے جاتے ہیں، یہاں تک کہ جب پہلا عشرہ رمضان گزرتا ہے تو روزہ دار اللہ کی رحمت کو حاصل کرچکے ہوتے ہیں۔ دن گزرتے جاتے ہیں شوق و محبت بڑھتا جاتا ہے۔ مومن کا تعلق اپنے رب اور قرآن سے مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کی دعاؤں میں اور ذکر میں سوز آجاتا ہے۔ تقویٰ کی اگلی منزلیں طے کرلیتا ہے اور دوسرا عشرہ گزرنے تک مغفرت کا حقدار ہوجاتا ہے۔ اور آخری عشرہ رمضان کے تو کیا کہنے، بندے کی خشیت الٰہی اور حب الٰہی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ سب کچھ ترک کرکے رب کے در پڑجاتا ہے وہ دس دن کے لیے رب کی چوکھٹ تھام لیتا ہے اب وہ ہوتا ہے اس کا رب، اس کا کلام پاک، ذکر اور دعا، آنسو اور آہیں، نیکیوںکی کثرت اور پھر اللہ تعالیٰ آتش دوزخ سے رہائی کا فیصلہ فرمادیتا ہے۔
لیکن افسوس! کتنے لوگ اس کیفیت اور جذبے سے قرآن پاک پڑھتے ہیں؟ کتنے اس احتساب کے ساتھ قیام اللیل کرتے ہیں؟ اکثریت کا حال کیا ہے؟ اس کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنی کیفیات کا بھی۔ پہلی بدنصیبی تو یہ ہے کہ اکثریت کو قرآن کی سمجھ ہی نہیں آتی۔ نہ قرآن پاک ترجمہ سے پڑھا، نہ سیکھا، نہ اس کی کوشش کی۔
اس کتاب سے بے اعتنائی، جو زندگی بخشنے والی ہے، جو عروج کے زینوں پر چڑھانے والی ہے۔ کتنی بدبختانہ ہے۔ وہ کلامِ الٰہی، جس کی اقامت پر اوپر سے رزق برسنے اور نیچے سے رزق لینے کی نوید سنائی گئی ہے، مگر کہاں ہیں وہ لوگ جو اس کتاب کا حق ادا کرتے ہیں۔
’’کاش انھوں نے تورات اور انجیل اور دوسری کتابوں کو قائم کیا ہوتا جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس بھیجی گئی تھیں۔ ایسا کرتے تو ان کے لیے اوپر سے رزق برستا اور نیچے سے ابلتا۔ اگرچہ ان میں کچھ لوگ راست رو بھی ہیں، لیکن ان کی اکثریت سخت بدعمل ہے۔‘‘ (المائدہ:۶۶)
ہاں کہیے! رمضان تو قرآن کا مہینہ ہے۔ ہم تراویح میں قرآن سنتے ہیں۔ آخری عشرے میں شبینے ہوتے ہیں۔ لیکن ہمارے اوپر بھوک اور غربت مسلط ہے۔ خشک سالی ہے اور مصائب ہیں۔ ہم رمضان میں کئی کئی بار قرآن پاک ختم کرتے ہیں!
یہ ہم نے کیا کیا؟
کیا رمضان میں اس رویے میں تبدیلی آتی ہے؟
سچ بتائیں یہ قرآن ہمارے حق میں حجت ہوگا یا ہمارے خلاف؟؟
وہ قرآن جو ساری بیماریوں کے لیے شفا بن کر آیا ہے۔ جس نے عربوں کی زندگیوں میں انقلاب برپا کردیا تھا۔ جس کے ذریعے وہ چند سال کے اندر اندر دنیا کے حکمران بن گئے تھے، اسی قرآن کو ہم نے مذاق بنادیا! قیام اللیل کا مفہوم ہی کھودیا! قیام تو رہ گیا روح نکل گئی، جیسے مسجد میں داخل ہوتے ہیں، ویسے ہی کورے کورے باہر نکل آتے ہیں، حالانکہ پورا پارہ سنتے ہیں! اور امید رکھتے ہیں کہ یہ سماعت قرآن ہماری شفاعت کرائے گی، ہمارے گناہ معاف کرائے گی؟
کہاں رہ گیا وہ ایمان اور احتساب؟ نہ دل کی کیفیت بدلی نہ سوچ۔ نہ عمل! کیا سنا؟ کیا سمجھا؟
دنیا میں ہی دیکھیں، کیا حالت ہے! اتنا قرآن پڑھا جارہا ہے، پڑھایا جارہا ہے۔ سنا جارہا ہے، ہر سال، ہر رمضان میں، لیکن ہم جیسے رمضان میں داخل ہوتے ہیں ویسے ہی نکل آتے ہیں، نہ قلبی کیفیت بدلتی ہے، نہ اخلاق، نہ کردار، نہ ذاتی زندگی میں تبدیلی، نہ اقوام کی حالت میں تغیر۔ قرآن پڑھ رہے ہیں حامل قرآن ہیں، لیکن کافروں کے غلام ہیں۔ ذلت و مسکنت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ اگرچہ ہم قرآن کا اہتمام کرتے ہیں، چومتے ہیں، اونچا رکھتے ہیں، اس کی طرف پشت نہیں کرتے، لیکن عملی زندگی میں شاید یہی واحد کتاب ہے جسے پس پشت ڈال کر ہم ہدایت Oxfordاور Harward سے حاصل کررہے ہیں۔
آئیے عہد کریں اس رمضان میں قرآن پاک کو سمجھنے کی کوشش شروع کردیں گے کم از کم اتنا تو ہم کر ہی سکتے ہیں رات کو جو پارہ سننا ہے ان میں اس کے ترجمے پر ایک نظر ڈال لیں اور پھر ایسا منصوبہ بنائیں کہ اگلا رمضان آنے تک ہم نے اتنا ترجمہ قرآن تو ضرور سیکھ لیا ہو کہ ہمیں مفہوم سمجھ میں آنے لگے کم از کم تذکیری آیات کو سمجھ سکیں اگر ہم روزانہ پانچ آیات پڑھیں تو ساڑھے تین سال میں ترجمہ مکمل طور پر سیکھ سکتے ہیں اور اس کا آغاز اس رمضان سے لازماً کردیں گے۔ شاید کہ جنت کے دروازے ہمارے لیے بھی کھل جائیں، شاید کہ ہماری زندگی کا رخ بدل جائے، شاید کہ امت پر چھائی ذلت و مسکنت دور ہوجائے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں