ماہ رمضان بہت ہی برکتوں والا مہینہ ہے۔ اس ماہ مبارک میں اللہ کی رحمت گویا ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی مانند ہوجاتی ہے اور ہر نیک عمل کا اجر ستر گنا بڑھ کر ملتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ انسان کسی بھی مشق اور بغیر منصوبہ بندی اور ذہنی تیاری کے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔ انسان کی اسی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ کے رسولؐ نے بھی شعبان کے آخری روز ایک بلیغ خطبہ ارشاد فرمایا تھا، جس میں رمضان کے فضائل کے ساتھ اس کی خصوصیات کا بھی ذکر فرمایا اور اس میں زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے کی تلقین بھی کی۔ ھضرت سلمان فارسیؓ بیان کرتے ہیں کہ ماہِ شعبان کے آخری دن رسول اللہؐ نے ہمیں ایک اہم خطبہ دیا اور اس میں آپؐ نے فرمایا: ’’اے لوگو! تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے، جس کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘
اس ماہ کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے رسول اکرمؐ نے فرمایا: ’’یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔‘‘ یہ مہینہ واقعی صبر کا ہے اس لیے کہ اس میں جائز، حلال اور طیب چیزوں سے بھی انسان صبح صادق سے غروب آفتاب تک رکتا ہے۔ یہ رکنا در اصل صبر اور تقویٰ کی تربیت ہے۔ انسان کی نفسانی خواہشات میں حدود کو پھلانگنے کا رجحان پایا جاتا ہے، جب کہ تقویٰ یہ ہے کہ انسان سارا سال اپنے آپ کو حرام سے روکے رکھے، گناہ سے باز آجائے اور منکرات سے اجتناب کرے، اسی کا نام صبر ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کسی تکلیف یا مصیبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کرلینا ہی صبر ہے، جب کہ حقیقت میں صبر کا مفہوم بہت جامع اور ہمہ گیر ہے۔ چنانچہ امام راغب اصفہانی علیہ الرحمہ نے صبر کے تین درجے مقرر کیے ہیں: پہلا گناہوں سے اپنے آپ کو روکنا۔ دوسرا اطاعت، بندگی اور دینی فرائض کی ادائگی پر کاربند ہونا اور تیسرے مشکلات اور سختیوں میں صبر کرنا۔ اسی اعتبار سے گویا پورا دین صبر کی تشریح میں شامل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں کئی مقامات پر صبر کو جنت کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اس مبارک مہینے کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے۔ اس ماہ میں غم گساری اور ہم دردی کے احساسات انسان میں پیدا ہوتے ہیں۔ غالباً اس کا سبب یہ ہے کہ خوش حال اور کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ جب روزہ رکھتے ہیں تو انہیں کم از کم ان لوگوں کا احساس ضرور ہوتا ہے جو فاقوں میں زندگی گزارتے ہیں۔
اس ماہ کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔‘‘ عام طور پر روزہ رکھنے سے کچھ لوگ اس لیے بھی کتراتے ہیں کہ سارا دن مشقت نہیں ہوسکے گی تو ہماری کارکردگی پر فرق پڑے گا اور اس طرح ہماری کمائی میں کمی آسکتی ہے۔ اس اندیشے کا ازالہ کر دیا کہ ہر گز ایسا نہیں ہے۔ بندہ مومن کو یقین ہونا چاہیے کہ روزے کی وجہ سے اس کے رزق میں کوئی کمی نہیں آئے گی، چاہے کارکردگی عام دنوں سے کم ہوجائے۔
آپﷺ نے فرمایا: ’’جس نے اس میں کسی روزہ دار کو افطار کرایا تو یہ اس کے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا اور اس کو روزہ دا رکے برابر ثواب دیا جائے گا، بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔‘‘
یہاں ایک لمحہ رک کر سوچنا چاہیے کہ ہماری ہم دردی اور غم گساری کے سب سے زیادہ مستحق کون لوگ ہیں…؟ اس کا جواب یقینا یہ ہے کہ ہماری ہم دردی کے مستحق معاشرے کے وہ لوگ ہیں، جنہیں عام دنوں میں دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں آتی۔ اگر آپ ان کا روزہ افطار کرائیں تو اس سے معاشرے کے اندر جو بھائی چارے کی فضا بنے گی اس کا ہم اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔
رسولِ اکرمﷺ کا انتہائی پرمغز خطبہ جاری تھا کہ حضرت سلمان فارسیؓ نے گویا درمیان میں یہ سوال پوچھ لیا ’’اے اللہ کے رسولؐ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا‘‘ اس پر آں حضورؐ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا ایک کھجور پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرادے اور جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلادے اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا کہ جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی تاآنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔‘‘
یہاں بین السطور یہ پیغام پنہاں ہے کہ جس کو کچھ میسر نہیں ہے وہ اپنے ساتھ کسی کو پانی، دودھ یا لسی کے ایک گلاس میں بھی شریک کرلیتا ہے تو یہ بہت اجر و ثواب کی بات ہے۔ لیکن اگر معاملہ یہ ہو کہ خود اپنے لیے تو پکوان سجے ہوئے ہوں اور دوسروں کو صرف شربت یا لسی کے دو گھونٹ پر افطار کروایا جا رہا ہے تو یہ پسندیدہ عمل نہیں ہے۔ اس حوالے سے اصل بات یہ ہے کہ اس کی عملی تعبیر سامنے آنی چاہیے اور ہمیں اس پر بالفعل عمل بھی کرنا چاہیے۔
رسول اکرمؐ نے اس ماہ کو تین حصوں میں تقسیم فرماتے ہوئے ہر عشرے کی الگ خصوصیات کا ذکر فرمایا: ’’اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت، درمیانہ حصہ مغفرت اورآخری حصہ آتشِ دوزخ سے آزادی ہے۔‘‘
استقبالِ رمضان کے حوالے سے انتہائی اہم خطبے کے آخری الفاظ یہ ہیں:
’’اور جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف و کمی کردے گا اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمائے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزدی دے گا۔‘‘
یہ بھی گویا ہم دردی اور غم گساری کا ایک مظہر ہے کہ اپنے ماتحت لوگوں کی ذمے داریوں میں تخفیف کردی جائے۔
رمضان واقعی نیکیوں کی برسات کا مہینہ ہے۔ اس مہینے میں اگر ہم صحیح معنوں میں محنت کر کے اپنے نفس کی تربیت کرلیں تو اس کا اور کوئی بدل نہیں ہوسکتا اور اگر ہم اس ماہ میں بھی اللہ کی رحمت سمیٹنے اور اپنی بخش کرانے سے محروم رہ جائیں تو پھر ہم سے بڑا بدنصیب اور کوئی نہیں ہوسکتا۔
در حقیقت رمضان المبارک کے دو متوازی پروگرام ہیں، ایک ہے دن کا روزہ اور دوسرا ہے رات کا قیام۔ رسولِ کریمﷺ نے فرمایا: ’’جس نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور اجر و ثواب کی امید کے ساتھ اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیے گئے اور جس نے رمضان (کی راتوں) میں قیام کیا (قراآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور اجر وثواب کی امید کے ساتھ اس کے بھی تمام سابقہ گناہ معاف کردیے گئے اور جو لیلۃ القدر میں کھڑا رہا (قرآن سننے اور سنانے کے لیے) ایمان اور اجر وثواب کی امید کے ساتھ اس کی بھی سابقہ تمام خطائیں بخش دی گئیں۔ اس سے بڑھ کر اس ماہ کی فضیلت او راس ماہ میں عبادت کی اہمیت اور کیا ہوسکتی ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اس ماہ کے لیے بھرپور منصوبہ بندی کریں اور اس منصوبے کے مطابق اس ماہ کو گزارنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یقینا بہت ساری نیکیاں سمیٹنے اور اپنی مغفرت کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔l