رمضان کا عظیم مہینہ

واصیہ اقبال حیدرآباد

عالمِ اسلام پر ہر سال رمضان کا عظیم و بابرکت مہینہ سایہ فگن ہوتا ہے۔ اس عظیم مہینے میں نوع انسانی کی رہنمائی کے لیے وہ آخری کتاب دی گئی ، جس کے بغیر وہ زندگی کی شاہراہ پر ایک قدم بھی ٹھیک طرح نہیں چل سکتی۔ اور اس عظیم مہینے میں وہ عبادت فرض قرار دی گئی، جو اس کتاب سے رہنمائی حاصل کرنے والے افراد کی انفرادی زندگی کی دوسری سب عبادات سے بڑھ کر تربیت کرتی ہے اور انہیں اجتماعی زندگی خوشگوار خطوط پر بسر کرنے کی عادی بناتی ہے۔

یہ مہینہ اسلامی معاشرے کو سب سے نمایاں رنگ یہ بخشتا ہے کہ پوری دنیائے اسلام میں مسلمانوں کی توجہات ہر طرف سے ہٹ کر اپنے اللہ پر مرکوز ہوجاتی ہیں۔ مسلمانوں کی ساری مصیبتوں، پریشانیوں اور ہرجگہ ان کے معاشرے کے اندر پھیلے ہوئے اضطراب و انتشار کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کا تعلق اپنے اللہ سے کٹ چکا ہے اور یہ مسلمانوں کے اجتماعی مرض کی صحیح تشخیص ہے۔

رمضان کا مہینہ مسلم سماج کے انفرادی واجتماعی امراض کا مداوا فراہم کرتا ہے۔ اور مسلمانوں کاتعلق اپنے اللہ کے ساتھ مضبوط بناتا ہے۔ رمضان کے روزے ایک مسلمان کے اس ایمان و یقین کو جلا بخشتے اور اس کے تصور کو مضبوط بناتے ہیں کہ ایک برتر و بالا ذات اُس کے اعمال و افعال کی ہر آن نگرانی کررہی ہے جس کے آگے اُسے ایک روز ان اعمال کی جوابدہی کرنی ہے۔ یہی ایمان و یقین ایک فرد کو اپنی انفرادی زندگی میں اور ایک اسلامی معاشرے کو اجتماعی زندگی میں حق پر قائم کرتا اور قائم رکھتا ہے۔

پھر رمضان کا مہینہ مسلمان افراد اور معاشرے کے اندر رحم، ایثار اور ہمدردی کے جذبات بیدار کرتا ہے۔ ایک معاشرے کے افراد اقتصادی اور معاشی اعتبار سے کبھی یکساں نہیں ہوتے۔ ان میں متمول اور محنتی بھی ہوتے ہیں اور حاجت مند فاقہ کش بھی۔ اور فاقہ و احتیاج سے ایک انسان پر جو بیتتی ہے اُسے وہ شخص محسوس نہیں کرسکتا جسے پیٹ بھر کر کھانے کو مرغن غذائیں ملتی ہیں اورتجوریوں کا منہ جس کی ہر احتیاج کو پورا کرنے کے لیے کھلا ہوتا ہے۔ یہ بیگانگی اور بے خبری ایک معاشرے کے ان دو طبقات میں نفرت اور کش مکش کا باعث بن جاتی ہے۔ رمضان کے روزے ہر سال اسلامی معاشرے کے متمول اور خوشحال افراد میں یہ احساس اجاگر کرتے ہیں کہ فاقہ و احتیاج اور بھوک پیاس کیا ہوتی ہے اور معاشرے کے جو افراد اس سے دوچار ہوتے ہیں ان پر کیا گزرتی ہے۔ یہ احساس انہی غریبوں اور ناداروں کے ساتھ ہمدردی، مراعات اور ایثار پر اکساتا ہے۔ متمول افراد کا یہ ایثار اور ہمدردانہ برتاؤ غریبوں اور ناداروں میں محبت اور خلوص کے جذبات پیدا کرتا ہے۔ اس طرح اسلامی معاشرہ اس کشمکش سے پاک رہتا ہے، جو غریبوں اور دولت مندوں کے درمیان ہر دوسرے معاشرے میں بپا ہوتی ہے اور اس کی بدترین مثال ہمارے اپنے ملک میں ’ماؤ واد کا قہر‘ ہے۔ اور دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی یہ کشمکش دیکھی جاسکتی ہے۔ مسلم معاشرے میں اس کے برعکس اس کے ان دوطبقات میں باہمی ہمدردی اور محبت کی خوشگوار فضا قائم ہوتی ہے۔وہ ایک دوسرے کے دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں، اور حریف سمجھنے کی بجائے ایک دوسرے کو بھائی سمجھتے ہیں۔

رمضان کا مہینہ مسلمان افراد اور معاشرے کو صبر وتوکل اور مشقت کا خوگر اور مشکلات و مصائب کا سامنا کرنے کا عادی بناتا ہے۔ زندگی یوں بھی کشمکش تگ و دو، صعوبت اور مشقت سے عبارت ہوتی ہے مگر ایک مسلمان فرد اور معاشرے کی زندگی تو سراپا صعوبت و مشقت ہوتی ہے۔ اُسے خود حق پر قائم رہنے اور نیکی کا پرچم بلند رکھنے کے لیے زبردست محنت کرنی ہوتی ہے۔ باطل سے ہر آن تصادم رہتا ہے، بدی اس کو شکست دینے اور مغلوب کرنے کے لیے اس سے بار بار ٹکراتی ہے۔ صراطِ مستقیم پر گامزن رہنے کے لیے قدم قدم پر رکاوٹیں پیش آتی ہیں۔ ایسی کٹھن زندگی میں کامیابی و کامرانی تبھی مل سکتی ہے، جب مسلمان فرد اور معاشرہ مشکلات برداشت کرنے کا عادی ہو، جان و مال کی قربانی پر آمادہ ہو، بھوک اور پیاس برداشت کرنے کی سکت ہو اور صبر و توکل سے بہرہ ور ہو۔ رمضان کے روزے یہی چیز اس کے اندر پیدا کرتے ہیں۔

پھر یہ مہینہ مسلمان افراد اور معاشرے کو برائیوں، لڑائی جھگڑوں اور باہمی رنجشوں سے پاک رہنے کا عادی بناتا ہے، اُس کے اندر یہ احساس اجاگر کرتا ہے کہ گناہوں اور سرکشی کی زندگی کے ساتھ رسمی عبادت و طاعت کی زندگی لاحاصل ہوتی ہے۔ رسالت مآب ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’جوشخص روزہ رکھ کر جھوٹ بولنے اور برے کام کرنے سے باز نہیں آتا، اللہ کو اُس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔‘ اسی طرح فرمایا کہ ’کتنے روزے دار ہیں جنہیں دن بھر بھوک پیاس کے سوا اور کچھ نصیب نہیں ہوتا اور کتنے راتوں کو قیام کرنے والے ہیں کہ رت جگے کے سوا اُن کے پلّے کچھ نہیں پڑتا۔ رمضان کے روزے گویا مسلمان فرد اور معاشرے کو بدی اور غلط کاری کی زندگی تج کرنے کی اور بھلائی کی صاف ستھری، کینہ کپٹ، لڑائی جھگڑے اور فساد و عناد سے پاک زندگی بسر کرنے کی تربیت دیتے ہیں۔

اسلامی کلینڈر میں اس مہینے کو اسی لیے معظم اور بابرکت قرار دیا گیا ہے۔ مگر افسوس کہ یہ عظیم و بابرکت مہینہ اپنے دامن میں جو اثرات رکھتا ہے باوجود یہ کہ ہر سال آتا ہے، مسلمان معاشرہ ان سے محروم رہتا ہے۔ مسلمان معاشروں سے بڑھ کر آج کوئی بھی معاشرہ ایمان و یقین سے تہی دست، رحم، ایثار اور ہمدردی سے خالی، صبر و توکل، صعوبت اور مشقت برداشت کرنے سے عاری اور بدی اور فساد و انتشار کی آماج گاہ نہیں ہے اور اس کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ اس مہینے کو محض ایک رسمی عبادت کا مہینہ سمجھ لیا گیا ہے۔ ایسی رسمی عبادت جس کا روح اور جذبات سے اور زندگی کی گہرائیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں