رمضان کی آمد آمد

امّ فوزان

لیجیے رمضان کا مبارک مہینہ پھر دستک دے رہا ہے۔ یہ بھی خوب مہمان ہے۔ سال میں ایک دفعہ آتا ہے اور مہینہ بھر کے لیے اور پھر رخصت ہوجاتا ہے۔ یہ مہمان خالی ہاتھ نہیں آتا بلکہ اپنے ساتھ ڈھیر ساری سوغاتیں لے کر آتا ہے۔ اس کے ساتھ فرشتوں کی بھی ایک بہت بڑی جماعت آتی ہے۔ سب کے سب تحفے تحائف اٹھائے ہوتے ہیں۔ ان فرشتوں کاکام یہ بتایا گیا ہے کہ جو ماہِ رمضان کا شاندار استقبال اور عمدہ بلکہ شایانِ شان خاطر تواضع کرتے ہیں ان کے لیے یہ فرشتے خصوصی دعا اور استغفار کرتے ہیں۔

رمضان کا مہینہ اتنا مبارک ہے کہ اس کے شروع ہوتے ہی ہر چیز میں برکت ہونے لگتی ہے۔ کھانے پینے کی بات تو چھوڑئیے، سب سے زیادہ برکت تو نیک کاموں کے ثواب میں ہوتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جو اس ماہ میں نفل درجہ کا ایک نیک کام کرلے اسے ایک فرض کی ادائیگی کا ثواب ملتا ہے۔ اور جس نے کوئی فرض ادا کیا اسے ستر فرضوں کا ثواب ملتا ہے۔ بتایا گیا کہ جسے اس ماہ میں عمرہ کرنے کی توفیق ملی تو مانو کہ اس کے حصہ میں ایک حج کا ثواب آگیا۔ صدقہ و خیرات کے بارے میں یوں تو قرآن پاک نے مثال دانے کی دی ہے جس سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں۔ تاہم رمضان میں صدقہ کیا جائے تو ثواب اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ ایک مرتبہ پیارے رسولؐ سے کسی نے پوچھا: سب سے بہتر صدقہ کون سا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: وہ صدقہ جو رمضان کے مہینے میں دیا جائے۔ خود پیارے رسول ؐ کی شان دیکھئے کہ سال بھر تو سب سے زیادہ سخی اور فیاض رہتے ہیں تھے مگر رمضان کا مہینہ آتا تو تیز ہواؤں سے بھی زیادہ فیاضی دکھاتے۔

ماہ رمضان کی برکتوں کا اس سے اندازہ کیجیے کہ اسی ماہ میں وہ مبارک رات بھی آتی ہے جس کے بارے میں اللہ پاک نے بتایا کہ قدر کی رات ہے جو ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ایک ہزار مہینوں کا مطلب ہوگیا تقریباً اٹھاسی سال۔ اور پھر جسے اللہ توفیق دے اور اٹھاسی قدر کی راتیں مل جائیں اس کے ثواب کا اندازہ لگائیے۔

دیکھا آپ نے یہ مبارک مہمان اپنے ساتھ کتنی ڈھیر ساری سوغاتیں لاتا ہے۔ اگر اللہ کے بندوں کو بات سمجھ میں آجائے تو وہ سال بھر اس مہمان کا انتظار اور اس کے استقبال کی تیاری میں لگے رہیں۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ اللہ کے بہت سارے بندے اور بندیاں اس عظیم مہمان کی قدر نہیں جانتیں اور اسی لیے اس کے تحفوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔

بے دین گھرانوں کی بات چھوڑیے، دیندار گھرانوں کی عورتوں کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ رمضان کا مہینہ آیا نہیں کہ انھوں نے بہت ساری غیر ضروری مصروفیات پیدا کرلیں۔

آدھی رات سے ہی ان کے مشاغل شروع ہوجاتے ہیں۔ سحر سے بہت پہلے اٹھ کر سحری بنانے میں مصروف، یہ خیال نہیں کہ یہ تو عبادت کا بہترین وقت ہے۔ اس وقت تو اللہ اپنے بندوں کو پکار پکار کر کہہ رہا ہوتا ہے کہ کیا ہے کوئی مانگنے والا کہ میں اسے دوں، ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ میں اس کی توبہ قبول کروں، مگر یہاں تو سارا دھیان اس پر ہے کہ شاندار سی سحری تیار ہوجائے۔

ادھر پھر افطار کی تیاری ظہر بعد سے ہی شروع ہوگئی۔ اگر ’’اُن‘‘ کے دوستوں کی دعوت ہے تو پرتکلف افطار کی تیاری میں عصر کی نماز بھی چلی گئی۔ افطار تیار ہوتے ہوتے مغرب کی اذان ہونے لگی تو افطار بناتے بناتے کچھ منھ میں ڈال دیا شوق یہ ہے کہ سب کو گرم گرم آئٹم دیے جائیں یہ خیال نہیں ہے کہ افطار سے پہلے کا وقت دعا کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے۔ اور پھر افطار کی تکان ایسی سوار کہ اطمینان سے تراویح پڑھنے کی کس میں طاقت۔

یہ نہیں کہنا ہے کہ عورتیں افطار و سحر کا انتظام نہ کریں۔ کہنا یہ ہے کہ جہاں عورتوں میں اپنے بہت سارے حقوق کے سلسلے میں بیداری آرہی ہے اور وہ رفتہ رفتہ اپنے مختلف طرح کے حقوق کا مطالبہ کررہی ہیں، انہیں اپنے اس حق کا بھی احساس ہونا چاہیے کہ رمضان کا مہینہ ان سے صرف افطار و سحری بنوانے کے لیے نہیں آتا ہے بلکہ جس طرح مردوں کا حق ہے کہ وہ اس کی برکتوں سے اپنی جھولی بھریں عورتوں کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ رات میں نماز تجد کا، صبح میں تلاوت کلام پاک کا، افطار سے پہلے دعا و استغفار کا اور اطمینان سے نماز تراویح پڑھنے کا ان کا بھی حق ہے اور وہ انہیں ملنا چاہیے۔ ان پر اضافی کاموں اور فرمائشوں کا اتنا بوجھ نہ ڈال دیا جائے کہ وہ سب کچھ کرکے بھی رمضان کی برکتوں سے محروم رہ جائیں۔

پھر عورتوں کو چاہیے کہ وہ اپنے کام اس ترتیب سے کریں کہ انہیں رمضان سے فائدہ اٹھانے کے لیے بھی وقت مل جائے۔ سحری اس ترتیب سے بنائیں کہ تہجد کا وقت بھی مل جائے، دن میں جب موقعہ ملے تلاوت بھی کرتی رہیں۔

غرض یہ کہ رمضان سے خوب فائدہ اٹھائیں، کیا پتہ اگلے رمضان کے لیے عمر اور صحت کسے نصیب ہو؟

رمضان کے اس مبارک مہینے سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم مہینہ شروع ہونے سے قبل ہی پورے چار ہفتوں کی منصوبہ بندی کرلیں۔ اللہ کے رسول کی سیرت مبارکہ سے جو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آپ شعبان ہی سے رمضان کی تیاریاں شروع کردیتے اور اس کے استقبال کے لیے تیار رہتے اس کا مطلب یہی ہے کہ آپ پورے مہینے کی مکمل منصوبہ بندی فرماتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس مہینے کو تین اجزاء میں تقسیم کردیا ہے۔

اس تقسیم سے یہ بھی بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ رمضان کا یہ مہینہ ہم سے بھی اسی منصوبہ بندی کے مطابق عمل چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ذریعہ قائم کردہ یہ تقسیم بتدریج ہمیں ارتقاء کی طرف لے جاتی ہے۔ پہلے عشرہ میں نسبتاً کم ارتکاز اور پھر یہ مسلسل بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ آخری عشرہ کا عالم یہ ہے کہ اللہ کے رسول مسجد کے کونہ میں معتکف ہوجاتے اور عید کا چاند دیکھ کر ہی باہر نکلتے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اپنی روز مرہ اور دنیاوی مصروفیات کو بتدریج کم کرتے کرتے آخری عشرہ میں بالکل ختم کرکے صرف اور صرف اللہ سے رشتہ جوڑ لیا جائے۔ یہ اللہ اور اس کے رسول کی منصوبہ بندی ہے۔

ادھر ملت اسلامیہ اور ہمارے گھروں کا حال یہ ہوتا ہے کہ ابتدائی دنوں میں زبردست جوش و خروش ہوتا ہے اور عبادات پر توجہ دی جاتی ہے مسجدیں بھر جاتی ہیں،نمازیوں کی بڑی تعداد تروایح کی بیس رکعات مکمل کرتی ہے اور دوسرے ہفتے سے تعداد کم ہونی شروع ہوجاتی ہے۔ کچھ لوگ بیس رکعت مکمل کیے بغیر ہی جانے لگتے ہیں۔ اور بدقسمتی کا عالم یہ ہے کہ آخری عشرہ میں تو بالکل عام عشاء کے نمازیوں سے بھی کم تعداد تراویح پڑھنے والوں کی بچ پاتی ہے۔ کیا بدنصیبی ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی فراہم کردہ رہنمائی کو ہم نے بالکل الٹ دیا ہے۔

ادھر خواتین کی گھریلو مصروفیات بڑھنے لگتی ہیں اور آخری عشرہ میں ’’اُن‘‘ کے دوستوں کی دعوتیں اور ملنے جلنے والیوں کے یہاں افطار بھیجنے کا کام بڑھ جاتا ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بتدریج عبادت اور ریاضت میں کمی آتی جاتی ہے۔ بعض گھروں کی محرومی کا عالم تو یہ ہوتا ہے کہ آخری عشرہ کی طاق راتوں کی شام بھی افطار پارٹیوں اورکھانوں کی تیاری سے خواتین ایسی تھکتی ہیں کہ صرف سحری کی فکر ہی ان کو بیدار کرتی ہے اور ہزار مہینوں سے بہتر رات یوں ہی گزر جاتی ہے۔

منصوبہ بندی کیجیے!

٭ رمضان المبارک سے بہتر انداز میں فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری خواتین اپنی جملہ مصروفیات کو چار ہفتوں میں تقسیم کرکے اس کے مطابق کاموں کو انجام دینے کی کوشش کریں۔ اس منصوبہ کی تیاری ایسے انداز میں ہو کہ مہینہ کے آخری دس دنوں میں آپ کے گھریلو مصروفیات معمولی نوعیت کی ہوں تاکہ زیادہ وقت عبادت، تلاوت اور تزکیہ نفس کی مصروفیات میں گزارا جاسکے۔ اس عشرہ میں اس بات کی کوشش ہو کہ گھر سے نکلنے کی ضرورت نہ ہو یا کم سے کم ہو تاکہ عبادت و استغفار کے عمل میں ارتکاز ہوسکے۔

٭ منصوبہ بندی کا دوسرا پہلو ہدف کا تعین ہے۔ یعنی اس بات کی منصوبہ بندی کرلی جائے کہ اس سال رمضان میں کون کون سے کام لازماً مکمل کرلینے ہیں۔ مثال کے طور پر آپ یہ طے کرسکتی ہیں کہ تلخیص تفہیم القرآن کا مطالعہ ایک بار مکمل کرلیا جائے۔ نیز فلاں فلاں کتابیں ضرور پڑھ لینی ہیں۔

٭ اعمال کی منصوبہ بندی بھی ضروری ہے۔ اور بہتر بات یہ ہے کہ پورے مہینے کا ایک چارٹ بنالیا جائے۔ اس میں مصروفیات، دعوتوں اور افطار پارٹیوں کا شیڈول، مطالعہ کا شیڈول کاموں کے انجام دینے کا وقت متعین کرلیا جائے۔ مثلاً چھ افطار پارٹیاں کرنی ہیں اور ان کی تاریخیں یہ اور یہ ہوں گی۔ ۱۵؍رمضان تک زکوٰۃ اکٹھا کرنے کا کام مکمل کرلیا جائے گا اور اگلے چار پانچ دنوں میں تقسیم کا کام ختم کرلیا جائے گا۔ وغیرہ۔

٭ رمضان المبارک عبادت، توبہ و استغفار اور اللہ سے قربت کا مہینہ ہے۔ اس میں ہمارا ذہن ہر وقت اللہ کی طرف راغب رہنا چاہیے۔ اور چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، اور کھانا پکاتے وقت دعاؤں اور استغفار کے کلمات اگر زبان پر رہیں تو بے شمار نیکیاں بڑی آسانی سے سمیٹی جاسکتی ہیں لیکن اس کے لیے آمادگی اور توجہ چاہیے۔ لہٰذا آپ اپنی ذات کے لیے توجہ دیجیے اور سوچیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ رمضان بھی سحری و افطار کی تیاریوں میں ہے نکل جائے اور آپ محروم رہ جائیں۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146