جنت سال بھر سے سجائی جارہی ہے کچھ بہت ہی معزز مہمانوں کے استقبال کی تیاریاں ہورہی ہیں۔ یہ کونسا موقع ہے کہ جنت کے سارے دروازے کھول دے گئے ہیں اور فرشتےآواز لگا رہے ہیں: ’’اے خیر کے طالب آگے بڑھ اور برائی کے طالب رک جا۔‘‘ (ترمذی، ابن ماجہ)
رمضان المبارک آیا ہی چاہتا ہے۔ آئیے کچھ سوچیں، کچھ طے کرلیں کہ رحمت و برکت کے اس بہتے دریا سے ہم کس طرح زیادہ سے زیادہ جھولیاں بھرسکتے ہیں۔ کیسے زیادہ نیکیاں سمیٹ سکتے ہیں اور تیس دن کی اس مشق سے ہم کس طرح اپنی شخصیت کے اندر ایک نکھار پیدا کرسکتے ہیں۔ اپنے جسم و روح کی بیماریوں اور آلودگیوں کو کس طرح دھو کر پاک صاف کردار کی تعمیر کرسکتے ہیں۔
آئیے سوچیں کہ مالک نے اپنے بندوں پر یہ روزے کیوں اور کس مقصد سے فرض کیے؟ ہم وہ مقصد کس طرح بہترین طریقے سے حاصل کرسکتے ہیں؟
یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کون بدنصیب ہوتے ہیں جو ماہ رمضان المبارک پاتے ہیں لیکن نہ رحمتیں سمیٹتے ہیں اور نہ کردار کی تعمیر کرپاتے ہیں، نہ رب کو راضی کرتے ہیں اور ہلاکت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
ہروہ کام جو حسن نیت، سوچ بچار اور منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جاتا ہے اعلیٰ طریقے سے پایہ تکمیل کو پہنچتا اور بہترین نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ آئیے اس سال ہم بھی ایک منصوبہ بنائیں۔
استقبال رمضان کیسے کریں؟
دورانِ رمضان خیر اور بھلائی کیسے سمیٹیں گے؟ اپنے اندر سے ایک نیا انسان کیسے دریافت کریں گے؟
بعد رمضان خود کو کیسے پرکھیں گےکہ رب نے جو بنانا چاہا تھا ہم وہ بن پائے کہ نہیں؟
اور ایسا ہر سال تا عمر کریں گے یہاں تک کہ رب کے پاس پہنچیں تو وہ جنت کے سارےدروازے کھول کر فرشتوں کے جلو میں ہمارا منتظر ہو۔اللّٰہم جعلنا منہم… آمین! جونہی رمضان المبارک کا چاند نظر آئے رب کے آگے ہاتھ پھیلادیں۔ صلوٰۃ حاجت ادا کریں، اس لیے کہ اس کی توفیق کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔
’’اور تمہارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے۔‘‘ (التکویر:29)
رب سے رمضان کی ساعتوں میں برکت کی دعا مانگیں۔ صحت اور عافیت مانگیں تاکہ کوئی گھڑی، لمحہ یا دن کسی وجہ سے ضائع نہ ہو، وقت کے صحیح استعمال کی توفیق مانگیں، گناہو ںسے مکمل طور پر بچنے کی کوشش میں اس سے مدد مانگیں، زیادہ عبادات، زیادہ انفاق اور دیگر نیکیوں میں آگے بڑھ جانے کا جذبہ مانگیں۔
استغفار کرنے والا دل اور ذکر نے والی زبان مانگیں۔ تدبر قرآن اور فہم قرآن کی توفیق مانگیں اور سب سے بڑھ کر اللہ سے یہ دعا مانگیں کہ اے ہمارے رب! تو نے روزے جس مقصد سے ہم پر فرض کیے ہیں اس مقصد پر پورا اترنے کی توفیق عطا فرما اور ہمیں بہترین تقویٰ عطا فرما اور وہ تمام دعائیں جو ماہِ مقدس کے حوالے سے دل میں ہوں مانگیں کہ رب مہربان ہے اور دینے کو بے تاب ہے۔
رمضان خیر وبرکت کا مہینہ
وہ رب جو ہر حال میں رحمان و رحیم ہے، جس کی رحمت ہر وقت ساری دنیا پر چھائی ہوئی ہے، لیکن اس خاص ماہ میں خاص رحمتوں کانزول ہوتا ہے۔ رمضان کی ہر صبح اور ہر رات فرشتوں کو مقرر کردیتا ہے جو آواز لگاتے ہیں:
’’اے خیر کی تلاش کرنے والے متوجہ ہو اور آگے بڑھ، اے برائی کے طالب رک جا۔ اس کے بعد فرشتہ کہتا ہے، ہے کوئی اس کی مغفرت چاہنے والا کہ اس کی مغفرت کی جائے، ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ اس کی توبہ قبول کی جائے، ہے کوئی دعا کرنے والا کہ اس کی دعا قبول کی جائے، ہے کوئی سائل کہ اس کا قوال پورا کیا جائے۔‘ ‘
تصور کریں، کوئی بہت بڑا بادشاہ، بڑا سخی، بڑا مہربان، منادی کررہا ہے، بہت کچھ دینے کو بے تاب ہے، محل ودربار سجا کر بیٹھا ہے، جنت، مغفرت ہرچیز سستی کردی ہے۔ رحمت اور محبت منتظر ہے کہ اس کے غلام، اس کے بندے، عبادالرحمن اس کی طرف رخ کریں، ادھر متوجہ ہوں، ہیرے جواہرات، تخت پوش، اطلس و دیبا کے لباس، سونے چاندی کے مکانات، پھلوں سے لدے باغات، دودھ اور شہد کی نہریں ہیں اور طرح طرح کے کھانے، خوان سجائے، ساغر وجم تھامے، قطاروں میںاستقبال کے لیے کھڑے ہیں۔ ہے کوئی جو اس پکار پر کان دھرے؟
’’رمضان میں اللہ جل شانہ متوجہ ہوتا ہے اپنی رحمت خاص نازل فرماتا ہے، خطاؤں کو معاف فرماتا ہے۔ دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔ تمہارے تنافس کو دیکھتا ہے اور فرشتوں پر فخر کرتا ہے۔ پس اللہ کو اپنی نیکی دکھاؤ، بدنصیب ہے وہ شخص جو اس مہینے میں اللہ کی رحمت سے محروم رہ جائے۔‘‘ (طبرانی)
یعنی وہ مالک ارض و سما عطا کرنے کو بے تاب ہے، فرشتوں سے بھی یہ کہتا ہے کہ دیکھو میرے بندوں کا تنافس، یعنی میرے بندے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ وہ میرے قرب کے لیے بے تاب ہیں۔ وہ میرے دامن سے چمٹ جانے کے لیے ایک دوسرے سے مسابقت کررہے ہیں اور ایسا ہوتا ہے کہ
کوئی زیادہ قرآن پڑھ لیتا ہے۔
کوئی زیادہ ذکر ودعا کرلیتا ہے۔
کوئی انفاق میں آگے بڑھ جاتا ہے۔
کوئی دوسروں کو دین سکھانے میں رات دن لگادیتا ہے۔
کوئی خدمت خلق میں بازی لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔
جنت کے تو سارے دروازے کھلے ہیں۔ ہر دروازے کی طرف مومنین کی دوڑ لگی ہے اور اپنے بندوں سے بے انتہا محبت کرنے والا اللہ پیار، محبت شوق سے بے حد و حساب نعمتیں آگے رکھے اپنے پیارے بندوں کو دیکھ رہا ہے۔ کون کس دروازے سے اس کی طرف ان نعمتوں اور انعامات کی طرف آتا ہے! بھلا کوئی اس سے بدنصیب بھی ہوگا جو منہ دوسری طرف پھیر کر کھڑا ہو۔ جو دنیا کی چند روزہ زندگی میں ہی مگن ہو اور اس کے کان اس کی پکار سے بہرے ہوں، اس کے دل کے سوتے بند ہوں، اس کی آنکھیں اس محدود زندگی سے آگے نہ دیکھ سکتی ہوں۔ نہ رمضان کی حقیقت سمجھے نہ قدر کرے، نہ محنت کرے۔ دنیا میں اس بچے سے زیادہ بدنصیب کون ہوتا ہے جس کی ماں اس کے لیے باہیں پھیلا کر بیٹھی ہو مگر اسے صرف کھلونے مطلوب ہوں اور ماں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھے۔ بہت کوشش کے بعد ماں کہے گی دفع ہو جا، اب میری طرف نہ آنا۔ دکھی ہو جائے گی، ناراض ہوجائے گی۔
لیکن اللہ تو بار بار بلاتا ہے۔ ہر سال بلاتا ہے۔ طرح طرح سے ترغیبات دیتا ہے۔ شاید بندوں کے دل میں کوئی بات اترجائے۔ اجراتنا برھا دیا کہ ’’نفل کا اجر فرض کے برابر اور فرض کا اجر ستر فرضوں کے برابر۔‘‘ (متفق علیہ)
آج کی دنیا میں لوگ ’سیل‘ کے لفظ سے اچھی طرح واقف ہیں۔ جہاں دکاندار مال کی قیمتیں کم کردیتے ہیں۔ بہت بڑی سیل ہو تو ایک کی قیمت میں دو اشیاء دے کرکہتے ہیں لوٹ سیل۔
کسی نے سوچا ایک کے بدلے ستر؟ کوئی تصور کرسکتا ہے؟ ایک ہزار کا صدقہ دو، ستر ہزار کا اجر لو۔ ایک نیکی کرو ستر کا بدلہ پاؤ۔ چار رکعت فرض نماز ادا کرو 280 نمازوں کا اجر پاؤ، ایک تسبیح 100 کلمہ طبیہ کی کرو 7000 کا اجر پاؤ۔ اور خود روزہ، اس کے اجر کی تو کوئی حد ہی نہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’ابنِ آدم کا ہر عمل اس کے لیے کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے یہاں تک کہ ایک نیکی دس سے سات سو گنا تک بڑھائی جاتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزے کا معاملہ اس سے جدا ہے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا دوں گا۔‘‘ (متفق علیہ)
اس سے مراد یہ ہے کہ روزے کے اجر کی کوئی حد مقرر نہیں ہے اور اللہ تعالیٰ جس قدر چاہے گا روزہ دار کو اس کا اجر دے گا۔ مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ روزے کی بے حدو حساب جزا دے گا جتنے گہرے جذبے اور اخلاق کے ساتھ روزہ رکھیں، اللہ تعالیٰ کا جتنا تقویٰ اختیار کریں گے، روزے سے جتنے کچھ روحانی و دینی فوائد حاصل کریں گے اور پھر بعد کے دنوں میں بھی ن کے فوائد کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کی جزا بڑھتی چلی جائے گی۔ (کتاب الصوم:ص 33)
اے اللہ کے بندو! اللہ نے ان ساری چیزوں کی سیل لگادی ہے، رمضان میں مفت میں مل رہی ہیں۔ رحمت، مغفرت اور آتش دوزح سے رہائی کا مہینہ بنادیا ہے۔ نیک ہیں تو پہلے دس دن میں ہی اس کی رحمتوں کے دریا سے سیراب ہوجائیں گے۔ کچھ گناہ نامہ اعمال میں ہیں تو دس دنوں کی عبادت اگلے عشرہ میں اس کی مغفرت کا حقدار بنادے گی۔ زیادہ گناہ گار ہیں تو بیس دن کی محنت و ریاضت اور عبادت تو ضرور ہی آتش دوزخ سے رہائی پانے والے گروہ میں داخل کردے گی اور آخری دن گزرنے تک جنت کا کوئی دروازہ پکار رہا ہوگا، ان شاء اللہ!