گردشِ لیل و نہار، خالقِ کائنات کی اتباع میں مصروف، ہر سال ماہِ صیام رحمتیں، برکتیں اور سعادتیں لیے ہوئے جلوہ گر ہوتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے رخصت ہوجاتا ہے، یہ عمل تاقیامت چلتا رہے گا۔ اس سال بھی ماہِ صیام آیا تھا اور آئندہ بھی ضرور آئے گا۔ لیکن آنے والے سال کون باقی رہے گا، اور کون دنیا سے رخصت ہوجائے گا، اس کا کسی کو علم نہیں۔ جب تک ماہِ صیام جلوہ گر تھا، مسلم معاشرہ میں ہر طرف نیکی کا بول بالا تھا، خیر خیرات کا سیلِ رواں جاری تھا۔ محتاجوں،مسکینوں اور ضرورتمندوں پر عنایتوں کی گویا بارش ہورہی تھی، فضائیں حمدِ الٰہی، درود وسلام اور تلاوتِ قرآن مجید کی آوازوں سے گونج رہی تھیں۔ ماہِ صیام کی برکت کی وجہ سے بازاروں کی رونق میں اضافہ ہوگیاتھا اور بعض لوگ نیکیوں اور رحمتوں کے بجائے روپیہ پیسہ کمانے میں مشغول بلکہ گم ہوگئے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے ماہِ صیام کے روزوں کا مقصد بتایا ’’تاکہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو۔‘‘ سوال یہ ہے کہ ہم لوگوں نے اپنے اندر یہ صفت کس قدر پیدا کی؟ ہم لوگوں نے کتنے ناجائز اور گناہ کے کاموں کو ترک کیا اور ظلم وزیادتی اور ناانصافی سے ہم نے کتنی توبہ کی اور آئندہ کے لیے ان سے بچنے کا کتنا مضبوط ارادہ کیا؟ اگر ہم نے اپنے اندر تقویٰ کی بیٹری کو پھر پوری طرح چارج نہیں کیا، گناہوں سے توبہ نہیں کی اور آئندہ کے لیے نیکی کے راستے پر چلنے اور برائی کی راہ سے بچنے کا پختہ عزم نہیں کیا تو یہ رمضان ہمارے لیے پتھر کی چٹان پر برسات سی ثابت ہوگا، جس پر بارش کے باوجود کوئی پودا نہیں اگ سکتا۔
سورج روز طلوع ہوتا ہے اور اپنے ساتھ یہ خبر بھی لاتا ہے کہ فلاں شخص کا انتقال ہوگیا۔ فلاں کی حادثہ میں موت ہوگئی۔ فلاں کا قتل ہوگیا۔ یہ اور اس نوع کی خبریں ہم چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے پڑھتے ہیں ، ٹیلی ویژن پر دیکھتے ہوئے تبصرے کرتے ہیں لیکن کون ہے جو ایسے موقع پراپنی موت کو بھی یاد کرتا ہو۔ جس کو اپنی موت کا بھی خیال آتا ہو اور وہ اپنے انجام کو یاد کرکے لرز جاتا ہو اور رمضان کے مہینے کو یہ سوچ کر گزارے کہ کیا پتہ آئندہ سال یہ ماہِ مبارک حاصل بھی ہو یا نہیں۔ اپنے ہاتھوں سے جنازے اٹھاتے ہیں، میت کو غسل دیتے ہیں، قبر میں اتارتے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں اپنے انجام سے بے خبر رہتے ہیں۔ انجان بنتے ہیں گویا ان کی موت ان کو اطلاع دے کر آئے گی!
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جب قیامت قائم ہوجائے گی اور سارے انسان جمع کردیے جائیں گے تو کوئی آدم کا بیٹا اس وقت تک اپنی جگہ سے ہٹ نہیں سکے گا جب تک وہ پانچ سوالوں کے جواب نہ دے دے:
(۱) زندگی کیسے گزاری؟
(۲) جوانی کیسے گزاری؟
(۳) مال کہاں سے کما یا؟
(۴) مال کہاں خرچ کیا ؟ اور
(۵) جو کچھ علم حاصل کیا تھا، اس پر کہاں تک عمل کیا؟
یہ وہ سوالات ہیں، جن کی بنیاد پر ہر انسان کی ابدی زندگی کا فیصلہ ہونے والا ہے۔ ہر شخص کو ان سوالات کی روشنی میں خود کی زندگی کا جائزہ لینا چاہیے۔ کسی نے کہا تھا کہ زندگی برف کی مانند ہے جو بلا انتظار کے پگھلتی چلی جاتی ہے۔ دن تیزی سے ہفتے، مہینے اور سالوں میں تبدیل ہوتے ہیں۔ زندگی بچپن، جوانی اور بڑھاپے میں تبدیل ہوجاتی ہے، کیونکہ وقت کسی کی رعایت نہیں کرتا اور زندگی کسی سے وفا نہیں کرتی۔ زندگی اللہ کی ہے، بیش بہا نعمت ہے لیکن ایمان و اسلام اس سے بڑی نعمت ہیں۔ یقینا زندگی کے کچھ لوازمات، دنیا کی چمک دمک، خواہشات اور تمناؤں کا طوفان، مال و اسباب اور سونے چاندی کے ڈھیر انسان کو اپنی طرف راغب کرتے رہتے ہیں، لیکن کامیاب انسان وہ ہے ، جو خالقِ کائنات کی مرضی کے مطابق زندگی بسر کرے۔
ماہِ صیام کے روز و شب ہر مسلمان کو مسلسل یہی یاددہانی کراتے رہتے ہیں کہ تمہاری خواہش اور مرضی بے وقعت ہے اور تمہیں صرف اللہ اور اس کے رسولؐ کی مرضی اور حکم کے مطابق زندگی بسر کرنی چاہیے۔ رمضان کے بعد والے ایام میں مومن اور مسلم کا امتحان سخت ہوجاتا ہے اسے اپنے نفس پر کنٹرول کرنے میں دشواری پیش آتی ہے لیکن درحقیقت یہی دشواری آخرت کی کامیابی کی کلید ہے۔ جو لوگ نفس اور خواہش کو اللہ کی مرضی کے تابع کرلیتے ہیں، وہی دراصل اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے محبوب ہیں، کاش! امتِ محمدیہ اس راز کو جان لیتی۔