رمضان زندگیوں میں تنوع اور تبدیلی لانے کا نام ہے۔ خلاف معمول سونے، جاگنے، کھانے اور آرام کرنے کے اوقات بدل جاتے ہیں۔ آفس جانے یا کاروبار پر جانے کے اوقات بدل جاتے ہیں۔ تنوع اس لحاظ سے بھی کہ کسی دن مسجد میں تقریر، کسی دن افطار پارٹی، کسی دن زکوٰۃ جمع کرنے کے لیے نکلنا، لوگوں سے خوشگوار ملاقات۔ غرض یہ سب ایام معدودات کچھ دنوں کے لیے ہیں۔ رمضان میں جو چیزیں ہم نے پائیں وہ حسب ذیل ہیں:
(۱) کچھ مشقتیں:
بھوکے پیاسے رہنا، رات میں اٹھنا اور کچھ لمبی نمازیںپڑھنا، کچھ دن اعتکاف کرنا یہ سب خلاف معمول ہیں۔ آخرت کی کامرانی کی خاطر دنیا میں مشتقوں کو جھیلنا پڑتا ہے۔ انبیا اور صحابہ کی زندگیوں میں مستقل مشقتیں تھیں۔ رمضان ہمیں آرام پسندی اور عافیت کوشی کی بیماری سے نجات دلاتا ہے۔ بعد ازاں یہ ہماری عادت بن جانی چاہیے۔
(۲)اطاعت کا عادی:
رمضان نے ہمیں اطاعت کا عادی بنایا اور حاجات کا تارک بنایا۔ رمضان کے اجتماعی روحانی ماحول نے ہمیں طاعت کے معاملے میں شوق اور ولولہ دیا۔ خدا اور رسولؐ کی تعلیمات کو جاننے اور عمل کرنے کاجذبہ جوان ہوا۔ اس کے برعکس معصیت اور گناہوں کو بھی ہم نے چھوڑا۔ مثلاً جھوٹ، غیبت، غصہ، اور فلم بینی وغیرہ سے پرہیز کرتے رہے۔ اطاعت کے معاملے میں ادنی حدود بتادئے گئے اعلیٰ حدود کی طرف بڑھنا ہمارے ذوق و شوق پر منحصر ہے۔ حوصلہ والوں کے لیے نیکیوں کا وسیع میدان کھلا ہے۔ نمازوں کے معامکے ادنیٰ حد یہ ہے کہ پنچگانہ پابندی سے پڑھیں۔ اعلیٰ حد یہ ہے کہ تہجد، سنن، نوافل، چاشت، اشراق، صلوۃ التسبیح، صلوٰۃ الحاجۃ، صلوٰۃ الشکر وغیرہ کا التزام کریں۔ اس طرح کم سے کم روزوں کی تعداد ۲۹ یا ۳۰ ہے۔ پھر حسب توفیق عرفہ، عاشورہ وغیرہ کے روزوں کا اہتمام کی کوشش ہونی چاہیے۔ زکوٰۃ کے علاوہ صدقات کی کوئی حد متعین نہیں۔
(۳) ریہرسل:
کرکٹ میچ اور سیریز کے شروع ہونے سے قبل کھلاڑیوں کے لیے ریہرسل لازم ہوتا ہے۔ وہ کچھ دن اچھلنے، کودنے، پھسلنے، گرنی، پلٹنے، پھینکنے، بھاگنے، گیند پکڑنے کی مشق کرتے ہیں۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جو کچھ سیکھا اسے میچ کے دوران عملاً برتیں ورنہ مشق کا کورس بیکار ہے۔ اسی طرح رمضان ایک ریہرسل یعنی مشق کا مہینہ ہے۔ اس میں جن نیکیوں کو اختیار کرنے اور جن برائیوں کو ترک کرنے کی مشق کی گئی وہ صرف رمضان تک کے لیے نہیں بلکہ بعد رمضان زندگیوں میں ان کو جاری کرنا ہے۔ ورنہ ساری محنت رائیگاں جائے گی۔
(۴) چھوٹی چھوٹی نیکیاں:
رمضان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں مسلمان چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی وزنی سمجھ کر اور کثیر اجر کی خاطر کرتا ہے۔ یہ اسلامی مزاج ہے کہ مسلمان صرف فرائض کا پابند اور کبائر سے ہی اجتناب نہیں کرتا بلکہ چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو بھی وہ اہمیت دیتا ہے’’چونکہ قطرہ قطرہ مل کر دریا بن جاتا ہے‘‘ مثال کے طور پر سحری کا آخری وقت میں کھانا افضل ہے، افطار میں جلدی کرنا افضل ہے، افطار کھجور سے کرنا افضل ہے، کسی کو ایک گھونٹ پانی سے افطار کرادینا ثواب کا کام ہے۔ یہ اور اس طرح کی سرگرمیوں سے اسلامی مزاج بنتا ہے کہ کسی نیکی کو حقیر نہ سمجھیں کسی گناہ کو ہلکا نہ سمجھیں۔
رمضان اپنے دامن میں یہ سب کچھ لایا۔ اس سے استفادہ کی غرض سے امید کہ آپ نے منصوبہ بندی بھی کی ہوگی۔ گذشتہ شمارہ میں ’’رمضان کی منصوبہ بندی‘‘ میں دئے گئے خاکے کے مطابق کچھ خامیوں کو منتخب کرکے دور کرنے کی سعی ہوئی ہوگی۔ اس طرح خوبیوں میں اضافہ کی شعوری کوشش، مواساۃکا جذبہ پیدا کرنا یقینا خوش کن ہوگا۔ اب رمضان کے بعد کیا کریں؟ یہ سوال عموماً ذہنوں میں ہوتا ہے۔ اس کا جواب یہی ہے کہ بقیہ گیارہ مہینوں کی پھر منصوبہ بندی کریں۔ کسی طاق رات تھوڑی دیر بیٹھ جائیں۔ آخرت کی کامیابی کا تصور ذہن میں جمائیں۔ اس دنیا کی بے بساطی کو یاد کریں، قبر کا طویل مرحلہ یاد کریں جہاں یہ گھر بار، یہ شوہر یہ بچے، یہ زیور یہ کراکریز ساتھی نہیں ہوں گے، بلکہ ہمارے اعمال صالحہ ہمارے غمخوار و مونس ہوں گے۔ ہماری نمازیں، ہماری تلاوت، ہمارے صدقات ہمارے آگے پیچھے دائیں بائیں ہمارے قبر کے ساتھی ہوں گے۔ ان تصورات کے پس منظر میں آئندہ گیارہ مہینوں کے لیے ایک حقیقت پسندانہ منصوبہ بنائیں۔ اس منصوبہ کو اپنی الماری یا اپنے ٹیبل کے سامنے چسپاں کردیں تاکہ ہر دن یہ یاد دہانی کرائے۔
روحانی و دینی لحاظ سے ترقی کرنے کے لیے کچھ اعمال کو معمولات بنانا ہوں گے۔ اور کچھ عادات کو ترک کرنا ہوگا۔ صحت کے لیے ضروری ہے کہ کچھ کو معمول بنائیںاور کچھ عادات کو ترک کریں۔ ایک ماہر ڈاکٹر کی ہدایت ایسی ہی ہوتی ہے کہ ترکاری سبزی اور پھل زیادہ استعمال کریں، پانی خوب پئیں، مگر ساتھ ساتھ ٹماٹر، بیگن استعمال نہ کریں تب چل کر آئندہ پتھری کی شکایت نہیں ہوگی۔ بالکل اسی طرح درست تربیت خدمت کے ضمن میں بعض امور اپنا کر ان کاموں کا انجام دینا ہے۔ اس طرح لغو، گپ شپ، یار دوستو کی محفلیں، ٹی وی بینی، چیس اور کیرم وغیرہ جیسے امور کو ترک کرنے سے نیکی کی راہ میں آگے بڑھنے کے لیے وقت مل سکتا ہے۔ خدا تعالیٰ ہمیں اپنی اصلاح کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین۔