رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ اس کے آتے ہی مسجدوں میں نمازیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے۔ مسلم محلوں اور علاقوں میں عام دنوں کے مقابلہ چہل پہل، بھیڑ بھاڑ اور بازاروں کی رونق دو چند ہوجاتی ہے۔ بچوں، نوجوانوں اور بزرگوں میں روزہ رکھنے کی خواہش اور شوق انہیں دن بھر بھوک پیاس سے روکے رکھتا ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ ہمارے رب نے ہمیں اس مہینے میں روزہ رکھنے کی تلقین کی ہے۔ فرمایا:
من شہد منکم الشہر فلیصمہ۔
’’جس کسی کو بھی یہ مہینہ ملے وہ اس کے روزے ضروررکھے۔‘‘
روزہ دراصل جسم انسانی کی زکوٰۃ اور اہلِ ایمان کے لیے یک ماہی خدائی تربیتی کورس ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لکل شیٔ زکوٰۃ۔ وزکوٰۃ الجسد الصوم۔ والصیام نصف الصبر۔
’’ہر چیز کی زکوٰۃ (گندگی سے پاک کرنے والی چیز) ہے۔ جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔ اور روزہ آدھا صبر ہے۔‘‘
رسول کریمﷺ کے قول کے مطابق روزہ انسانی جسم اور روح کو ہر قسم کی گندگی اور غلاظت سے پاک کرنے والا ہے۔ اور یہ پاکی جسمانی، مادی اور طبی بھی ہے جس پر ماہر اطباء بہت کچھ لکھ اور کہہ چکے ہیں اور یہ پاکی روحانی بھی ہے۔ اس طرح کہ روزہ دار کو روزہ کی حالت میں غلط سوچنے، برا کام کرنے اور غلط بات کہنے تک سے روکا گیا ہے۔ لڑائی جھگڑے، تلخ کلامی اور گالم گلوچ، فحش گوئی اور شور و ہنگامہ سے بھی باز رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اور اس عمل کو مسلسل ایک ماہ تک طویل کیا گیا ہے کہ انسانی زندگی ان برائیوں سے اجتناب کی عادی ہوجائے۔
حضور کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’روزہ (شیطان اور شیطانی کاموں سے بچنے کی) ڈھال ہے۔ جب تم میں سے کوئی روزہ سے ہو تو نہ وہ زبان سے گندی بات نکالے نہ شوروہنگامہ کرے۔ اگر کوئی اس سے گالم گلوچ کرے یا لڑائی پر آمادہ ہو تو روزہ دار کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں (اور بدکلامی و لڑائی جھگڑا نہیں کرسکتا)۔‘‘
دوسری طرف اللہ کے رسول نے خبردار کیا کہ اگر انسان رمضان کے مہینے اور روزہ کی حالت میں بھی اپنی اصلاح و تربیت، خود کو برائیوں بچانے اور برے کاموں سے باز رکھنے میں ناکام رہا تو اس نے روزہ کا مقصد پورا نہیں کیا اور کیونکہ اس نے روزہ کا مقصد پورا نہیں کیا اس لیے، اس کا روزہ رکھنا بے کار ہے اور وہ محض بھوک پیاس ہی برداشت کررہا ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو خبردار کیا:
’’جس شخص نے (روزہ کی حالت میں بھی) جھوٹ بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ تعالیٰ کو اس بات کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا ترک کردے۔‘‘
پھر فرمایا کہ:
’’جس نے ایمان اور احتساب کے ساتھ اس ماہ کے روزے رکھے اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے گئے۔‘‘
انسانی زندگیوں کو برائی سے پاک کرنے اور نیکیوں کا خوگر اور طلب گار بنانے کی غرض سے ہی روزہ فرض کیا گیا اور یہ کوئی نئی عبادت نہیں جو صرف امت محمدیہ پر ہی فرض کردی گئی ہو بلکہ اللہ تعالیٰ پچھلی امتوں کی اصلاح و تربیت اور جسمانی و روحانی تزکیہ کے لیے روزہ فرض کرتا رہا ہے۔ وہ کہتا ہے:
’’لوگو! تم پر روزے فرض کیے گئے جس طرح پچھلی امتوں پر فرض کیے گئے تھے۔‘‘
حضرت محمد ﷺ اس مہینے کی آمد سے پہلے ہی ہشیار اور تیار ہوجاتے کہ اس ماہ میں کس طرح زیادہ سے زیادہ عبادات، نیکیاں اور خیر کے کام انجام دیں۔ آپ اپنے احباب کو بھی ذہنی اور عملی طور پر اس ماہ کے استقبال کے لیے تیار کرتے تھے۔ نوافل کا اہتمام قرآن کریم سے دلچسپی اور اس کی تلاوت، صدقہ خیرات اور غریبوں اور کمزوروں کی مدد و حاجت روائی اس ماہ کی خاص سرگرمیاں تھیں جو حضور ﷺ انجام دیتے۔ ایک حدیث میں آپ نے اس ماہ کو صبر اور لوگوں کے ساتھ ہمدردی و ’’مواسات‘‘ کا مہینہ قرار دیا۔ ہمدردی اور مواسات کا مہینہ قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ غریبوں، کمزوروں اور حاجت مندوں کی مالی امداد کریں اور زکوٰۃ ہی نہیں بلکہ دیگر صدقات اور انفاق فی سبیل اللہ کے جذبہ کے تحت خرچ کریں۔
آپ نے امت کو آگاہ کیا کہ اس ماہ میں نیک کاموں کا اجر عام دنوں کے مقابلے ستر گنا بڑھ جاتا ہے چنانچہ اہلِ اسلام کو ترغیب دلائی کہ وہ زیادہ سے زیادہ نیکیوں کی طرف راغب ہوں۔
رمضان المبارک کے پورے مہینے کو آپ نے تین عشروں میں تقسیم فرماتے ہوئے کہا کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت ہے، دوسرا عشرہ مغفرت ہے اور تیسرا عشرہ جہنم کی آگ سے نجات کا ذریعہ ہے۔ پورے ماہ رمضان اور اس کی جملہ عبادات کی جان وہ رات ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا اور جسے ’لیلۃ القدر‘ کہا گیا ہے۔ اس رات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا:
لیلۃ القدر خیر من الف شہر۔
’’لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے افضل اور برتر ہے۔‘‘
پھر حضرت نبیﷺ نے اس رات کے بارے میں آگاہ کیا کہ اس رات کو آخری عشرہ کی طاقت راتوں ۲۱، ۲۳، ۲۵، ۲۷، ۲۹ میں تلاش کرو۔
وہ لوگ یقینا خوش نصیب ہیں جو اس عظیم و برتر رات کو تلاش کرتے اور اس میں عبادت و دعاؤں میںمشغول رہتے ہیں۔ خود حضور اکرمﷺ کا معمول یہ ہوتا تھا کہ وہ رمضان کی ان راتوں میں خاص طور پر عبادت میں مشغول رہتے۔
رمضان کے روزے کا مقصد اہلِ ایمان کی زندگیوں کا تزکیہ اور ان کو برائیوں سے پاک کرکے نیکیوں کا طلب گار بنانا ہے۔ لیکن اگر انسان اس ماہ مبارک کے روزے رکھنے کے بعد بھی نیکیوں کا خوگر نہ ہوا اور آنے والے دنوں میں بھی اس نے اپنے آپ کو برائیوں سے بچائے رکھنے کی اسی طرح کوشش جاری نہیں رکھی جس طرح روزہ کے دنوں میں کرتا تھا تو گویا اس نے اس تزکیہ کے ایک ماہی کورس سے کچھ حاصل نہ کیا۔
اس سے زیادہ محروم انسان کون ہوسکتا ہے جس کو رمضان کا مہینہ ملا اور وہ اپنے رب سے اپنے گناہ معاف نہ کراسکا۔ اور اس سے زیادہ ناکام کون ہوگا جس نے مہینہ بھر کے اعمال کی برکتوں اور اس کے اثرات کو اس ماہ کے رخصت ہوتے ہی رخصت کردیا۔
ہمارے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ ہم کس طرح رمضان المبارک کی روحانی اسپرٹ آنے والے گیارہ مہینوں تک باقی رکھیں۔ اگر یہ موضوع غوروفکر نہیں تو پھر شاید وقت گزرجانے کے بعد ہم محروم لوگوں میں ہوں۔