عام طور پر غیر مسلموں کے درمیان اسلام کے تعلق سے یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ مسلمان جاہل اور اکھڑ ہوتے ہیں، ان کے یہاں نظم و ضبط نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ بے سلیقہ ہوتے ہیں۔ اسی قسم کے بعض اعتراضات کا جواب سعودی عرب کے معروف عالمِ دین ڈاکٹر یحییٰ الیحییٰ ایک ٹی وی چینل پروگرام میں دے رہے تھے۔ اس ضمن میں انھوں نے ایک واقعہ سنایا:
٭’’ایک امریکی جو یہ سمجھتا تھا کہ مسلمان غیر منظم اور ڈسپلن سے عاری قوم ہیں، اس کو بعض مسلمان داعیوں نے حرم مکی کا روح پرور منظر دکھایا۔ اس وقت نماز کا وقت قریب ہونے کی وجہ سے پورا حرم نمازیوں سے بھرا ہوا تھا۔ ان حضرات نے اس امریکی شخص سے پوچھا: ’’اچھا بتاؤ، تمہارے خیال میں اتنے بڑے مجمع کو صف بندی کرنے میں کتنا وقت لگے گا؟‘‘
اس نے کہا: ’’دو سے تین گھنٹے تو لگ ہی جائیں گے۔‘‘
’’تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حرم کی عمارت کے چار دروازے اور ہر دروازے سے لوگوں کا تانتا لگا ہوا ہے؟‘‘ لوگوں نے اندازہ لگانے میں اس کی مدد کرتے ہوئے کہا:
’’پھر تو بارہ گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں۔‘‘ امریکی نے جواب دیا۔
ان لوگوں نے کہا کہ یہاں پر موجود تمام لوگوں کی زبانیں بھی مختلف ہیں۔ کوئی ایک دوسرے کی زبان نہیں سمجھتا۔
یہ جان کر امریکی نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا: ’’پھر تو ان کی صف بندی ناممکن ہے۔‘‘
عین اسی وقت نماز کا وقت ہوگیا۔ امام حرم شیخ سدیس مصلّے پر تشریف لائے اور گویا ہوئے ’’استووا…‘‘ (یعنی صفیں سیدھی کرلیں …) اور یہ بات بھی انھوں نے صرف عربی زبان میں کہی۔
چند سیکنڈ بھی نہیں لگے کہ سیدھی اور منظم صفیں قائم ہوگئیں۔ امریکی سے یہ منظر دیکھ کررہا نہیں گیا اور اس نے اسی وقت اسلام قبول کرلیا۔
٭یہ ایک اسپینی نسل کے امریکی نوجوان کا واقعہ ہے۔ نمازِ فجر کے بعد کا وقت تھا کہ امریکی بروکلین کی ایک مسجد میں یہی امریکی نوجوان داخل ہوا۔ اس وقت کچھ مسلمان مسجد میں موجود تھے۔ اس شخص نے ان لوگوں سے کہا کہ ’’میں اسلام قبول کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ انھوں نے فوراً اس کی رہنمائی کی۔ وہ نوجوان غسل کرکے آیا اور ان لوگوں کی ہدایت کے مطابق کلمۂ شہادت پڑھ لیا۔ اسے انھوں نے نماز کا طریقہ بھی سکھایا۔ پھر اس نے اتنے خشوع سے نماز پڑھی کہ خود اہلِ مسجد بھی اس کا خشوع دیکھتے رہ گئے۔
اسلام قبول کیے ہوئے تین روز ہوچکے تھے کہ ایک مسلم بھائی اس سے تنہائی میں ملا اور بولا: ’’میرے بھائی! اللہ کے واسطے مجھے اپنے بارے میں بتاؤ، تم نے اسلام کیوں قبول کیا ہے؟‘‘
اس نوجوان نے اپنی داستان اس طرح سنائی: ’’میں ایک عیسائی کی حیثیت سے پلا بڑھا ہوں۔ حضرت مسیحؑ سے مجھے بہت قلبی تعلق رہا ہے۔ لیکن میں عیسائیوں کے احوال دیکھتا تھا تو مجھے ایسا لگتا تھا کہ یہ لوگ حضرت مسیحؑ کے اخلاق اور ان کی تعلیمات سے بہت دور ہیں۔ ان کی یہ حالت دیکھ کر میں نے دوسرے مذاہب کا مطالعہ شروع کیا۔ نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اسلام کے لیے میرا سینہ کشادہ کردیا۔ جس روز میں آپ لوگوں کے پاس قبولِ اسلام کے لیے آیا تھا۔ اس دن سے پہلی والی رات کا واقعہ ہے کہ میں مذہب کے متعلق بہت غوروفکر کررہا تھا کہ مجھے نیند آگئی۔ خواب میں مسیح علیہ السلام میرے پاس آئے اور مجھ سے مخاطب ہوکر اور اپنی انگلی سے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بولے: ’’تم محمد کے امتی بن جاؤ۔‘‘
نیند سے بیدار ہوتے ہی میں فوراً اٹھا اور مسجد کی تلاش میں نکل پڑا اور اللہ تعالیٰ نے مجھے مسجد تک پہنچادیا تو میں اسی مسجد میں داخل ہوگیا جہاں آپ لوگوں سے ملاقات ہوگئی۔‘‘
اس مختصر سی گفتگو کے تھوڑی دیر بعد ہی عشا کی اذان ہوگئی۔ دیگر نمازیوں کے ساتھ یہ نوجوان بھی باجماعت نماز میں شامل ہوگیا۔ پہلی رکعت مکمل ہوئی۔ سب لوگ سجدے میں چلے گئے۔ امام نے اللہ اکبر کہتے ہوئے سجدے سے سر اٹھایا تو بقیہ نمازی بھی کھڑے ہوگئے لیکن یہ نوجوان سجدے ہی میں پڑا رہا۔ اس کے برابر والے نمازی نے اسے حرکت دی، لیکن وہ اٹھنے کے بجائے ایک جانب کو گرگیا۔ نمازی سمجھ گئے کہ اس کی روح عزیز و قدیر اللہ کی جناب میں پرواز کرچکی ہے۔
٭ ایک صاحب نے اپنا واقعہ سنایا کہ ایک ہسپتال میں اس کا گزر ایک ایسے مریض کے پاس سے ہوا جس کا پورا جسم مفلوج تھا۔ اس کے جسم کا کوئی بھی عضو حرکت نہیں کرسکتا تھا۔ میں اس کے قریب گیا تو دیکھا اس کے سامنے لکڑی کی ایک رحل رکھی ہے اور اس کے اوپر قرآن کھلا ہوا رکھا ہے۔ کئی گھنٹوں سے اس مریض کی کیفیت یہی تھی کہ قرآن کے اسی کھلے ہوئے ورق کی تلاوت کررہا تھا۔ ایک بار مکمل کرنے کے بعد دوبارہ اسی ورق کو پڑھنے لگتا، کیونکہ وہ دوسرے کی مدد کے بغیر ورق نہیں پلٹ سکتا تھا۔
میں اس کے پاس آکر کھڑا ہوگیا تو اس نے مجھ سے درخواست کرتے ہوئے کہا: ’’اگر آپ کو زحمت نہ ہو تو ذرا ورق پلٹ دیں۔‘‘ میں نے ورق پلٹ دیا تو اس کا چہرہ کھل اٹھا اور دوبارہ قرآن کی طرف نظریں کرکے تلاوت میں منہمک ہوگیا۔ یہ منظر دیکھ کر اس شخص کے سامنے ہی میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ مجھے اس کے جذبہ شوق پر حیرت اور اپنی غفلت پر افسوس ہورہا تھا۔
٭ عمران بن حطان نکاح ہوجانے کے بعد، شادی کی رات اپنی بیوی کے پاس پہنچے۔ عمران بن حطان کو اللہ تعالیٰ نے بدصورت اور پستہ قد پیدا کیاتھا۔ لیکن ان کی بیوی انتہائی حسین و خوبصورت تھی، عمران بن حطان نے جب اپنی بیوی کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھا تو وہ اور بھی زیادہ حسین و جمیل نظر آئی کہ وہ بیوی کے چہرے پر اپنی نگاہ جما نہیں پارہے تھے۔ شوہر کی حالت دیکھ کر بیوی نے پوچھا: ’’کیا بات ہے؟‘‘
عمران بن حطان نے کہا: ’’اس اللہ کا شکر و احسان ہے جس نے مجھے خوبصورت بیوی سے نوازا۔‘‘
بیوی نے کہا: ’’خوش خبری ہے۔ آپ اور میں دونوں جنت میں جائیں گے۔‘‘
شوہر نے پوچھا: ’’لیکن اس بات کا علم تمھیں کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘
بیوی نے کہا: ’’آپ کو مجھ جیسی بیوی ملی، آپ نے اللہ کا شکر ادا کیا اور مجھے آپ جیسا شوہر عطا کرکے میری آزمائش کی گئی، جس پر میں نے صبر کیا۔ اور صابر وشاکر دونوں کا مقام جنت ہے۔‘‘
٭ یہ واقعہ سعودی عرب کے معروف عالم ڈاکٹر عائض القرنی نے بیان کیا ہے۔ ان سے ایک خاتون نے اپنا واقعہ اس طرح بیان کیا:
’’میں تیس برس کی تھی کہ میرے شوہر نامدار کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت تک میں پانچ بچوں کی ماں بن چکی تھی۔ بیٹے بھی تھے اور بیٹیاں بھی۔ شوہر کے اچانک انتقال سے میری دنیا تاریک ہوگئی۔ میں اتنا روئی کہ مجھے آنکھوں کی روشنی چلے جانے کا ڈر ہونے لگا۔ میں اپنی قسمت کو رونے لگی۔ مایوسی نے میرا ساتھ پکڑلیا اور غم و حزن نے مجھے جکڑ لیا۔ کیونکہ بچے ابھی چھوٹے تھے اور کوئی ایسا ذریعہ آمدنی بھی نہیں تھا کہ گھر کا خرچ اس سے نکالا جاسکے۔ شوہر جو تھوڑا بہت مال ورثے میں چھوڑ گئے تھے اسی سے گھر چل رہا تھا۔
ایک روز میں اپنے کمرے میں بیٹھی تھی۔ قرآن کی تلاوت سننے کے لیے میں نے ریڈیو کھولا تو اس پر کوئی عالم بیان کررہے تھے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص پابندی سے استغفار کا اہتمام کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ پیدا فرمادے گا، ہر غم سے اسے نجات دے گا اور اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں کا اس نے گمان بھی نہ کیا ہوگا۔‘‘ مجھے ایسا لگا جیسے یہ حدیث میں نے پہلی بار سنی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے استغفار کے لیے میرا دل کھول دیا۔ میں خوب خوب استغفار کرنے لگی۔ اپنے بچوں کو بھی میں نے حکم دیا کہ وہ بھی استغفار کرتے رہا کریں۔ اللہ گواہ ہے کہ چھ ماہ بھی نہیں گزرے تھے کہ ہماری ایک قدیم ملکیت، جس سے ہم مایوس ہوچکے تھے، اس کے متعلق ایک منصوبہ ہمارے پاس آیا۔ اس زمین کے عوض ہمیں کئی لاکھ روپے مل گئے۔ میرا بڑا بیٹا علاقے کے تمام طلبہ میں اول آیا۔ اور اس نے مکمل قرآن بھی حفظ کرلیا، جس کی وجہ سے وہ لوگوں کی عنایت و توجہ کا مرکز بن گیا۔ ہمارا گھر خیر اور خوشیوں سے بھر گیا اور ہماری زندگی خوشحال ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ نے میرے بیٹے اور بیٹیوں کا حال بھی درست کردیا اور میری زندگی سے غم و حزن دور ہوگیا۔‘‘
——