روزہ اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات

عذراء زمرود تاریگام، کشمیر

پہلی بات یہ ہے کہ روزہ بندے کو اپنے رب سے جوڑتا ہے اور اس سے وفاداری اور صرف اس کی اطاعت کے جذبے پر دل و دماغ کو قانع اور مستحکم کرتا ہے، اور اس کے اس عہد کی تجدید کی خدمت انجام دیتا ہے کہ بندے کا جینا اور مرنا اور عبادات اور قربانیاں سب صرف اللہ کے لیے ہیں۔ حلال اور حرام کا تعلق صرف اللہ کی مرضی اور حکم سے ہے۔ جو چیز اُفق پر روشنی کی پہلی کرن آنے تک حلال تھی وہ صرف اس کے حکم سے سورج کے غروب ہونے تک حرام ہوگئی اور سورج کے غروب ہوتے ہی پھر حلال ہوگئی۔ یہ وہ عبادت ہے جس کا حقیقی گواہ صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک شخص دوسروں کے سامنے صائم ہوتے ہوئے بھی تنہائی میں کھا پی سکتا ہے مگر صرف اللہ کی خاطر کھانے اور پینے سے جلوت اور خلوت ہر کیفیت میں پرہیز کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود ربِ کائنات نے فرمایا ہے کہ روزہ صرف میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا اجردوں گا۔
اللہ سے جڑنا اور اللہ کی رضا کا پابند ہوجانا اور یہ عہد کرنا کہ ہمیشہ صرف اس کی رضا کا پابند رہوں گا۔ یہ ہے روزے کا پہلا روشن ترین پہلو۔ یہی وہ چیز ہے جو انسان کی زندگی میں نظم و ضبط اور خواہشات پر قابو پانے کی تربیت دیتی ہے اور اسی کیفیت اور رویے کا نام ہے تقویٰ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ روزے کے سبب رمضان کے مہینے کو خاص امتیاز حاصل ہے۔ روزہ ایک مقدس عبادت اور ہماری اخلاقی و روحانی تربیت کا ایک بہترین ذریعہ بھی ہے۔ پھر ہم جانتے ہیں کہ ضبط نفس، فرض شناسی اور تقویٰ کے بغیر اعلیٰ تربیت ایک بے معنی لفظ بن کر رہ جاتا ہے۔ چنانچہ قرآن میں صاف لفظوں میں ارشاد ہوا ہے کہ روزے کا اصل مقصد تقویٰ کا حصول ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo(البقر:183)
’’ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیروؤں پر فرض کیے گئے تھے، اس توقع کے ساتھ کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔‘‘
تقویٰ کا مطلب ہوتاہے احساسِ ذمہ داری، ضبطِ نفس، خدا ترسی، بڑی حقیقت کے پیش نظر چھوٹی چیزوں سے صرفِ نظر کرنا۔ خواہشات سے مغلوب انسان نہ تو خدا کی عظمت اور اس کی بزرگی کا صحیح احساس کرسکتا ہے اور نہ وہ زندگی کی اعلیٰ قدروں اور اعلیٰ حقیقتوں کو محسوس کرسکتا ہے، اور نہ اس کے لیے یہ ممکن ہوتا ہے کہ وہ راہِ خدا پر چل سکے۔روزہ اس حقیقت کا عملی مظاہرہ ہے کہ اکل و شرب اور جنسی خواہشات کی تکمیل ہی پوری زندگی نہیں ہے بلکہ ان کے علاوہ کچھ اعلیٰ حقیقتیں بھی ہیں ، وہی اصل سرمایۂ حیات ہیں۔
اپنی روح اور اسپرٹ کے لحاظ سے روزہ حقیقت میں اس چیز کا نام ہے کہ آدمی کو اپنی خواہشات پر قابو پالے اور اسے تقویٰ کی زندگی حاصل ہو۔ اس کی نگاہیں عفیف ہوں اور اس کی زندگی پاکیزگی اور خدا ترسی کی آئینہ دار ہو۔ روزہ کا مطلب یہ ہے کہ روزے کی حالت میں تو وہ کھانے پینے اور جنسی خواہشات کو پورا کرنے سے باز رہے لیکن گناہوں کے ارتکاب اور ناپسندیدہ کاموں کو ہمیشہ کے لیے ترک کردے۔
روزے کا دوسرا پہلو وہ ہے جس کا تعلق انسان کے لیے اللہ تعالیٰ کی ہدایت سے ہے۔ جن انبیاے کرام ؑ کو کتاب سے نوازا گیا، ان کو یہ کتاب اس حالت میں دی گئی جب وہ روزے سے تھے۔ حضور اکرمﷺپر بھی وحی کا آغاز غارِحرا میں اس وقت ہوا جب آپؐ وہاں مسلسل روزے کی حالت میں ہوا کرتےتھے اور اس مقدس کتاب کا آغاز بھی روزے سے ہوا اور اس کی تکمیل ماہِ رمضان میں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مہینہ دراصل قرآن کا مہینہ ہے اور اس کے شب و روز قرآن سے تعلق کی تجدید، اس کی تلاوت، تراویح میں اس کی سماعت اور اس کے پیغام کی تفہیم اور تلقین کے لیے خاص ہیں۔ قرآن نہ صرف مکمل ہدایت کا حقیقی مرقع ہے بلکہ انگلی پکڑ کر ہدایت کی راہ پر انسان کو گامزن کرنے اور خیروشر میں تمیز کی صلاحیت اور داعیہ پیدا کرنے والی ہدایت ہے۔
ماہ رمضان کی اہمیت اور اس کی معنویت کا اندازہ آپ اس سے کرسکتے ہیں کہ پورا مہینہ ہماری فکری، روحانی اور عملی تربیت کے لیے خاص کردیا گیا ہے۔ پھر تربیت کے لیے ان تمام لوازمات کو بھی ملحوظ رکھا گیا ہے جو ہماری روح کی بالیدگی اور ہماری سیرت کی تعمیر میں معاون ہوتے ہیں۔ رمضان میں ہماری جس تربیت کا اہتمام کیا گیا ہے وہ کوئی ادھوری اور ناقص تربیت ہرگز نہیں ہے۔ اس تربیت سے مطلوب یہ ہے کہ انسان نہ صرف اپنی انفرادی زندگی میں صالح اور نیک بن سکے بلکہ اسے اجتماعیت کا بھی شعور ہو اور وہ اجتماعی تقاضوں کو بھی پورا کرے۔ کیونکہ اس کے بغیر کسی اعلیٰ کردار یا اعلیٰ اخلاق کا تصور ممکن نہیں۔ خدا کے مطلوب اور محبوب انسان وہی ہوسکتے ہیں جو اپنی انفرادی زندگی میں بھی بہترین انسان ثابت ہوسکیں اور جو اجتماعی زندگی سے بھی فرار اختیار نہ کریں۔اس کی وضاحت خود قرآن میں ہے:
شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰن ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِنَ الْھُدٰی وَالفُرقْان فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ (البقرہ: ۱۸۵)
’’رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اتارا گیا۔ لوگوں کی ہدایت کے لیے اور ہدایت اور امتیاز حق و باطل کی دلیلوں کے ساتھ۔ لہٰذا تم میں سے جو کوئی اس مہینہ میں موجود ہو اسے چاہئے کہ اس کے روزے رکھے۔‘‘
ہماری تربیت کے لیے ماہ رمضان کو منتخب کیا گیا، اور اس کا رشتہ واضح طور پر قرآن مجید سے قائم کیا گیا ہے۔ قرآن کے نزول کا مقصد رمضان کے روزوں کے مقصد سے مختلف نہیں ہے۔ قرآن انسانی زندگی کے لیے ہدایت بن کر نازل ہوا ہے، اور اس لیے نازل ہوا ہے کہ لوگ دلائل و بصائر کی روشنی میں حق کو پالیں، اور ان کے اندر حق و باطل میں فرق و امتیاز کرنے کی پوری صلاحیت پیدا ہوجائے۔ وہ کبھی بھی باطل کو حق اور حق کو باطل سمجھنے کی غلطی نہ کریں۔ان کے قدم کسی حال میں بھی غلط راہوں پر نہ پڑیں۔ وہ اتنے بلند ہوجائیں کہ پستیاں انہیں اپنی طرف راغب کرنے میں ناکام رہ جائیں۔ وہ حق کی روشنی کے ایسے قدر شناس ہوں کہ اندھیرے کبھی انہیں اپنے اندر گم نہ کرسکیں۔لہٰذا یہ مہینہ قرآن کا مہینہ ہے اور اس مہینے کا حق یہ ہے کہ ہم پورے شعور کے ساتھ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ قرآن کیا ہے، اس کی اتھارٹی کی کیا حیثیت ہے، اس کی تعلیمات کی نوعیت کیا ہے، اس سے ہمارا تعلق کن بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے اور اس کے پیغام کے ہم کس طرح علَم بردار ہوسکتے ہیں تاکہ اللہ کے انعام کا شکر ادا کرسکیں۔
اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ ایک طرف رمضان کے روزوں کو مکمل کریں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جو ذمہ داری ادا کرنی ہے اور پورے سال بلکہ پوری زندگی ادا کرنی ہے وہ اعلاے کلمۃ الحق ہے، یعنی اللہ کی زمین پر اللہ کے کلمے کو بلند کرنے کی کوشش کریں اور اس طریقے سے کریں جو اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ نے سکھایا اور دکھایا ہے۔
دراصل اسلام کے عطا کردہ نظام عبادت میں جہاں ہر مسلمان کے لئے انفرادی طور پر عبادت و بندگی کے ذریعہ قرب خداوندی پانے کا حکم ہے وہیں اجتماعی طور پر پورے معاشرے میں بندگی و عبادت کے عملی اظہار کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے کہ جس سے افراد معاشرہ میں ممکنہ حد تک توازن پیدا ہو اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل پائے جس میں ہر مسلمان خودی و خودداری کے احساس کے ساتھ زندگی بسر کرسکے۔ اس حوالے سے روزے کے سماجی و معاشرتی اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں جن کا ہم سب مشاہدہ کرتے ہیں۔
ماہ رمضان میں اجتماعیت کی پوری شان پائی جاتی ہے۔ سبھی اہل ایمان ایک ساتھ روزہ رکھتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ عبادت اور نیک کاموں میں مشغول ہوتے ہیں۔ اس سے معاشرہ میں نیکی اور روحانیت کی ایک فضا پیدا ہوجاتی ہے جس کا دلوں پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے۔
اسلام کے راستے کو اختیار کرنے کے بعد زندگی کے کسی شعبے کو خدا کی ہدایت سے آزاد رکھنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ پھر انسان کی انفرادی زندگی اور اس کی اجتماعی زندگی ، خدا کے قانون کی پابند اور اس کی رضا کو تلاش کرنے والی ہوگی۔پھر تمدن کے پورے نظام، یعنی معاشرت، سیاست، معیشت، قانون و عدالت، انتظام و انصرام، ملکی اور بین الاقوامی تعلقات، سب پر خدا کی حکمرانی قائم ہونی چاہیے۔ صرف اپنے اُوپر ہی اس قانون کو جاری و ساری نہیں کرنا، بلکہ پوری انسانیت کو اپنے قول اور عمل سے اس راستے کی طرف دعوت دینا ہے۔ اس کا نام دعوتِ حق ہے جو اسلام میں جہاد ہی کا ایک شعبہ ہے۔ یہی وہ دعوت ہے جس کی طرف قرآن بلاتا ہے۔
قرآن اسی دعوتِ انقلاب کو پیش کرتا ہے، وہ زمانے کے چلن کو تبدیل کرنا چاہتا ہے۔اس کا مقصد ایک انقلاب برپا کرنا ہے۔ دلوں کی دنیا میں بھی انقلاب اور انسانی معاشرے میں بھی انقلاب۔ وہ صالح انقلاب جس کے نتیجے میں خدا سے بغاوت کی روش ختم ہو اور اس کی بندگی کا دور دورہ ہوجائے۔
ہم اُمت مسلمہ کو جس بات کی دعوت دیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اس اُمت کا ہر فرد اس موقعے پر اور بھی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ قرآن کی اصل حقیقت کو سمجھے۔ اس کے مقصد کا حقیقی شعور پیدا کرے۔ اس کے پیغام پر کان دھرے اور اس کے مشن کو پورا کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہوجائے۔
قرآن نے اس اُمت کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی بھی صورت گری کی ہے، اور اسے باقی انسانیت کے لیے خیروصلاح کا علَم بردار بنایا ہے۔
قرآن طاقت کا ایک خزانہ ہے۔ اس نے جس طرح آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے انسانوں کی زندگی بدل کر رکھ دی تھی اور ان کے ہاتھ سے ایک نئی دنیا تعمیر کرائی تھی، اسی طرح آج بھی فساد سے بھری ہوئی دنیا کو تباہی سے بچایا جاسکتا ہے۔
بہرحال اس بابرکت مہنے کا درس یہی ہے کہ آدمی اگر ماہ رمضان کی آمد سے واقعتاً فائدہ اٹھائے تو وہ اسے اس مقام پر کھڑا کردے گا کہ اسے ہمہ وقت اپنی ذمہ داری کا احساس ہوگا۔ پھر تو اس کے شب و روز غفلت اور بے پروائی میں بسر نہیں ہوسکتے۔ وہ خدا کا قرب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا اور بندگان خدا یعنی انسانوں کے حقوق ادا کرنے والا اور ان کا خیرخواہ اس سے بڑھ کر کوئی دوسرا نہیں ہوسکتا۔l

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں