روزہ اور انسانی صحت

رانا ظہیر الدین

قدیم مصری باشندے روزوں سے واقف تھے۔ وہ مخصوص دنوں میں کچھ کھانوں سے اجتناب کرتے تھے تاکہ ان کی صحت برقرار رہے۔ اسی طرح وہ چوپایوں، پرندوں اور مچھلیوں کی حفاظت کے لیے، انھیں ان دنوں میں نہیں کھاتے تھے، جب ان کے تناسل اور بچے نکلنے کے دن ہوتے تھے۔ قدیم مصری اپنے جسموں کو بسیار خوری سے پیدا ہونے والے مفاسد سے بچانے کے لیے ہر مہینے جلاب آور ادویات سے بھی اپنے پیٹ صاف کرتے تھے۔ یہودی اور عیسائی چند مخصوص ایام میں گوشت، انڈے اور دودھ استعمال نہیں کرتے مگر وہ نباتات پر مشتمل غذائیں کھاتے رہتے ہیں۔
اسلام نے یہ تفریق روا نہیں رکھی کہ کچھ کھانے کھائے جائیں اور کچھ نہ کھائے جائیں بلکہ اسلام نے روزہ میں ہر قسم کے کھانے اور پینے سے اجتناب کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسلام کا یہ حکم صحت جسمانی، نفس کو صبر و توکل کی تربیت دینے اور فقر فاقہ کی لذت سے آشنا ہونے کی خاطر اکسیر کا حکم رکھتا ہے۔
ارشادِ ربانی ہے:
’’اے ایمان والو! تم پر روزے اقوامِ گزشتہ کی طرح فرض کیے گئے ہیں تاکہ تم تقویٰ شعار بنو۔‘‘
روزے ماہ رمضان المبارک میں فرض ہیں۔ رمضان کے علاوہ سنت ہیں اور ایامِ عیدین میں حرام ہیں۔ روزہ تمام کھانے پینے اور روزہ توڑدینے والی چیزوں سے فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک بچنے کا نام ہے۔ روزہ رکھنا ہر بالغ مقیم، جسمانی اور عقلی لحاظ سے صحت مند مرد و زن مسلمان پر فرض ہے۔ غیر حائضہ اور غیر نفاس والی عورت پر بھی روزہ رکھنا فرض ہے۔ پیٹ تک پہنچنے والی ہر دوا اور غذا سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔
روزے ایک حکمت بالغہ کے تحت فرض کیے گئے ہیں۔ روزہ صحت بدن، بیداریٔ ذہن اور راحتِ نفس کی ضمانت ہے۔ روزہ دار، روزہ رکھنے سے جسم میں جمع شدہ فضلوں اور تہ در تہ فاسد مواد سے نجات پاتا ہے۔ اس سے جسمانی صحت حاصل ہوتی ہے۔ ذہنی بیداری اس کثیف غذا سے اجتناب کرنے سے ملتی ہے جو خون کو گودے سے پیٹ تک پہنچنے سے روک دیتی ہے۔ نیکی، بھلائی اور تقویٰ کے کاموں میں مشغول ہونے سے راحت نفس حاصل ہوتی ہے۔ ایک شخص کو جب جسمانی تندرستی، ذہنی بیداری اور نفس کی پاکیزگی حاصل ہوجائے تو وہ صحیح معنی میں روزہ کی نعمت کا احساس کرسکتا ہے اور اسے ایمان و یقین کی دولت لازوال ہاتھ آتی ہے۔
مسلمانوں نے جب مقاصد شریعت کو فراموش کردیا تو روزہ کی حکمت بھی ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔ اب ان کا روزہ صرف اتنا رہ گیا کہ وہ رات کے آخری حصے میں پیٹ بھر کر کھاتے ہیں جس سے انھیں بدہضمی ہوتی ہے۔ دن کے آخری حصے میں بھوک اور پیاس برداشت کرتے اور غروب آفتاب کے انتظار میں رہتے ہیں۔ ادھر سورج غروب ہوا اور ادھر یہ کھانے پینے پر ٹوٹ پڑے، حلق تک پیٹ بھرلیے اور اب شب بیداری شروع ہوئی۔
گپ بازی میں مشغول ہیں مگر اس دوران بھی مٹھائیاں کھانے، خشک میوہ جات چبانے اور ٹھنڈے مشروبات سے لطف اندوز ہونے سے غافل نہیں ہیں۔ پھر سحری کے لیے اٹھے اور اس اندیشہ سے کہیں دن کو بھوک اور پیاس نہ لگے کھانے اور پینے میں حد سے تجاوز کیا۔ سحری کھائی اور لمبی تان کر سوگئے۔ دن چڑھے نہایت سستی اور کاہلی سے بیدار ہوئے۔ اب جو کام کاج کے لیے نکلے تو نہایت تھکے ماندے، کبیدہ خاطر اور افسردہ دل، ہر بات میں جھگڑا اور ہر بات پر تنازعہ۔ تمام دن نہایت بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے میںگزارا اوران تمام پریشانیوں کا ذمہ دار بھوک اور پیاس کو ٹھہرایا۔ حالانکہ اس میں روزہ کا قصور نہیں، یہ حضرات خود ہی مضر صحت کاموں کے مرتکب ہوئے۔ کھانے پینے اور سونے میں ان کی یہی بے احتیاطی اور بداعتدالی بالآخر بدہضمی، جگر کی خرابی، دورانِ خون اور تمام اعضا کی سستی کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے، اگر یہ لوگ کچھ کھانا صدقہ کردیتے تو انھیں نہ صرف صحت و تندرستی حاصل ہوتی بلکہ آخرت میں اجرِ عظیم کے مستحق ٹھہرتے۔
رمضان گزرتا ہے تو یہ لوگ خوشیاں مناتے ہیں اور پھر بزعم خود روزہ کے اثرات بد کے ازالے کے لیے ڈاکٹروں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ دراصل یہ لوگ روزہ کی حکمت سے بالکل نابلد ہیں۔ بلکہ انھیں اشیاء کی غذائیت کی قدروقیمت کی بھی کچھ خبر نہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ غذا کی کمی بیشی اور اس کے استعمال میں بداعتدالی سے ہی تمام بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ طبقہ امرا تو شکم سیری کے ان امراض میں مبتلا ہوتا ہی ہے جن کو ہم اوپر بیان کرچکے ہیں جبکہ غریب عوام بھی ان بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں جو غذائیت کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں، ان کا علاج تو مناسب غذا سے ہوسکتا ہے مگر شکم سیری کی بیماریوں کا علاج اکثر و بیشتر ناممکن ہوتا ہے۔ اس کا علاج نہ غذا سے ہوسکتا ہے اور نہ دوا سے۔
عربی محاورہ ہے ’’المعدہ بیت الداء‘‘ یعنی معدہ بیماری کا گھر ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے: ’’کلو اواشربوا ولا تسرفوا۔ کھاؤ، پیو مگر حد سے آگے نہ بڑھو۔‘‘اگر روزہ صحیح معنوں میں رکھا جائے تو ان تمام فضلات اور نقصان دہ مواد سے نجات ملتی ہے۔ روزہ تندرست شخص کے لیے عمدہ صحت کا ضامن ہے۔ اور بیمار کے لیے عین شفا ہے۔ روزوں کے دوران اگر ثقیل اور مرغن اور کثیر تعداد والے کھانوں سے پرہیز کیا جائے اور ہلکا، سادہ اور پکا ہوا کھانا استعمال کیا جائے تو اس سے خاطر خواہ فائدے حاصل ہوں گے۔ مشہور مقولہ ہے: ’’پرہیز علاج سے بہتر ہے۔‘‘ یوں انسان بہت سی بیماریوں سے بچ جائے گا۔ خاص طور پر ان امراض سے جو بسیار خوری کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: ’’ابنِ آدم کے لیے چند لقمے کافی ہیں، جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھ سکیں۔‘‘ عصرِ جدید کے اطباء کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے پرہیز سے علاج کرنے کا طریقہ دریافت کیا۔ حالانکہ زمانہ قدیم سے روزہ کے ذریعہ یہ طریقہ چلا آرہا ہے۔ عام لوگ چونکہ روزہ کی حکمت فراموش کربیٹھے ہیں لہٰذا انھوں نے بھی ڈاکٹروں کے اس دعویٰ کی تصدیق کردی ہے اور ڈاکٹروں کے تجویز کردہ پرہیز سے صحت یاب ہونے کی آس لگا رکھی ہے۔
رمضان المبارک میں مسلمانوں کو اپنے حالات پر غور وفکر کرنے کا ایک زریں موقع ملتا ہے۔ وہ اپنے معاشی اور اخروی معاملات کی اصلاح کرسکتے ہیں اور باہمی تعلقات کو استوار کرسکتے ہیں۔ نفسِ انسانی ذکر الٰہی اور صلوٰۃ سے مانوس ہوتا ہے۔ صدقہ اور زکوٰۃ سے اس کا تزکیہ ہوتا ہے۔ ’’قد افلح من تزکیّٰ‘‘ جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کرلیا وہ کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ یوں ملائِ اعلیٰ سے اس کا رشتہ مضبوط ہوجاتا ہے اور عبادت کا بلند ترین مقام یہی ہے۔
بہت سے لوگ چوبیس گھنٹوں میں صرف ایک بار کھانا کھا کر گزارہ کرتے ہیں۔ کئی لوگ دو دفعہ کھانا کھاتے ہیں۔ یہ لوگ جب روزہ رکھتے ہیں تو صرف اتنا فرق پڑتا ہے کہ ان کے کھانے کے اوقات تبدیل ہوجاتے ہیں۔ ان کے کھانے کی غذائی مقدار کم نہیں ہوتی۔ بلکہ اس مقدار میں بسا اوقات کچھ اضافہ ہی ہوجاتا ہے۔ اور یہ اضافہ محض اس اندیشہ سے ہوتا ہے کہ کہیں انھیں بھوک اور پیاس نہ ستائے۔
سارا دن کام کرنے والے امریکی صرف دو وقت کھانا کھاتے ہیں۔ یعنی ایک صبح کا ناشتہ اور دوسرا شام کا کھانا۔ اس دوران سوائے کافی یا دوپہر کے وقت کچھ ہلکی غذا کے اور کچھ نہیں کھاتے، اس سے کام کے دوران ان پر سستی، خمار اور کاہلی سوار نہیں ہوتی۔
جن حضرات کے لیے رو زہ رکھنا دشوار ہے، ان کے لیے میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ نصف شعبان کے بعد ناشتہ اور شام کا کھانا جلدی کھایا کریں اور بتدریج ان اوقات کو فجر اور مغرب تک لے جائیں اور اس دوران صبح کے ناشتہ اور شام کے کھانے کے درمیان بہت کم کھائیں پئیں۔ اب رمضان میں انھیں روزہ رکھنے سے ذرہ بھر تکلیف نہ ہوگی۔ عام طور پر روزہ دار بھوک کی پروا نہیں کرتا مگر اسے پیاس شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ اور سب سے زیادہ بھوک اور پیاس انھی حضرات کو محسوس ہوتی ہے جو سحری سے اپنے پیٹوں کو لبالب ٹھونس لیتے ہیں۔
روزہ دار کے لیے چند مفید مشورے پیش کیے جاتے ہیں:
(۱) اگر آپ مالدار ہیں تو بسیار خوری اور چکناہٹ سے بچئے اور ’’بھوکے رہو صحت پاؤ‘‘ کو اپنا شعار بنائیے۔
(۲) اپنے تنگدست بھائی سے تعاون کیجیے۔
(۳) رمضان المبارک کو مالدار کے لیے محرومی کا مہینہ سمجھئے اور نادار کے لیے عمدہ کھانوں کا۔
(۴) کھانے پر یک لخت نہ ٹوٹ پڑیے بلکہ آہستہ آہستہ چبا کر کھائیے۔
(۵) اگر آپ چاہتے ہیں کہ دن میں آپ کو بھوک اور پیاس نہ ستائے توسحری میں زیادہ شکر، نمک اور مرغن کھانوں سے اجتناب کیجیے۔
(۶) جسے کھانے اور پینے کے لیے کچھ اور دستیاب نہ ہو وہ دودھ پر اکتفا کرے۔
(۷)جہاں تک ہوسکے سحری میں تاخیر اور افطاری میں جلدی کیجیے۔
(۸)رات کو کھانا کھاکر جلد نہیں سونا چاہیے۔ شب بیداری سے رات کا کھانا ہضم ہوتا ہے۔
(۹) افطاری کے بعد چٹ پٹی چیزیں اور ٹھنڈے مشروبات کثرت سے استعمال نہ کیجیے۔ اس سے قوتِ ہاضمہ کے نظام میں خلل پڑتا ہے۔
(۱۰) سارا دن کام کاج میں مصروف رہیے، بھوک اور پیاس کو بھولنے کی کوشش کیجیے۔
(۱۱) رمضان المبارک میں آپ نے جو میانہ روی ، نیکی اور ایثار کی عادت اپنائی ہے، رمضان کے بعد اسے جاری رکھئے۔
(۱۲) وہم سے بچئے، یہ زہر ہے جو صحت کو تباہ کرتے ہیں۔ وہم اور پریشان خیالی کا علاج نہ دوا سے ہوسکتا ہے نہ غذا سے۔
(۱۳) رمضان کی برکات کا مشاہدہ، مسلمانوں میں بایں طور ہونا چاہیے کہ قناعت، توکل، سکون و طمانیت قلب جیسے اوصاف مسلمان اپنائیں۔ اس سے شرح صدر اور راحت نفس ہوگی اور اس میں انسان کی شفا کا راز مضمرہے۔
(۱۴) ہر مومن کو رمضان المبارک کی آمد سے خوش ہونا چاہیے، بلکہ اس کی تمنا ہونی چاہیے کہ کاش ساری عمر رمضان ہی ہوتا، تاکہ اس کی زندگی اعمالِ صالحہ کے بجالانے، نماز و زکوٰۃ کی ادائیگی، اسرارِ کائنات اور خالق کے جلال و عظمت میں غوروفکر کرنے میں گزرتی۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں