روزے کو عربی میں صوم کہتے ہیں۔ اس کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ ایک مسلمان صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک کھانے پینے، جنسی خواہش اور ہر قسم کی برائی سے رک جائے۔ ظاہر ہے اللہ جو حکمت والا ہے، اس نے اس ممانعت میں بھی کوئی نہ کوئی حکمت رکھی ہے۔ جہاں تک انسانی عقل نے اس حکمت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، اور تجربات جس پر شاہد ہیں، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ روزہ دار ایک محدود وقت تک کھانے پینے اور دیگر مکروہات (جس سے روزہ ضائع ہونے کا خدشہ ہو) کے کرنے سے ر ک کر فرشتوں کی مشابہت اختیارکرلے اور اپنے اندر ملکوتی صفات کو غالب کرے۔ جس کا حاصل فرماں برداری اور تقویٰ ہے۔ گویا روزہ قربِ الٰہی اور ملائکی صفات سے متصف ہونے کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہی وہ ذریعہ ہے، جو اس روحانی و نورانی مخلوق کو اپنی جانب کھینچ لاتا ہے۔
روزے کی اس تربیت کا حاصل کھانے پینے اور دیگر مکروہات سے رک جانا نہیں، بلکہ اپنی پوری زندگی میں اللہ کے احکام کو نافذ کرنے کی تربیت، اس کے پسندیدہ کاموں کو اختیار کرنے اور ناپسندیدہ چیزوں سے بچ جانے کا نام ہے۔ اگر اس تربیت کے بعد بھی یہ کیفیت پیدا نہیں ہوئی تو بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ روزہ، روزہ نہیں بلکہ بھوک اور پیاس برداشت کرنا اور اپنے نفس کو دھوکا دینا ہے۔
جو کیفیت و روش رمضان سے پہلے تھی وہ بعد میں بھی قائم رہے تو انسان کو بھوک و پیاس کے علاوہ اور کیا حاصل ہوا؟ انسان کی عملی زندگی میں اگر روزوں سے بھی انقلاب برپا نہیں ہوتا تو ایسے روزے دار کے بارے میں اس کے علاوہ اور کیا تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ بدنصیب ہے اور اس میں خیرکی رمق دم توڑچکی ہے۔
’’جو شخص روزے کی حالت میں بھی جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی حاجت نہیں کہ وہ بھوکا اور پیاسا رہے۔‘‘ (حدیث)
حاصل کلام یہ ہے کہ ماہِ رمضان تزکیہ و تربیت کا مہینہ ہے۔ بالخصوص اس کا آخری عشرہ جس میں ایک طاق رات ایسی ہے جو کتابِ ہدایت کے نزول کی رات ہے۔ اور جو انسانوں کی تقدیر بدلنے والی رات ہے، جو لوگ اس پورے مہینے اور قدر کی اس رات کی برکتوں سے مستفیض نہ ہوپائیں ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہو تو قرآن کے الفاظ میں وہ جانوروں کی مثل ہیں۔
ان ہم الا کالانعام بل ہم اضل سبیلا۔
’’وہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی گئے گزرے۔‘‘