جو کچھ ہم کرتے ہیں اس میں دو چیزیں اہم ہوا کرتی ہیں ایک تو مقصد جس کے لیے یہ کام کیا جاتا ہے۔ اور دوسری چیز کام کی وہ خاص شکل ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اختیار کی جاتی ہے۔ یہ دونوں چیزیں بیک وقت لازمی ہیں۔ مقصد فراموش ہوجائے تو کام بے کار اور کام ٹھیک سے انجام نہ دیا جائے تو مقصد فوت ہوجاتا ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ عبادات کے سلسلے میں ہم زندگی کے اس بنیادی اصول کو فراموش کردیتے ہیں۔ عبادات خواہ نماز ہو یا روزہ ان کا مقصد اللہ سے قربت تقوی اور برائیوں سے بچانا ہے۔ لیکن ہماری دینی غفلت کا کیا کیجیے کہ ہم نماز روزے کے ارکان اور ان کی ظاہری صورتوں کو ہی اصل عبادات سمجھ بیٹھے ہیں۔ اور اس خیال میں مبتلا ہوگئے ہیں کہ جس نے یہ ارکان ادا کردیے اس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرلی۔
روزے کے متعلق بھی ہم یہی سمجھتے ہیں کہ سحر سے لے کر مغرب تک کچھ نہ کھانے اور نہ پینے کا نام روزہ ہے اور بس یہی عبادت ہے۔ اس لیے روزہ کی ہم ظاہری طور پر پوری حفاظت کرتے ہیں اور جس چیز سے روزہ ٹوٹنے کا ذرا سا بھی اندیشہ ہو اس سے بچتے ہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ بھوکا پیاسا رہنا اصل عبادت نہیں ہے بلکہ عبادت کی صورت ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ روزہ صرف پیٹ کا نہیں ہوتا بلکہ جب ہم روزہ سے ہوتے ہیں تو ہمارے جسم کے ایک ایک عضو کا روزہ ہوتا ہے، ہمارے منھ کا روزہ ہوتا ہے کہ کچھ کھا پی نہیںسکتا، زبان کا روزہ ہوتا ہے کہ ہم غلط اور فحش بات نہ کریں، آنکھ اور کان کا روزہ ہوتا ہے کہ نہ غلط دیکھیں اور نہ غلط سنیں۔ ہاتھ پیر یہاں تک کہ دل اور ذہن کا بھی روزہ ہونا چاہیے کہ وہ غلط نہ سوچے اور برے خیالات سے محفوظ رہے۔ اور اگر ان اعضاء میں سے کسی کا بھی روزہ ناقص ہوتا ہے تو انسان کا روزہ ناقص ہوگا اور وہ انسان کو اس مقصد کے حصول میں کامیاب نہیں ہونے دے گا جو روزے کا مقصد ہے۔
روزے کا اصل مقصد ہی یہ ہے کہ ہمارے اندر خدا کا خوف اور خدا کی محبت پیدا ہو اور ہمارے اندر اتنی طاقت پیدا ہوجائے کہ جس چیز میں دنیا بھر کے فائدے ہوں مگر خدا ناراض ہوتا ہو اس سے ہم اپنے آپ کو دور کرسکیں۔ اور جس کام میں ہر طرح کے خطرات ہوں مگر خدا اس سے خوش ہوتا ہو اس پر اپنے نفس کو مجبور کرسکیں۔ یہ طاقت اس وقت پیدا ہوگی جب ہم روزے کے مقصد کو سمجھتے ہوئے زندگی گزارنے کی مشق کریں گے۔ اور باقی گیارہ مہینوں میں بھی اپنی اس مشق و ممارست کو جاری رکھتے ہوئے زندگی گزاریں گے۔
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے روزے کا حکم دینے کے بعد فرمایا لعلکم تتقون تاکہ تم متقی بن جاؤ۔ کیونکہ جو روزے کے اصل مقصد کو سمجھے گا اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کرے گا وہ تھوڑا یابہت متقی بن جائے گا مگر جو مقصد ہی کو نہ سمجھے گا اور اسے حاصل کرنے کی کوشش نہ کرے گا اسے کوئی فائدہ حاصل ہونے کی امید نہیں۔
ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ روزے کے مقصدکو پوری طرح سمجھیں اور روزے کے لیے وہ روحانی طاقت حاصل کرنے کی کوشش کریں جو روزہ کا مقصد ہے اور جس کے ذریعہ ہم سال کے بقیہ گیارہ مہینے بھی اللہ کی عبادت اور فرماں برداری میں گزار سکیں۔
——