ہم سب جانتے ہیں روزہ ایک فرض عبادت ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ سورۃ البقرہ میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔‘‘
تو ہم کو روزے اس لیے رکھنے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، یہ ایک فرض عبادت ہے، جو ہم پر ہی نہیں، پہلی امتوں پر بھی فرض تھی۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔
’’جو شخص اس مہینہ کو پائے اس کو لازم ہے کہ وہ اس مہینہ کے روزے رکھے۔‘‘
یہ ایک تاکیدی حکم ہے ہاں اگر کوئی مجبوری، بیماری یا کوئی عذر ہو تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔‘‘
اگر وہ رمضان میں روزہ نہیں رکھ سکتا تو اسے رمضان کے بعد قضا روزہ رکھنا ہوگا۔ ایسا اس لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ نرمی چاہتا ہے، سختی نہیں کرنا چاہتا۔اور یہ طریقہ اس لیے بتایاجا رہا ہے تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرو۔
ہمیں صرف چند روزے ہی نہیں رکھنے ہیں بلکہ اس مہینہ میں جو روزے ۲۹ یا ۳۰ ان کی گنتی بھی پوری کرنا ہے۔ اور جن ہدایت سے تم کو اللہ نے سرفراز کیا، اس پر بڑائی کا اظہار کرو تا کہ تم شکر ادا کرسکو۔‘‘
قرآن پاک کی ان آیات سے معلوم ہوا کہ
٭ روزہ کوئی نئی عبادت نہیں بلکہ پہلی امتوں پر بھی یہ عبادت فرض رہی ہے۔
٭ روز کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر اللہ کا تقوی پیدا ہو اور وہ کھلے چھپے ہر حال میں اللہ سے ڈرنے والا اور اس کا حکم ماننے والا بن جائے۔
٭ روزہ اللہ کے لیے شکر کا بھی مظہر ہے اور یہ شکر اس ہدایت کا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن اور شریعت کی شکل میں دی تھی اور پچھلے لوگوں میں بھی یہ ہدایت الہامی کتابوں اور انبیاء کی شریعتوں کے ذریعے ملتی رہتی ہے۔
حضرت عمرؓ سے روایت ہے نبی اکرمﷺ نے فرمایا اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔سب سے پہلی چیز اس بات کی گواہی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ (۲) نماز قائم کرنا (۳) زکوۃ ادا کرنا (۴) رمضان کے روزے رکھنا (۵) حج کرنا۔
اللہ کی کتاب کے بعد رسول اللہﷺ کی تعلیمات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ روزہ مسلمانوں کے لیے ایک بنیادی اور اہم ترین عبادت ہے اس کے بغیر دین کا تصور ممکن نہیں۔
ایک اور حدیث سے پتہ چلتا ہے کہ ایک اعرابی آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا کہ مجھے ایسا عمل بتائیے کہ میں جنت میں چلا جاؤں۔ آپﷺ نے کہا کہ اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ فرض نماز قائم کرو، زکوۃ ادا کرو، اور رمضان کے روزے رکھو، اس نے کہا للہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں اس سے زیادہ کچھ نہ کروں گا، جب وہ آدمی واپس ہوا تو آپﷺ نے فرمایا:
’’یہ شخص فلاح پاگیا اگر اپنے قول میں سچا ہے تو۔‘‘
روزہ کی عبادت اپنے اجر اور برکتوں کے اعتبار سے بھی غیر معمولی ہے۔ چناں چہ سیرت پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول اس ماہ رمضان کی آمد سے قبل ہی سے اس کی تیاریاں خود بھی شروع کردیتے اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس کی طرف متوجہ فرماتے۔ ایک مرتبہ آپؐ نے مسجد نبوی میں رمضان کی آمد سے قبل صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’لوگو! تم پر ایک نہایت بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔ اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘
ایک مرتبہ آپ نے ارشاد فرمایا:
’’جس نے ایمان کے ساتھ اجر آخرت کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے تو اللہ اس کے پچھلے گناہوں کو معاف فرما دے گا۔‘‘
روزہ کے اجر کی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے امت کو اطلاع دی کہ اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ روزہ خاص میرے لیے ہے اور میں روزہ دار کو جتنا چاہوں گا اجر دوں گا۔
فرض کی ادائیگی جنت کے دروازے کھولتی ہے۔ ایک عام شخص جسے پڑھنے لکھنے اور دین کی باریکیوں کو سمجھنے کا موقع نہیں ملا اور وہ دین کے فرائض کو اچھے سے ادا کرتا ہے، اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے، تو ایسا شخص بھی کامیابی سے ہم کنار ہوگا اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہے کہ فرض کا چھوڑ دینا کوئی معمولی بات نہیں جہاں فرائض کی ادائیگی اجر و ثواب کا ذریعہ ہے وہاں فرض کا چھوڑنا بہت بڑے نقصان کا سبب بھی ہے۔ اس سے بڑی محرومی اور کیا ہوسکتی ہے کہ کوئی شخص برکت والا مہینہ جس میں روزہ رکھنا پچھلے گناہوں کی معافی کا ذریعہ ہو، اسے پائے مگر اپنے گناہ رب کریم سے معاف نہ کراسکے۔ اس لیے آئیے اس مبارک مہینے میں عبادت کی منصوبہ بندی ابھی سے شروع کرتے ہیں اور اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے بھی اس روزہ کے ذریعے پچھلے گناہ معاف فرما دے۔
آپﷺ نے ان لوگوں کی سزا بھی سخت بتائی جو جان بوجھ کر روزے چھوڑدیتے ہیں۔ بغیر کسی عذر کے بغیر سفر کے، بغیر بیماری کے بلا وجہ صحت مند ہوتے ہوئے اور موقع پاتے ہوئے روزہ کی پروا نہیں کرتے۔
کوئی شخص اگر رمضان کا ایک روزہ بغیر بیماری یا عذر کے چھوڑ دے پھر وہ ساری زندگی بھی روزے رکھے تو اس رمضان کے ایک روزے کے برابر اجر نہ پاسکے گا۔ ہم اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں، جہاں ایک طرف اس مہینے کے ایک روزے کا بہترین اجر ہے وہاں ایک روزہ بغیر کسی وجہ یا کسی مجبوری کے چھوڑ دینے کا نقصان کتنا بڑا ہے۔ اگر رمضان کے علاوہ انسان سال بھر روزے رکھتا ہے تو وہ رمضان کے ایک روزے کی تلافی نہیں کرسکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام مسلمانوں کو اس فرض کو بہترین طریقہ سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمینlll