سورئہ بقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو انسان کے لیے سرتاپا ہدایت ہے، ہدایت کی دلیل ہے اور حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے۔ جو اس رمضان کو پائے وہ اس مہینے میں روزے رکھے اور جو بیمار ہو، سفر پر ہو، وہ دوسرے دنوں میں رکھ لے۔اللہ تعالیٰ آسانی چاہتا ہے سختی نہیں تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو تاکہ تم اس ہدایت پر اللہ کی بڑائی کرو اور شکر بجالاؤ۔‘‘
اسی سورت میں ایک آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’مسلمانو! روزہ تم پر اسی طرح فرض ہوا جس طرح تم سے پہلی قوموں پر فرض کیا گیا تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘
روزہ اسلام کا تیسرا رکن ہے۔ دراصل اس کے معنی نفس کی خواہشوں سے خود کو روکنا ہے۔ ان میں اور باتوں کے علاوہ کھانا پینا بھی شامل ہے۔ ایک خاص وقت تک ان سے رکے رہنے کا نام روزہ ہے۔ مگر اصل میں ان ظاہری خواہشوں کے ساتھ باطنی خواہشوں اور برائیوں سے دل اور زبان کا محفوظ رکھنا بھی روزے کے مقاصد میں شامل ہے۔
روزہ مسلمانوں کے علاوہ دوسری قوموں میں بھی مختلف شکلوں میں رائج رہا ہے۔ اور آج بھی ہے۔ قرآن نے روزے کا مقصد تقویٰ قرار دیا ہے۔ اور مسلمانوں کے لیے یہ ایک روحانی علاج کے طور پر فرض ہوا۔
دراصل اللہ تعالیٰـ اہلِ ایمان کے اندر تقویٰ کی جو اسپرٹ بیدار کرنا چاہتا ہے وہ حقیقت میں روزہ ہی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان پر جو بھی عبادت فرض کی ہیں ان کا تعلق ظاہر سے ہے۔ کوئی شخص نماز پابندی سے پڑھتا ہے تو سب کو نظر آتا ہے اور اگر کوئی انسان نماز نہیں پڑھتا یا اس میں غفلت کرتا ہے تو تمام لوگوں کی نظر میں آجاتاہے۔
دوسرا پہلو یہ ہے کہ نماز چند ظاہری ارکان کا نام ہے۔ ان ظاہری ارکان کو اگر کوئی شخص ادا کرتا ہے تو اسے نمازی تصور کیا جائے گا۔ خواہ اس کا دل نماز میں ہو یا تجارت میں حتیٰ کہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازش میں بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ منافقین کا معمول تھا۔ مگر روزہ مکمل طور پر باطنی ہے۔ ایک شخص چھپ کر بھی کھانا پینا کرسکتا ہے، مگر وہ ایسا نہیں کرتا، کیونکہ وہ اللہ کے حکم کے لیے روزہ سے ہے، اس طرح روزہ براہِ راست انسان کے چوبیس گھنٹوں کے تعلق کواللہ سے جوڑے رکھتا ہے، جبکہ نماز کے ذریعے صرف چند منٹ کے لیے اللہ سے جڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزہ کو خاص اپنی عبادت قرار دیا ہے۔ اورکہا ہے کہ روزہ خاص میرے لیے ہے، اور اس کے اجر کے بارے میں فرمایاکہ ’’بندہ کو جس طور چاہوں گا اجر دوں گا۔‘‘
روزہ کا ایک پہلو اللہ کی عظیم نعمت قرآن یعنی کتابِ ہدایت کے لیے شکر کے جذبے کا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں سچائی اور بھلائی کا جو راستہ دکھایا ہے اس کے لیے ہم اس کی بڑائی کریں اور اس کا شکر بجالائیں۔ یہ رمضان المبارک ہی تھا کہ جس میں وہ مبارک رات یعنی شب قدر تھی جس میں ہمارے حضورﷺ پر قرآن مجید نازل ہونا شروع ہوا اور یوں اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کو اپنے ان اصولوں کا مجموعہ عطا فرمایا جن پر عمل کرکے انسان دین اور دنیا دونوں ہی کی بھلائیوں اور اچھائیوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
روزہ صرف بھوکے اور پیاسے رہنے کا نام نہیں بلکہ دل اور روح کی پیاس کا نام ہے۔ روزے کا اصلی مقصد نیکی ہے۔ اگر کوئی انسان روزہ رکھ کر بھی یہ مقصد حاصل نہ کرسکا تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کے جسم کا تو روزہ ہوگیا، لیکن روح کا روزہ نہ ہوا۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایاکہ’’روزہ رکھ کر بھی جو شخص جھوٹ فریب کے کام نہ چھوڑے اللہ کو اس کی ضرورت نہیں ہے کہ انسان کھانا پینا چھوڑدے۔‘‘
ایک اور حدیث میں ہے کہ روزہ برائیوں کی ڈھال ہے۔ جو روزہ رکھے اس کو چاہیے کہ لغو اور فحش باتیں نہ بکے اور نہ غصہ کرے۔ یہاں تک کہ اگر کوئی اس سے لڑنے مرنے کے لیے آمادہ ہو اور گالیاں بھی دے رہا ہو تو یہی کہے کہ میں روزے سے ہوں۔ ایک اور موقع پر حضورﷺ نے فرمایا کہ روزہ اس وقت تک ڈھال ہے جب تک اس میں سوراخ نہ کردو۔ صحابہ کرامؓ نے دریافت کیا: یا رسول اللہﷺ ! اس میں سوراخ کس چیز سے ہوتا ہے؟
آپﷺ نے فرمایا:’’ جھوٹ اور غیبت سے۔‘‘