عربی زبان میں روزے کو ’’صوم‘‘ کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے ’’رکنا‘‘ اور ’’چپ رہنا‘‘۔ شریعت میں روزہ اس بات کا نام ہے کہ انسان روزے کی نیت کرکے طلوع فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور بعض دوسری معینہ خواہشات کو پورا کرنے سے رکا رہے۔ رمضان کے روزے رکھنے کا حکم ہجرت کے دوسرے سال نازل ہوا اور رسولِ خدا ﷺ نے اس دنیا سے تشریف لے جانے سے قبل نورمضانوں کے روزے رکھے۔
جن آیات سے روزے فرض ہوئے ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں:
یایہا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم… لعلکم تتقونo (البقرہ:۱۸۳-۱۸۵)
’’اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے کہ ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے ہوئے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں پرہیز گاری کی صفت پیدا ہوگی چند مقرر دنوں کے روزے ہیں، پھر اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں میں اتنی ہی تعداد پوری کرلے، اور جو لوگ اسے مشکل سے برداشت کرسکیں وہ فدیہ دیں ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے، اور جو کوئی اپنی خوشی سے نیکی کرے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے، لیکن اگر تم سمجھو تو تمہارے حق میں اچھا یہی ہے کہ تم روزہ رکھو۔‘‘
رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا، جوانسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔ لہٰذا جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے، اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی نہیں کرنا چاہتا تاکہ تم روزوں کی تعداد پوری کرسکو۔ اور جس ہدایت سے اللہ نے تمہیں سرفراز فرمایا ہے، اس پر اللہ کی بڑائی بیان کرو۔ اور تاکہ تم شکر گزار بنو۔‘‘
ان آیات کے مطالعے سے مندرجہ ذیل باتیں اخذ ہوتی ہیں:
٭ رمضان کے مہینے کو روزے رکھنے کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے اور مسلمانوں کے لیے یہ لازم قرار دے دیا گیا ہے کہ وہ اس پورے مہینے کے روزے رکھیں۔ پھر روزے کی فرضیت بتاتے ہوئے ساتھ ہی اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ روزہ وہ عبادت ہے جو رسولِ خدا ﷺ سے پہلے آنے والے انبیاء کی قوموں پر بھی فرض رہی ہے۔
٭ رمضان ہی وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیاگیا تھا اور قرآن میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو وہ تعلیمات دی ہیں کہ جو ان پر عمل کرے گا، وہ سیدھی راہ لگ جائے گا اور اسے وضاحت سے پتہ چل جائے گا کہ حق کیا ہے؟ باطل کیا ہے؟ اور غلط کیا ہے اور صحیح کیا ہے؟
٭ روزے رکھنے کے لیے کوئی بڑا لمبا عرصہ متعین نہیں کیا گیا بلکہ سال کے بارہ مہینوں میں سے صرف ایک مہینہ اس کے لیے مخصوص کیا گیا ہے اور ظاہر ہے کہ گیارہ مہینوں کے مقابلے میں ایک مہینہ تھوڑی مدت ہی ہے۔
٭ چونکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو قرآن جیسی نعمت عطا کی ہے، جس پر عمل کرکے وہ دونوں جہانوں کی خیروبرکت حاصل کرسکتے ہیں، اس لیے ان کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے کہ جس مقدس مہینے میں ان پر قرآن نازل ہوا تھا، اسی کے روزے رکھ کر اللہ تعالیٰ کے اس انعام کا شکر ادا کریں اور اس کے اس احسان پر کہ اس نے انھیں ہدایت دی ہے، اس کی کبریائی کا اظہار و اعتراف کریں۔
ان آیات پر غوروخوض کیا جائے تو واضح ہوجائے گا کہ ان میں انسانوں کو اس حقیقت سے مطلع کیا گیا ہے کہ قرآن پاک ایک عظیم انعام ہے، جو اللہ نے انھیں عطا کیا ہے۔ اتنا بڑا انعام حاصل کرنے کے بعد منعم کا شکر ادا کرنا لازمی ہے۔ لہٰذا انھیں حکم دیا جاتا ہے کہ روزوں کی شکل میں اس رؤف و رحیم مالک کا شکر ادا کریں، جس کی رافت و رحمت کا واضح ثبوت یہ ہے کہ روزوں کو فرض قرار دے کر بھی قضا اور فدیہ جیسی آسانیاں بہم پہنچادی ہیں۔ لہٰذا اس کے حکم کی تعمیل میں روزہ رکھنا ضروری ہے، جو ایک طرف تو اظہارِ شکر کا ذریعہ ہے اور دوسری طرف اس سے انسان کے دل میں وہ طاقت اور قوت پیدا ہوتی ہے، جس سے کام لے کر وہ گناہوں سے بچاؤ کرسکتا ہے۔
روزوں کی فرضیت کے سلسلے میں یہ بھی واضح کردیا گیاہے کہ جو شخص بغیر کسی شرعی عذر کے محض لاپرواہی یا سرکشی کے باعث رمضان کا ایک روزہ بھی چھوڑ دے گا وہ اپنا اتنا بڑا نقصان کرے گا کہ اس کے بدلے میں اگر عمر بھر بھی روزے رکھتا رہے گا تو اس نقصان کی تلافی نہیں کرسکے گا۔ قانونی طور پر تو چھوڑے ہوئے ایک روزہ کے عوض ایک روزہ ہ رکھنا ہوتا ہے مگر رمضان کے ایک روزے کو بھی بلاوجہ چھوڑ دینے سے انسان اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور برکتوں سے جس طرح محروم ہوتا، اس کی تلافی پھر عمر بھر کے روزے بھی نہیں کرسکتے۔ کیونکہ چھوڑے ہوئے روزے کے عوض وہ ایک روزہ رکھے یا زیادہ، وہ رکھے تو غیر رمضان ہی میں جائیں گے اور جو خاص الخاص برکات رمضان کے مہینے کو حاصل ہیں، وہ دوسرے مہینوں کو تو حاصل نہیں اس لیے جو شخص بلا عذر شرعی رمضان کا روزہ چھوڑتا ہے اسے سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے ساتھ کتنی بڑی دشمنی کرتا ہے۔