روزے کے احکام و مسائل

حافظ محمد ادریس

روزے کی حالت میں بلکہ ماہِ رمضان کے پورے لمحات و ساعات میں کیے گئے اہلِ ایمان کے تمام نیک اعمال کی بڑی فضیلت اور درجہ بیان کیا گیا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو ان قیمتی گھڑیوں کی قدر کرتے ہیں اور ماہِ رحمت و مغفرت کے اختتام تک دوزخ سے خلاصی پالیتے ہیں۔

سحری کی فضیلت

روزہ اسلام کا چوتھا رکن ہے۔ یہ اول تا آخر خیروبرکت کا ذریعہ ہے۔ سورئہ بقرہ کی آیت نمبر۱۸۳ کے مطابق روزہ تمام امتوں پر فرض رہا ہے۔ یہودیوں نے روزے کے دوران سحری کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔ آنحضورﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’سحری کھایا کرو کیونکہ اس میں بڑی برکت ہے۔‘‘ (بروایت ابن ماجہ)

آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے: ’’سحری کھانے والوں پر اللہ رحمت فرماتا ہے اور فرشتے ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔‘‘ (بحوالہ مسند احمد)سحری آدھی رات کو کھانے کے بجائے صبح صادق سے قبل متصل وقت کھانا زیادہ افضل ہے۔ یہی آنحضور ﷺ اور صحابہ کرام کا معمول تھا۔

افطار، مفہوم اوراہمیت

افطار کا لفظی معنیٰ روزہ کھولنا یا کھلوانا ہے۔ افطار میں تاخیر کرنا غلط ہے۔ سورج غروب ہوتے ہی فوراً افطار آنحضور ﷺ کی سنت ہے اور یہی اللہ کو محبوب ہے۔ ایک متفق علیہ روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میری امت کے لوگ خیر کی حالت میں رہیں گے جب تک افطار میں جلدی کیا کریں گے۔‘‘ افطارکرانا یعنی کسی روزے دار کا روزہ کھلوانا بہت بڑا ثواب ہے۔

امام بیہقی کی ایک روایت کے مطابق ’’کسی روزے دار کا روزہ کھلوانے والے کے لیے کسی مجاہد فی سبیل اللہ کو سامان جہاد فراہم کرنے والے اور مجاہد کے برابر اجر و ثواب ملتا ہے، جب کہ ان کے اجر وثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی۔‘‘

افطار کا وقت خصوصی طور پر قبولیت دعا کا وقت ہے۔ افطار سے پہلے انتظار کے لمحات میں تلاوت، ذکرِ الٰہی اور دعا کا اہتمام بڑی سعادت ہے۔ جو خواتین اپنے کام اور سامانِ افطار تیار کرنے میں لگی ہوتی ہیں وہ اسی دوران اللہ کی حمد و تسبیح اور تکبیر پڑھتی رہیں تو انہیں بڑا اجر ملے گا۔

بہترین افطار وہ ہے، جس میں غرباء و مساکین کا روزہ کھلوایا جائے۔ اسراف، نمائش اور ریاکاری نیز کھاتے پیتے لوگوں تک افطاریوں کو محدود کردینا اسلام کے بنیادی فلسفے اور روح کے منافی ہے۔ افطار کی وجہ سے نمازِ مغرب باحماعت میں تساہل یا قیام اللیل میں سستی ہر گز جائز نہیں ہے۔

افطار کی دعا

افطار کے وقت جو نیک اور جائز دعا بھی آپ مانگیں گے، اللہ قبول فرمائے گا۔ قرآنی اور مسنون دعائیں اللہ کو زیادہ محبوب ہیں۔ روزہ کھلنے کے وقت کی ایک مسنون دعا ہے:

اللّٰہم انی لک صمت و علی رزقک افطرت۔

’’اے اللہ! میں نے تیری ہی رضا کی خاطر روزہ رکھا اور تیری ہی عطا کردہ روزی سے افطار کیا۔‘‘

آنحضور ﷺ افطار کے بعد یہ کلمات پڑھا کرتے تھے:

ذہب الظمأ وابتلت العروق وثبت الاجر ان شاء اللّٰہ۔

’’پیاس بجھ گئی، رگیں تروتازہ ہوگئیں اور اللہ نے چاہا تو اجر و ثواب ضرور ملے گا۔‘‘

فدیۂ صیام

اگر کوئی شخص روزہ رکھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو ہرروزے کے بدلے ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلائے۔ یہ کھانا اسی معیار کا ہونا چاہیے جس معیار کا وہ اپنے گھر میں خود کھاتا ہے۔ ایک روزے کے عوض بطورِ فدیہ، صدقہ فطر کی مقدار بھی دی جاسکتی ہے۔ یہ رعایت صرف جسمانی لحاظ سے کمزور، بیمار اور ضعیف مسلمانوں کے لیے ہے۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر کوئی شخص محض تساہل کی وجہ سے روزہ ترک کردیتا ہے اور ایک نہیں ہزار مسکینوں کو اس کے فدیے میں کھانا کھلاتا ہے تو یہ اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہے۔ اگر ایسا ہو تو مالدار روزہ ہی نہ رکھیں اور انہیں یہ احساس نہ ہو کہ بھوک پیاس اور احتیاج کیا چیز ہے۔

نواقض روزہ

اس سے مراد وہ اعمال ہیں جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ان کو مفسداتِ صوم بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی دو قسمیں ہیں: ایک وہ جن میں صرف قضا واجب ہے اور ایک وہ جن میں قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں۔

وہ اعمال جن میں صرف قضا واجب ہے یہ ہیں:

(۱) اس غلط فہمی میں کچھ کھاپی لیا کہ سحری کا وقت باقی ہے، جبکہ سحری کا وقت ختم ہوچکا تھا یا غروبِ آفتاب سے پہلے یہ سمجھ کر کہ سورج غروب ہوگیا ہے کچھ کھا پی لیا۔

(۲) دن بھر نہ کچھ کھایا نہ پیا، مگر روزے کی نیت نہیں کی یا نصف النہار کے بعد نیت کی۔ نصف النہار سے قبل نیت کرلی تو روزہ درست ہوگا۔ نیت کے لیے الفاظ کی ادائیگی ضروری نہیں، محض دل کی نیت کافی ہے۔

(۳) روزے میں کسی نے ارادتاً منہ بھر کر قے کی۔ اگر قے منہ بھر کر نہ کی تو روزہ نہیں ٹوٹتا۔

(۴) بھولے سے کچھ کھا پی لیا اور پھر یہ سمجھا کہ روزہ تو ٹوٹ ہی گیا اب کھانے میں کیا حرج ہے اور خوب پیٹ بھر کر کھالیا۔ بھولے سے کچھ کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

(۵) روزے میں کان کے اندر کوئی دوا یا تیل ڈال لیا۔

وہ اعمال جن میں قضا اور کفارہ دونوں واجب ہیں:

(۱) کھانے پینے کی کوئی چیز قصداً کھالی، یا بطورِ دوا کوئی چیز کھالی۔

(۲) جان بوجھ کر کوئی ایسا فعل کیا جس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، لیکن اس عمل کے بعد ارادے سے روزہ توڑ دیا، مثلاً سرمہ لگایا، سر میں تیل ڈالا اور پھر یہ سمجھ کر روزہ توڑدیا کہ سرمہ لگانے اور سر میں تیل ڈالنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔

(۳) روزے کی حالت میں جنسی خواہش پوری کرلی۔

وہ امور جن سے روزہ مکروہ نہیں ہوتا:

(۱) روزے میں بھولے سے کچھ کھا پی لیا، خواہ پیٹ بھر کر کھایا ہو یا خوب سیر ہوکر پیا ہو۔

(۲) روزے کی حالت میں سوتے ہوئے غسل کی حاجت ہوگئی۔

(۳) سرمہ لگانا، سر میں تیل ڈالنا، خوشبو سونگھنا، بدن کی مالش کرنا وغیرہ۔

(۴) تھوک اور بلغم نگل لینا۔

(۵) بے اختیار مکھی نگل لی، حلق میں گرد و غبار پہنچ گیا یا دھواں چلا گیا، خواہ وہ دھواں تمباکو وغیرہ کا ہو۔

(۶) کان میں خود بخودپانی چلا گیا، یا دوا چلی گئی۔

(۷) بے اختیار قے ہوگئی، چاہے منہ بھر کر ہی ہو۔

(۸) مسواک کرنا، خواہ مسواک بالکل تازہ ہی ہو اور اس کی کڑواہٹ بھی منہ میں محسوس ہو۔ بغیر پیسٹ کے برش کرلیا تو بھی کوئی حرج نہیں۔

(۹)گرمی کی شدت میں کلی کرنا، منہ دھونا، نہانا، یا تر کپڑا سر یا بدن پر رکھنا۔

روزے کا کفارہ

روزہ توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام کو آزاد کرے۔ نہ کرسکے تو ساٹھ دن کے مسلسل روزے رکھے، یہ بھی نہ کرسکے تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں