روزے کے تعلق سے خواتین کے لیے کچھ مخصوص احکام

ترجمہ ساجدہ فلاحی

عربی زبان میں صام یصوم صوما و صیاما کے معنی کسی چیز سے رک جانے اور ترک کردیناے کے ہیں اور شریعت کی اصطلاح میں کھانے پینے اور ازدواجی تعلقات سے رک جانے کو صیام کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ صائم کے لیے کچھ دیگر حدود و قیود قرآن و حدیث میں ذکر کی گئی ہیں۔ اور ان جملہ حدود و قیود کو عائد کرنے سے شریعت کا مقصد مومنین و مومنات کے اندر تقویٰ پیدا کرنے ہے، جس کے ذریعے وہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے جذبات و خواہشات کو قابو میں رکھنے کی طاقت پیدا کرسکیں۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم پر روزے فرض کردیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی۔‘‘ (البقرہ:۱۸۳)
آیتِ کریمہ کی رو سے رمضان المبارک کے روزے ہر مسلم مرد و خواتین پر واجب ہیں اور یہ اسلام کے ان پانچ بنیادی ارکان میں سے ہیں جن پر دین کی مضبوط عمارت قائم ہے۔ اس مضمون میں روزوں کے تعلق سے خواتین کے لیے کچھ مخصوص احکام بیان کیے جاتے ہیں۔
جب لڑکیاں سنِ بلوغ کو پہنچ جائیں تو ان پر روزہ فرض ہوجاتا ہے۔ یعنی جب علامت بلوغت (حیض) ظاہر ہوجائے، کبھی بچیاں کم عمری (تقرباً نو سال) ہی میں بالغ ہوجاتی ہیں۔ اور مائیں کم عمری کی بنا پر روزہ فرض نہ سمجھتے ہوئے انھیں روزہ رکھنے کا حکم نہیں دیتی ہیں، اسے ارکانِ اسلام کے بارے میں کوتاہی تصور کیا جائے گا۔ لہٰذا خواتین کو معلوم ہونا چاہیے کہ آغازِ حیض کے بعد ہر رمضان کے چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا واجب ہوجاتی ہے۔
روزہ چھوڑنے کی رخصت
رمضان کے روزے ہر مسلمان، عاقل، بالغ، تندرست اور مقیم مرد وخواتین پر فرض ہیں۔ رہے مسافر اور مریض تو انھیں روزے ترک کرنے کی اجازت ہے۔ البتہ دوسرے ایام میں ان پر اس کی قضا واجب ہوگی اس لیے کہ فرمانِ الٰہی ہے:
’’لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہو تو وہ دوسرے مہینوں میں روزے کی تعداد پوری کرے۔‘‘ (البقرۃ: ۱۸۵)
اسی طرح وہ لوگ جو ضعیف یا دائمی مریض ہوں، اور آئندہ زمانہ میں ان کی صحت یابی کی توقع نہیں کی جاسکتی ہو تو انھیں بھی روزہ ترک کرنے کی اجازت ہے۔ اور وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
’’اور جو لوگ روزہ رکھنے کی قدرت رکھتے ہوں(پھر نہ رکھیں) تو وہ فدیہ دیں۔ ایک روزے کا فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔‘‘ (البقرۃ:۱۸۴)
عبداللہ بن عباس کے مطابق اس سے مراد وہ ضعیف العمر لوگ ہیں، جن کے شفایاب ہونے کی امید نہیں ہوتی۔ اس میں وہ مریض بھی داخل ہوں گے جن کے مرض لاعلاج قرار پاچکے ہوں۔ لہٰذا ان پر روزوں کی قضا نہیں ہے۔ آیت میں یطیقونہ کے معنی بیان کیے گئے ہیں، ’’جو لوگ مشکل سے طاقت رکھتے ہیں۔‘‘
خواتین کو روزے کی رخصت
اسی طرح خواتین کو رمضان المبارک میں چند خاص وجوہ سے روزے ترک کرنے کی اجازت دی گئی البتہ دوسرے ایام میں اپنے روزوں کی قضا ان پر واجب ہوگی۔
رمضان کے روزوں میں خواتین کو درج ذیل اسباب کی بنا پر رخصت دی گئی ہے، مگر وہ رمضان کے روزے بعد میں لازماً قضا کریں گے۔
الحیض والنفاس
ان دونوں حالتوں میں عورت کے لیے روزہ رکھنا ممنوع ہے اور دوسرے ایام میں قضا لازم ہے۔ جیسا کہ صحیحین میں حضرت عائشہ ؓ کی روایت ہے:
’’ ہم کو روزوں کی قضا کا حکم دیا جاتا تھا اور نماز کی قضا کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔‘‘
اس سلسلے میں ایک عورت نے حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا کہ ’’حائضہ کا معاملہ کیا ہے جو روزوں کی قضا کرتی ہے اور نماز کی قضا نہیں کرتی؟‘‘ تو حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا کہ’’اس کا تعلق ان امور سے ہے جن میں صرف حکم کی اتباع کی جاتی ہے۔
الحمل والارضاع
اگر عورت حاملہ ہو یا بچے کو دودھ پلاتی ہو ہو اور ان دونوں صورتوں میں روزہ رکھنے سے عورت یا ا سکے بچے یا ان دونوں کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہو تو اسے روزہ ترک کرنے کی اجازت ہے۔ اگر یہ ضرر صرف بچے کو پہنچ رہا ہے تو عورت چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرے اور ہردن ایک مسکین کو کھانا کھلائے۔ ( یہ شافعیہ اور حنبلیہ کے نزدیک ہے، حنفیہ کے نزدیک فدیہ ضروری نہیں، مالکیہ کے نزدیک حاملہ کے ذمہ قضا اور فدیہ دونوں ضروری ہے۔ مرضعہ کے ذمہ صرف قضا ہے)
اگر ضرر صرف عورت کو ہو تو روزوں کی قضا کرنی ہوگی۔ اس سلسلے میں غالباً حدیث ذکر نہیں ہے، بلکہ استدلال آیت کریمہ سے ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ وعلی الذین یطیقونہ فدیہ طعاما مسکین سورہ بقرہ کی تفسیر کرتے ہوئے حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ:
آیت کے مفہوم میں حاملہ و مرضعہ دونوں شامل ہیں۔ جبکہ انھیں خود اپنے نفس پر یا اپنے بچوں پر کوئی اندیشہ ہو۔ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:
اگر حاملہ کو اپنے جنین پر اندیشہ ہو تو وہ افطار کرے گی اور ہر روزے کی قضا کرے گی۔ ساتھ ہی ہر روزے کے بدلے غلہ کا ایک رطل صدقہ کرے گی۔
روزوں کے تعلق سے چند امور اور قابلِ ذکر ہیں:
٭ اگر عورت کو متعینہ وقت کے علاوہ bleedingہو اور اس کا حیض ہونا ثابت نہ ہو رہا ہو تو اس کے لیے روزہ رکھنا واجب ہے۔ استحاضہ کے سبب سے ترک صوم اس کے لیے جائز نہیں ہوگا۔
شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ حائضہ کے ترک صوم کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:
’’استحاضہ کی یہ حالت کب تک رہے گی اس کی کوئی تعیین نہیں کی جاسکتی اور اس سے بچنا بھی ممکن نہیں ہے جس طرح قے کا معاملہ، اسی طرح زخموں اور پھوڑوں سے خون نکلنا۔ احتلام اور نکسیر وغیرہ جن کے لیے نہ ہی وقت متعین ہوتا ہے اور نہ ہی اس سے احتراز ممکن ہے تو یہ چیزیں روزے کے منافی نہیں ہیں۔
٭ جب کسی عذر کی وجہ سے روزے ترک کردیں تو اس کی قضا واجب ہے اور اس میں جلدی کرنا افضل ہے۔ یہاں تک کہ اگر دوسرے رمضان کی آمد میں چند ہی ایام باقی رہ گئے ہوں تو بھی سابقہ روزوں کی قضا کرنا واجب ہے۔ یہی حکم ان لوگوں کے لیے بھی ہوگا جنھوں نے سفر یا مرض کی وجہ سے ترک صوم کیا ہو۔
٭ عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ نفلی روزے بغیر اپنے شوہر کی اجازت کے رکھے جبکہ وہ موجود ہو۔ جیسا کہ بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے۔
’’کسی عورت کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں بغیر اس کی اجازت کے روزے رکھے۔‘‘
احمد اور داؤد میں الا رمضان کا اضافہ ہے۔ یعنی رمضان کے روزوں کے لیے شوہر کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
اگر عورت نے اپنے شوہر سے نفلی روزے کی اجازت لے لی ہو، یا شوہر پاس میں موجود نہ ہو، یا عورت کسی کی زوجیت ہی میں نہ ہو تو اس کے لیے نفلی روزوں کا اہتمام کرنا مستحب ہے۔ مثلاً دوشنبہ اور جمعرات کے روزے۔ ہر ماہ کی ۱۳،۱۴،۱۵ تاریخ کے روز ے، شوال کے چھ روزے، ذی الحجہ کے دس روزے، عرفہ کا روزہ، عاشورہ کا روزہ، جس کے ساتھ ایک دن قبل ایک دن بعد کا بھی روزہ رکھا جائے۔ ان تمام کے تعلق سے احادیث وارد ہوئی ہیں۔
البتہ ان تمام روزوںمیں یہ امر ملحوظ رہے کہ جس پر رمضان کے روزوں کی قضا ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے رمضان کے قضا روزوں کی تکمیل کرلے۔
٭ ماہ رمضان میں جب حائضہ دن کے کسی حصہ میں پاک ہوجائے تو (باوجود اس کے کہ وہ اس دن کے روزوں کی قضاکرے گی) اپنے آپ کو باقی اوقات میں کھانے پینے سے روکے رکھے اور ایسا اس پر ایام رمضان کے احترام کے تحت اس پر واجب ہوا ہے۔
——

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں