آج کل مغربی تہذیب کی رنگین زندگی کی چاہت اور غلامی کی سوچ میں گرفتار لوگ ذرائع ابلاغ کے ذریعہ تعلیم نسواں، آزادیٔ نسواں، حقوق و بہبودیٔ نسواں نیز ہر شعبہ میں عورت کو مرد کے برابر لاکھڑا کرنے کی کوشش میں سرگرداں نظر آرہے ہیں۔ وہ تعلیم و ترقی کے نام پر عیش و عشرت کے نمونے اور عورت کی دنیاوی خواہشات کو گدگدا کر اس کے باحیا جذبات کا گلا گھونٹ کر اس کو ’’شمع خانہ‘‘ سے ’’رونق محفل‘‘ بنا رہے ہیں۔ اس کے جسم سے لباس نوچ کر اپنی بے حیا آنکھوں کو سینکنے کے راستے تلاش کررہے ہیں۔ اور اسے تہذیب اور فیشن کا نام دے رہے ہیں، اس کو ’’معلم نسل‘‘ کے بجائے ’’ساقیٔ میخانہ‘‘ بنارہے ہیں۔
افسوس کا مقام ہے کہ آج مسلم عورت بھی دنیا کی چمک اور گمراہ کن نظریات کے دعوے داروں کے جال میں پھنس کر اپنے امتیاز اور تشخص کو بھینٹ چڑھاتے ہوئے بے حیا ’’عورت دشمن‘‘ آزادیٔ نسواں تحریک میں شامل ہونے کے لیے باہر قدم نکالنے لگی ہے تاکہ وہ بھی تعلیم یافتہ اور بیدار مغز کہی جانے لگے۔ اگر اس کا ثبوت چاہیے تو ہم اپنے معاشرے کی بے شمار خواتین کو چلتا پھرتا دیکھ سکتے ہیں۔ جنھیں دیکھ کر یہ اندازہ لگانا دشوار ہے کہ وہ مسلمان ہیں یا کچھ اور۔ اسی طرح ہمارے رسوم و رواج اور شادی بیاہ کی تقریبات کے رنگ ڈھنگ دیکھئے۔ کہیں اسلامی اقدار کا کوئی شائبہ نظر آتا ہے کیا؟ آج کے یہ ماڈرن لوگ عورتوں کے سلسلہ میں اسلام اور مسلمانوں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہاں عورت کو قید اور پابند بنایا گیا ہے۔
حالانکہ اسلام نے عورت کی جدوجہد کو صرف علم وفکر کے میدان تک محدود نہیں رکھا بلکہ اس کے لیے عمل کی ایک وسیع فضا اور ماحول عطا کیا۔ دور اول کی خواتین کی سرگرمیوں نے قطعی اور یقینی ثبوت فراہم کردیے ہیں کہ انھوں نے اندرونِ خانہ کہ ساتھ ساتھ بیرونِ خانہ کی مصروفیات جاری رکھیں اور اسلام ان کے راستے کبھی حائل نہیں ہوا۔ بیرون خانہ کی سرگرمیوں کی بات ہم اس لیے نہیں کرتے کہ ہم مساوات مردوزن والوں سے مرعوب ہوگئے ہیں اور ان کے الزام کے دفاع میں یہ بات کہہ رہے ہیں بلکہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ عہد رسالت میں جہاں ہمیں فاطمہ بنت محمد نظرآتی ہیں جنھو ںنے اپنی پوری زندگی گھر کی تنظیم اور اولاد کی تربیت میں صرف کردی وہیں عائشہ صدیقہ بھی نظر آتی ہیں جو علم و ادب کا مرجع ، علم شریعت کا عظیم خزانہ تھیں۔ ہمیں کھیتوں میں کام کرنے والی صحابیات بھی نظر آتی ہیں اور جنگوں میں حصہ لینے والی مجاہد خواتین بھی۔ تجارت کے میدان میں کئی صحابیات بھی ملتی ہیں، دعوت کے میدان میں فعال رول ادا کرنے والی صحابیات بھی۔
یونان کی قدیم تہذیب ہویا ہندوستان کا تمدن، یورپ کی خیرہ کن ثقافت ہو یا افریقہ کی پسماندہ سوسائٹی ہر جگہ عورت کی اہانت اور شرمناک مناظر ہمیں نظر آتے ہیں۔ اسلام نے عورت کو عزت بخشی اور اسے واجب الاحترام قرار دیا، اسے مرد کا تحفظ کامل اور مکمل طور پرعطاکیا اور اس پر کوئی ذمہ داری نہیں ڈالی۔ ہاں اسے اس بات کا اختیار ضرور دیا کہ وہ اللہ کی متعین کردہ حدود میںرہتے ہوئے اپنے مزاج، شوق و دلچسپی اور صلاحیتوں کے مطابق میدان کار اختیار کرے اور اپنی قابلیت کے جوہر دکھائے۔ چنانچہ عہدِ رسالت میں ہمیں مختلف میدانوں میں کامیاب اور نمایاں خواتین نظر آتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے عورت کو پردہ کا حکم دے کر اسے محفوظ اور مامون بنایا۔یہ شرعی حکم ہونے کے ساتھ ساتھ عورت کی عزت و تکریم کی علامت اور عقل فطرت کے عین مطابق ہے۔ قرونِ اولی میں خواتین اسلام کے لازوال کارنامے اس بات کا بیّن ثبوت ہیں۔ عورت پردہ کرتی تھیں اور پردہ ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتا تھا۔
اسلام نے بنیادی طور پر عورت کو گھر کی مالکہ بنایا تھا جب کہ تہذیب جدید کے شر پسندوں نے اسے گھر سے نکال کر معاشرتی ذمہ داریوں میں جبراً ڈال دیا جس کے سبب سے نہ تو وہ گھر کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآہوسکی اور نہ باہر کی اور …… پھر اسی روشن دور کی تاریکیوں نے اسے پھر ظلم و ستم کی چکی میں پسنے پر مجبور کردیا ہے اور اس کو گھر سے لا تعلق، فرائض سے ناآشنا کردیا۔ نئی نسل کو ماں کی ممتا سے محروم کرکے ایسے اضطراب اور بے چینی سے دوچار کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج شہرت کے آسمان پر چلتی اور دولت سے کھیلتی خواتین تمام تر عیش و عشرت کی فراوانی کے باوجود سکونِ قلب اور احساس تحفظ سے محروم ہیں۔ اور اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ وہ بڑی تعداد میں خود کشی کررہی ہیں اور جو زندہ ہیں وہ زندگی کی امنگوں سے خالی اور مایوسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ادھر مغرب و مشرق میں سکون قلب کی تلاش میں بڑی تعداد میں وہ ادھر ادھر بھٹک رہی ہیں۔ ان میں کچھ خوش قسمت بھی ہیں جن کی رسائی اسلام تک ہوجارہی ہے اور وہ اسے اختیار کرکے اپنے لیے سکون کا سامان فراہم کررہی ہیں۔
یہ وقت ہے مسلم خواتین کے بیدار ہونے اور اسلام کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کا۔ خاص طور پر ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ عام خواتین کو بتائیں کہ اسلام نے کس طرح عورت کو تحفظ فراہم کیا ہے۔ اور اسلام کی تعلیمات اور عورت کو دیے گئے حقوق کس طرح دوسروں سے اعلیٰ وارفع ہیں۔ مگر اس کے لیے انھیں پہلے خود اسلام کا مطالعہ کرنا اور اسے سمجھنا ہوگا۔ تو کیا ہم اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔