ایک شخص کا دوسرے شخص کی پیروی کرنا اور اس کا اثر قبول کرنا رول ماڈل کہلاتا ہے، کیونکہ نمونہ کے طور پر اس کو قبولیت دے کر اس کی پیروی کی کوشش کی جاتی ہے اور لوگ اس کے اعلیٰ و ارفع کارناموں کی مثالیں پیش کرتے ہیں ۔
رول ماڈل اخلاق حسنہ اور عمدہ طرز فکر وعمل کا پیکر ہوتا ہے اور اسے ہونا چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس کی حرکات و سکنات اور اس کے اقوال و افعال کی نقل کرتے اور اس پر فخر کرتےہیں ۔ لوگ اپنےعمل میں اس کی پیروی کرتے ہیں ،اس کے عادات و اطوار کے گن گانے اور اس کے علم سے نفع اندوز ہوکر کامیابی کا راستہ نکال لیتے ہیں۔
جب بھی کسی رول ماڈل کی بات کی جائے تو ہمیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو سر فہرست رکھنا چاہیے کیونکہ قرآن آپ کے بارے میں فرماتا ہے : لَقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِىۡ رَسُوۡلِ اللّٰهِ اُسۡوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنۡ كَانَ يَرۡجُوا اللّٰهَ وَالۡيَوۡمَ الۡاٰخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيۡرًا ۔(احزاب:۲۱)
’’بیشک رسول اللہ ﷺ میں تمہارے لیے نہایت عمدہ نمونہ ہے، ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور قیامت کے دن کی امید رکھتا ہو اور اللہ کو بہت یاد کرتا ہو۔‘‘
آپ ﷺ ہر اعتبار سے رول ماڈل ہیں، اپنے طرز عمل میں، اپنے معاملات میں،اپنے حاکم ہونے میں، عدل کے ساتھ فیصلہ کرنے میں ،کلمہ توحید کی دفاع کے لیے لشکر تیار کرکے اس کی قیادت کرنے میں ،مشورہ طلب کرنے میں، کیونکہ آپ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مشورہ طلب کرتے اور ان کی رائے معلوم کیا کرتے تھے ،اس کے علاوہ بھی بہت ساری صفات میں۔ اللہ نے آپ کو بہت سی ایسی قابل تعریف صفات سے متصف کیا تھا جن کا احاطہ کرنا اور گنتی میں لانا ناممکن ہے ۔اللہ تعالی نے رسول اللہ کو بلند و بالا کردار سے نوازا تھا اور اعلی کردار کی صفت سے متصف کرکے فرمایا تھا “وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ” (القلم :۴)
’’یقینا تم اخلاق کے اعلی درجے پر فائزہو۔‘‘
آپ ﷺ کے اندر میانہ روی تھی، حاکم ہونے کی خوبی تھی، قائد ہونے کی صفت تھی، آپ قاضی اور مشیر ہونے کی خوبیوں کے مالک تھے۔ الغرض آپ بےشمار خوبیوں کے مالک تھے جن کا ایک عام انسان میں ہونا ناممکن ہے۔
ہر انسان کو اپنا رول ماڈل منتخب کرنے میں آزادی کا اختیار ہونا چاہیے جس کی وہ تقلید کر سکے ۔ ہم ایسی قوم ہیں جو وراثت اور خزانوں کی مالک ہے، ہم روز بروز نئے نئے نظریات ایجاد کرتے رہتے ہیں اور انسانی علم کو سیرت نبوی جو کہ علم و حکمت کا سرچشمہ ہے ، سے تقابل کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں ۔
ہمیں مثبت شخصیتوں کو رول ماڈل بنانا چاہیے جو ہمیں مثبت نفسیاتی طاقت فراہم کریں ، جو ہمارے بچوں کو نفسیاتی دباؤ کے وقت میں صبر و استقامت سے نوازیں ۔ کبھی کبھی ذہنی دباؤ اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ لوگوں کو تباہ و برباد کردیتا ہے اور ان کے پاس ڈپریشن کے سوا کچھ نہیں بچتا ۔ وہ اپنے آپ پر اور دوسروں کے ساتھ اپنے ردعمل پر قابو نہیں رکھ پاتے، اس طرح خود کو بھی نقصان پہنچاتے ہیں اور دوسروں کو بھی تکلیف دیتے ہیں۔ موجودہ دور میں معاشرے میں پھیلنے والے جرائم اس عدم توازن کا واضح ثبوت ہیں جنہوں نے معاشرے، خصوصاً نوجوانوں کو کافی متاثر کیا ہے۔
تمام والدین کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کے لیے رول ماڈل بنیں اور ایسا تبھی ممکن ہے جب وہ انھیں دینی تعلیم سے ہم کنار کرنے کے ساتھ ساتھ نماز پڑھنے کی تلقین کریں گے تاکہ بچے اچھے کردار کے حامل ہوکر پرورش پائیں اور اپنے ردعمل میں توازن اور نفسیاتی استحکام سے کام لیں اور منفی افکار، تباہ کن خیالات، مایوسی اور بے صبری سے دوررہیں اور ایسے نہ بنیں جو زندگی کے دباؤ کا سامنا نہیں کر سکتے۔
خاندان اور معاشرے میں رول ماڈل کی عدم موجودگی میں منفی افکار پروان چڑھنے لگتے ہیں۔ نسلوں کی نفسیاتی کشمکش اقدار اور پیسوں کے درمیان حائل ہو جاتی ہے۔ اس طرح کے کئی نقصانات معاشرے کو اٹھانےپڑتے ہیں ۔ منفی سوچوں سے ذاتی سطح پرمعاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔ شوشل میڈیا پر اس طرح کے واقعات دیکھنے کو ملتے رہتے ہیں ۔ اب والدین کو اختیار ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کس ر خ پر کرناچاہتے ہیں اور انہیں کون سا رول ماڈل دینا چاہتے ہیں؟