حالیہ دنوں میں روچیکا گہرواترا اور ایس پی ایس راٹھور کیس قومی میڈیاپر چھایا رہا ہے۔ اخبارات نے صفحہ اول پر اس کیس کی خبریں اور تفصیلات شائع کیں، جب کہ الیکٹرانک میڈیا بھی اس کیس کو پوری طرح عوام کے سامنے اجاگر کرتا رہا۔ ایس پی ایس راٹھور ہریانہ پولیس کے سابق ڈائرکٹر جنرل ہیں، جن پر بنیادی الزام یہ ہے کہ انھوں نے روچیکا گہرواترا کو جنسی ہراسانی کا شکار بنایا اور اسی سے تنگ آکر اس نے خود کشی کرلی۔ جبکہ روچیکا ایک طالب علم تھی اور اپنی سہیلی کے ساتھ ٹینس کورٹ ٹینس کھیلنے جاتی تھی جہاں راٹھور صاحب بھی موجود ہوتے تھے۔
راٹھور نے روچیکا کو جنسی طور پر ہراساں کیا تو اس نے کھیلنے جانا بند کردیا۔ وہ اس کے گھر آئے اور اسے مناکر دوبارہ کھیلنے آنے کے لیے آمادہ کرلیا۔ لیکن وہی ہوا جو ’’راٹھور محترم‘‘ چاہتے تھے۔ اس کی سہیلی کو باہر بٹھا دیا گیا اور پھر روچیکا کے ساتھ کیا ہوا، یہ روچیکا اور راٹھور کو ہی معلوم ہے۔ لوگوں کو تو صرف اتنا معلوم ہے کہ بعد میں اس نے خود کشی کرلی۔
روچیکا کے اہلِ خانہ نے جو پنچکلا ہریانہ میں رہتے ہیں، راٹھور کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی مگر وقت کے ڈی جی پی کے خلاف ایف آئی آر درج کرانا آسان نہیں تھا، اس لیے انھیں شدید اور طویل جدوجہد کرنی پڑی اور ۱۹۹۰ء کا یہ واقعہ بالآخر ۲۰۰۹ء میں کھل کر سامنے آسکا۔ سابق ڈی جی پی نے اپنے آپ کو بچانے کے لیے وہ تمام اثرات اور ہتھکنڈے استعمال کیے جو بدکردار مگر بارسوخ لوگ استعمال کرتے ہیں۔ یہاںتک کہ انھوں نے روچیکا کے اسکول پر بھی اپنے اثرورسوخ کا استعمال کیا اور اسے اخلاقی طور پر برا بتاکر اسکول سے خارج کرادیا۔
بیٹی سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے باوجود روچیکا کے والدین نے ہار نہیں مانی اور انصاف کی لڑائی لڑتے رہے۔ اس پورے عرصے میں روچیکا کی سہیلی ارادھنا گپتا کے والد نے ان کی زبردست ہمت بندھائی اور انصاف کی اس جنگ میں وہ نہ صرف برابر شریک رہے بلکہ کلیدی کردار ادا کرتے رہے۔ بالآخر سابق ڈی جی پی ہریانہ پولیس گرفتار کرلیے گئے۔
معاملہ کیونکہ ایک سابق ڈی جی پی کا تھا، اس لیے میڈیا میں بھی خوب کوریج ملا۔ وزیرِ داخلہ پی چدمبرم نے بھی مداخلت کی اور ہریانہ کے وزیراعلیٰ ہوڈا نے بھی روچیکا کے اہلِ خانہ کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا۔
وزیرِ داخلہ نے کیس کی فائلیں از خود طلب کیں اور پھر مرکزی و ریاستی حکومت کے اتفاق کے ساتھ معاملہ کی تحقیقات سی بی آئی کے سپرد کردی گئیں۔ اور تقریباً انیس سال پرانے کیس نے ایسا رخ اختیار کرلیا جسے دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ روچیکا کے اہلِ خانہ کو شاید انصاف مل جائے اور راٹھور کو اپنی بدکرداری کی کچھ سزا بھی۔
روچیکا اور راٹھور کیس ملک کے لیے کئی پہلوؤں سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے اور اس میں عوام اور حکو متی اداروں کے لیے کئی پہلو ہیں جن پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیے۔
٭ راٹھور کوئی عام آدمی یا مجرم کی طرح نہیں ہیں۔ وہ ہریانہ پولیس کے سب سے اعلیٰ عہدے دار ڈائریکٹر جنرل ہیں۔ جن کی ذمہ داری ریاست میں نظم و نسق کو کنٹرول کرنا اور جرائم کو ختم کرنا رہی ہے۔ اور اس حیثیت سے وہ ریاست کے سب سے بااثر فرد رہے ہیں۔ اس قدر ذمہ دار اور اونچے عہدہ پر رہتے ہوئے، ان کا اس قدر گھناؤنے جرم میں ملوث ہونا ایک طرف تو ان کے غلیظ کردار کی طرف توجہ مبذول کراتا ہے اور دوسرے عوام کو یہ بھی سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ باختیار رہتے ہوئے انھوں نے اور کیا کیا کالے کارنامے انجام نہ دیے ہوںگے۔ ان کا یہ کردار اس سطح کے دیگر سرکاری افسران کے کردار پر بھی کالا داغ لگاتا ہے جو ظاہر ہے صاف ستھرے ہوسکتے ہیں۔
٭ روچیکا ایک عام مگر ماڈرن خاندان کی لڑکی تھی، جسے ایک اعلیٰ افسر کے ظلم و ستم کا نشانہ بننا پڑا جبکہ راٹھور اپنے اثرات کے اعتبار سے نہایت بارسوخ اور ذی اثر آدمی تھے اور انھوں نے اس ظلم پر پردہ ڈالنے کی ہر ممکن کوشش کی اور اسی کے سبب روچیکا کے خاندان والوں کو کئی سال دردر کی ٹھوکریں کھانی پڑیں، جس سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ مجرمین کا ایک بڑا گروہ وہ با اثر طبقہ بھی ہے جو محض اپنے اثرات اور حکومتی نظام سے گہرے تعلق کے سبب بے نقاب نہیں ہوپاتا۔ اس بات کی توثیق گزشتہ دنوں منظر عام پر آئی خواتین کمیشن کی رپورٹ سے بھی ہو تی ہے جو یہ بتاتی ہے کہ خواتین کے خلاف یا جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں میں ایک بڑا طبقہ وہ ہے جو محض اپنے اثر و رسوخ کے سبب بچ نکلتا ہے۔
٭ روچیکا ایک ماڈرن، تعلیم یافتہ اور شہر کی رہنے والی طالبہ تھی، جس کے والدین تقریباً انیس سال انصاف کی جنگ میں مصروف رہے اور تاحال مصروف ہیں۔ مگر ظاہر ہے یہ صورتِ حال ملک کے عام شہریوں اور خواتین کے ساتھ نہیں ہے جبکہ خواتین کے خلاف جرائم کا ارتکاب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جنسی ہراسانی اور خواتین کے خلاف جنسی جرائم میں کتنے لوگ اس قدر طویل اور سخت ترین جنگ لڑنے کے متحمل ہوسکتے ہیں اور وہ بھی سماج کے بااثر لوگوں کے خلاف۔ نتیجہ اس طرح کے کیسسز میں بڑی تعداد ایسی ہے جن میں ایف آئی آر تک درج نہیں ہوپاتی۔ یہ صورتِ حال حکومت کے لیے خاص طور پر قابلِ توجہ ہے۔ اور حکومت سے تقاضہ کرتی ہے کہ وہ انصاف کے عمل کو آسان، تیز رفتار اور تمام لوگوں کے لیے یکساں طور پر قابلِ حصول بنانے کی فکر کرے۔
٭ روچیکا راٹھور معاملہ کو مظلوم اور طاقت ور ظالم کے ظلم کے نمائندہ کی حیثیت سے دیکھا جانا چاہیے۔ اور حکومت کو ایسا عدالتی نظام وضع کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جس میں دونوں فریق یکساں حیثیت رکھتے ہوں۔ جہاں ظالم اپنے اثر و رسوخ اور طاقت کے سبب بچ کر نہ نکل پائے اور مظلوم اپنی کمزوری اور عدمِ رسوخ کے سبب انصاف سے محروم نہ رہے۔
٭ روچیکا راٹھور کیس نے اگرچہ عوام کے اس یقین کو پختہ کیا ہے کہ انصاف ہر ایک کو مل سکتا ہے اور سزا ہر مجرم کو ہوسکتی ہے خواہ وہ کتنا ہی بااثر کیوں نہ ہو، لیکن یہ بات ابھی بھی غیر یقینی کیفیت میں پڑی ہے کہ ایک عام آدمی کس طرح انصاف کے اعلیٰ ترین ایوانوں میں دستک دے سکتا ہے۔ لوگ ابھی بھی روچیکا کے اہلِ خانہ کو خوش قسمت تصور کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کے کیس کی گونج وزارتِ داخلہ میں سن لی گئی اور ملک بھر میں اس کی تشہیر بھی ہوئی لیکن عام آدمی ابھی تک کوئی ایسی راہ تلاش کرنے میں ناکام ہے جس پر چل کر وہ بھی انصاف حاصل کرسکے۔
یہ معاملہ ہمارے اپنے سماج اور معاشرے کا ہے اس لیے سماجی اور معاشرتی نقطۂ نظر سے بھی ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے۔ اس حیثیت سے جب ہم دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بڑھتے جرائم کے اس دور میں بھی والدین کس طرح اپنی بچیوں کو تنہا اور وقت بے وقت بن ٹھن کر نیم لباسی کی حالت میں باہر بھیجنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ جبکہ جرائم کا حال یہ ہے کہ ہماری عورتیں آئے دن ان کا شکار ہورہی ہیں۔ اسی طرح والدین کی یہ غفلت بھی سامنے آتی ہے کہ وہ اپنی اولاد سے کس قدر لاتعلق ہیں اور اولاد اور والدین کے درمیان محبت اور جذباتی تعلق کس قدر کمزور ہوچکا ہے کہ ایک بیٹی گھر سے باہر اپنے اوپر ہونے والے ظلم کی خبر اپنے والدین کے ساتھ شیئر نہیں کرپاتی اور گھٹ گھٹ کر جیتی اور بالآخر خود کشی کرلیتی ہے۔ جبکہ والدین کو اپنے بچوں کا ایک ایسا دوست ہونا چاہیے، جنھیں وہ اپنی ہر بات بہ آسانی بتاسکیں اور اگر ان کے ساتھ کوئی زیادتی کہیں ہوئی ہو تو وہ فوراً بلا تکلف اپنے والدین کو اس سے آگاہ کرسکیں۔ آج کل والدین اور بچوں کا تعلق اس قدر رسمی اور واجبی سا ہوگیا ہے کہ بچے اپنے ہی گھر میں خود کو تنہا محسوس کرنے لگے ہیں اور یہ امید کھوچکے ہیں کہ ان کے اہل خانہ ان کے مسائل میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
گھر اور خاندان سماج کی سب سے بنیادی اکائی ہے، جہاں آپسی تعلق نہایت مضبوط، گہرا، بے تکلف اور پرخلوص ہونا چاہیے۔ اور یہی کیفیت گھر کے مختلف افراد کو مسائل سے لڑنے اور زندگی کی جدوجہد میں کامیاب ہونے کا عزم و حوصلہ دیتی ہے اور جب یہ مفقود ہو تو انسان زندگی کی جنگ میں ہار جاتا ہے اور زندگی کی جنگ میں ہارنے کا نتیجہ مایوسی کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خود کشی کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے اور لوگ اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگیاں ختم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اور روچیکا کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا۔