قرآن کریم میں سورہ البقرہ کی تلاوت کرتے ہوئے بشیر احمد جب اس آیت پر پہنچا:
’’اور وہ وقت بھی یاد دلاؤ، جب ابراہیم اور اسمعیل علیہما السلام خانہ کعبہ کی بنیادیں بلند کر رہے تھے اور دعا مانگتے جاتے تھے کہ اے ہمارے پرورگار! ہماری یہ خدمت قبول فرما، بے شک تو ہی دعا کا سننے والا اور نیت کا جاننے والا ہے۔‘‘
تو اس کا گلا رندھ گیا۔ آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور بے اختیار اس نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا دیے، بے شک میرے رب! تو سننے اور جاننے والا ہے۔ تو جانتا ہے کہ اس سال بھی میں قربانی نہیں کرسکوں گا، کیوں کہ وہ روپے، جو میں نے اور میری بیوی، سکینہ نے قربانی کے لیے جمع کیے تھے، وہ صغیر بھائی کو ان کے بچے کے آپریشن کے لیے دے دیے ہیں۔ میرے رب! میرا یہ عمل بھی تیری ہی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اور میر اقربانی کا ارادہ بھی، تیری رضا پانے کے لیے تھا۔ تو میری اس خدمت کو قبول فرمالے۔ بے شک تو نیتوں کا حال جاننے والا ہے۔ دعا مانگ کر بشیر احمد کا دل کچھ ہلکا ہوا۔ اس وقت باورچی خانے میں سکینہ رات کے جھوٹے برتن دھو رہی تھی، لیکن یوں گمان ہو رہا تھا کہ وہ دھونے کی نسبت پٹخ زیادہ رہی ہے۔ گرچہ وہ دو دنوں سے بشیر احمد سے ناراض تھی، اس کے باوجود حسب معمول وہ اپنے گھر اور شوہر کا خیال بھی رکھ رہی تھی اور آج بھی صبح میں اس کے لیے چائے لے آئی تھی۔ اس کی آنکھیں سوجی سوجی سی تھیں۔ گزشتہ دو دنوں میں وہ بشیر سے چھپ کر کئی بار چپکے چپکے روئی تھی۔ جب سکینہ چائے نماز کی چو کی پر رکھ کر جانے کے لیے مڑی تو بشیر احمد نے اس کا ہاتھ تھام کر چوکی کے پاس پڑی کرسی پر بٹھا لیا۔
’’اری نیک بخت! ناراض ہو، اب تک؟‘‘
بشیر احمد نے پوچھا:
’’میرے ناراض ہونے یا نہ ہونے سے تمہیںکیا فرق پڑتا ہے، کرنا تو تمہیں وہی ہے جو تمہارے دل میں سما جائے۔‘‘ سکینہ سپاٹ لہجے میں بولی:
’’سکینہ تونے نہیں دیکھا، صغیر بھائی کے چہرے کا وہ کرب، اپنے بیٹے کاشف کے لیے۔ تجھے پتا ہے ناں، ایک ہی تو بیٹا ہے، صغیر بھائی کا۔ دو بیٹیوں کے بعد کتنی منتوں، مرادوں سے پیدا ہوا تھا۔ اب یہ ناگہانی آفت ہی تو تھی کہ اس کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور ان میاں بیوی کے پاس آپریشن کے لیے پیسے تک نہ تھے۔‘‘ یہ دیکھ سکینہ یہ اللہ کا کلام۔ سترہواں پارہ سورہ الحج کی آیت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ:
’’اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا بلکہ اس تک تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہے۔‘‘
دیکھ ، ہماری نیت تو قربانی کی تھی۔ کیا پتا وہ ہماری نیت کے خلوص کو قبول کرلے۔‘‘ خدا کرے ایسا ہی ہو۔ سکینہ نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا اور خاموشی سے باورچی خانے میں چلی آئی۔
کاشف، بشیر کا بھتیجا تھا، وہ دو روز قبل کالج میں داخلے کی غرض سے فارم لینے گیا۔ واپسی پر راستے میں بسوں کی ریس شروع ہوگئی اور اسی اثنا میں اس کا اسٹاپ بھی آگیا۔ جیسے ہی وہ بس سے اترنے لگا تو ڈرائیور نے بس چلا دی۔ نتیجتاً وہ توازن برقرار نہ رکھ سکا اور چلتے روڈ پر گر گیا۔ عین اسی وقت، عقب سے آنے والی گاڑی اس کی ٹانگ کچلتی ہوئی گزر گئی۔ آناً فاناً راہ گیر جمع ہوگئے اور کاشف کو فوری طور پر اسپتال لے گئے۔ کاشف کے موبائل فون سے جب اس کے والد صغیر صاحب کو فون کیا گیا، تو وہ خود گھبر اگئے۔ انہوں نے فوراً ہی اپنے بڑے بھائی، بشیر کو اطلاع دی اور دونوں آن کی آن میں اسپتال پہنچ گئے۔ چیک اپ کے بعد انہیں پتا چلا کہ کاشف کی پنڈلی کی ہڈی تین جگہ سے ٹوٹ گئی ہے۔ لہٰذا آپریشن کر کے پنڈلی میں راڈ ڈالی جائے گی۔ جب ڈاکٹرز نے بتایا کہ آپریشن کے لیے کم از کم ایک لاکھ روپے درکار ہیں تو صغیر کو غش آگیا۔ بشیر سے اپنے بھائی کی حالت نہ دیکھی گئی۔ وہ بھائی کو تسلی دے کر گھر گیا اور قربانی کی غرض سے ڈالی گئی کمیٹی کی رقم لے آیا۔ لیکن جب وہ گھر سے رقم لے کر نکل رہا تھا، تو سکینہ نے دبے دبے لفظوں میں منع کیا، مگر وہ کچھ کہے سنے بغیر اسپتال آگیا اور ساری رقم بھائی کو تھمادی۔ سکینہ اسی بات کو لیے اس سے سخت ناراض تھی۔
بشیر احمد ایک سرکاری ادارے میں کلرک تھا، وہ تین بھائی تھے، جب تک ماں زندہ رہی، سب مل کر ساتھ رہتے تھے۔ بقرعید آئی تو تینوں بھائی اپنے اپنے جمع کیے ہوئے پیسے ماں کو دے دیتے۔ ہر سال قربانی کا جانور خریدا جاتا، جس میں تین حصے ماموں کے ہوتے تھے۔ پھر ماں کا انتقال ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد ماموں ریٹائر ہوکر بچوں کے پاس بیرون ملک چلے گئے۔ جہاں کبھی وہ ایک بیٹے کے گھر تو کبھی دوسرے بیٹے کے گھر رہتے۔ بشیر احمد اور اس کے دونوں بھائیوں نے بھی اپنے اپنے گھر الگ کرلیے۔ جب بشیر اور سکینہ ایک ہوئے، تب سے ان دونوں کی خواہش تھی کہ وہ اپنے گھر میں بکرے کی قربانی کریں۔ مگر بشیر احمد کی محدود آمدنی میں یہ ممکن نہیں تھا۔ سکینہ اکثر بشیر احمد سے کہتی ’’بشیر احمد! قربانی کرنے سے گھر میں برکت ہوتی ہے۔ جب اماں کے گھر قربانی ہوتی تھی ناں، تب تو تمہاری آمدنی اب سے بھی کم تھی، مگر گھر میں گوشت بھی پکتا تھا اور مرغی بھی۔ تو بھولی ہے سکینہ، میری آمدنی تو ہمیشہ سے کم تھی، مگر جب ہم سب ساتھ مل کر رہتے تھے، خرچا اماں اٹھاتی تھیں۔ وہ میرے پیسوں میں ابا کی پینشن جو انہیں ملتی تھی وہ بھی ملا دیتی تھیں، اس لیے کبھی کمی نہیں ہوتی تھی۔ اماں کے بعد میرے بھائیوں نے اسی لیے اپنے گھر الگ کرلیے کہ کہیں میں ان پر بوجھ نہ بن جاؤں اور میرا خرچا انہیں نہ اٹھانا پڑ جائے۔ اور اس طرح بات آئی گئی ہوجاتی۔ اس برس بھی جب سکینہ نے قربانی کی بات کی تو بشیر کچھ دیر خلا میں تکتا رہا پھر خود ہی خاموشی توڑتے ہوئے بولا ’’میرے ذہن میں ایک بات آئی ہے۔ آفس میں میرے دوست کمیٹی ڈال رہے ہیں، ٹوٹل ۵۲ افراد ہیں۔ ماہانہ ہزار روپے دینا ہوں گے۔ بقرعید میں ابھی کئی مہینے باقی ہیں۔ دوستوں سے بات کر کے بقر عید والی کمیٹی میں لے لوں گا۔ دس ہزار کا اچھا سا بکرا تو آہی جائے گا۔ باقی رقم سے گھر کی مرمت کے کچھ کام نمٹالیں گے۔ ’’ٹھیک ہے بشیر احمد! تم کمیٹی ڈال دو۔‘‘ سکینہ نے خوشی سے کہا: ’’ویسے، اب بھی سوچ لو، تنخواہ میں سے اکٹھے دو ہزا رروپے کم ہوں گے، تو گھر کا بجٹ آؤٹ نہ ہوجائے۔‘‘ بشیر احمد نے کہا۔ ’’اللہ مالک ہے، بشیر! میں نے صغراں خالہ سے بھی بات کی ہے کہ وہ مجھے سلائی کے لیے کپڑے دلوادیں گی۔ بچے اسکول چلے جاتے ہیں، تو صبح میں میرے پاس خاصا وقت ہوتا ہے۔ اس دوران میں سلائی کرلیا کروں گی۔ ’’اس طرح ان دونوں نے کمیٹی ڈال لی اور سکینہ تنگی ترشی سے گزارہ کر کے ایک ایک دن گننے لگی کہ کب بقر عید آئے اور کب کمیٹی کی رقم ملے۔ جب پہلی تاریخ کو کمیٹی ملی تو دونوں میاں بیوی کے پاؤں زمین پر ٹک نہیں رہے تھے۔ لیکن پھر کاشف کا حادثہ ہوگیا، تو بشیر نے وہ رقم بھائی کو دے دی۔ جس پر سکینہ نے اسے کہا: ’’یہ کیا کیا بشیر تم نے، وہ روپے اللہ کی امانت تھے، تم نے خیانت کردی۔ یہ تم نے کیا کیا، بشیر احمد!!‘‘ یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور کئی دن تک اس سے بات تک نہیں کی، لیکن کچھ دنوں بعد زندگی پھر سے اپنی ڈگر پر لوٹ آئی۔
بقرعید میں چار روز باقی تھے۔ بشیر احمد آفس جانے کے لیے تیار ہو رہا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ بشیر احمد نے دیکھا خالہ صغریٰ کے میاں ہاتھ میں تھیلا لیے کھڑے تھے۔ اسے دیکھتے ہی بولے ’’بھئی تو آفس جاتے ہوئے مجھے ذرا اظہر کے پاس بینک تک چھو ڑدینا‘‘ جی اچھا، میں آپ کو چھوڑ دوں گا، خالو آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ کو پینشن لینا ہوگی۔ ’’بشیر احمد نے موٹر سائیکل دروازے سے باہر نکالتے ہوئے کہا: ’’نہیں میاں! اب تم سے کیا پردہ۔ قربانی کے لیے جانور لینا تھا دس ہزار روپے کم پڑ رہے تھے، تو تمہاری خالہ نے یہ پرائز بونڈ دے دیے کہ یہ واپس کر کے بینک سے روپے لے آؤ۔‘‘ جیسے ہی بشیر نے خالو کی یہ بات سنی، تو اسے یاد آیا کہ کئی مہینے پہلے جب وہ خالوں کے ساتھ بینک گیا تھا، تو خالو ہی کے اصرار پر اس نے دو سو روپے کا پرائز بونڈ خرید لیا تھا۔ شروع شروع میں تو وہ بڑی پابندی سے بونڈ چیک کرتا، مگر جب بونڈ نہ کھلا، تو وہ اسے الماری ہی میں رکھ کر بھول بھال گیا۔‘‘ خالو! کیوں نہ میں بھی اپنا پرائز بونڈ چیک کروالوں جو آپ کے ساتھ لیا تھا۔ یہ کہتے ہی گھر میں گیا اور الماری سے برائز بونڈ نکال لایا۔ کچھ دیر بعد دونوں بینک پہنچ گئے۔ بینک پہنچ کر جب وہ پرائز بونڈ اظہر کو دیا، تو پتا چلا کہ اس کے بونڈ کی قرعہ اندازی تو دس دن پہلے ہوچکی تھی۔ پھر بھی اظہر نے فہرست چیک کی، تو مسکراتے ہوئے کہا: ’’مبارک ہو بشیر بھائی! آپ کا برائز بونڈ کھل گیا ہے۔ تیسرا انعام نکلا ہے آپ کا، وہ بھی ایک لاکھ روپے کا۔‘‘کیا؟ بشیر احمد کو اپنے دل کی دھڑکن رکتی ہوئی محسوس ہوئی اور اٹک اٹک کر پوچھا: ’’ذرا پھر سے چیک کرلینا۔‘‘ بشیر بھائی! میں نے اچھی طرح چیک کرلیا ہے، اور ہاں آپ دو دن کے اندر درخواست دے کر انعام کی رقم وصول کرسکتے ہیں۔ ’’یہ سنتے ہی اس نے فورا درخواست دی اور خالو کے ساتھ خوشی خوشی بائیک اسٹارٹ کر کے گھر کی طرف چل دیا۔
آج بقرعید کا دن تھا، بشیر احمد کے بچے نئے کپڑے پہنے خوشی خوشی بکرے کے آس پاس گھوم رہے تھے۔ سکینہ دھیمے سروں میں گنگناتے ہوئے، کلیجی کا مسالا تیار کر رہی تھی کہ رمضو قصائی نے دروازے پر دستک دی۔‘‘ چلو بچو ہٹو، بکرے کی قربانی کا ٹائم ہوگیا ہے۔ بشیربھائی! جلدی کرو، مجھے بہت جگہ جانا ہے۔ ’’رمضو قصائی نے آتے ہی گھر میں ہلچل سی مچا دی۔ بشیر احمد نے ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر رمضو قصائی کے ساتھ بکرے کے گلے پر چھری رکھی، تو بے اختیار اسے سورۃ البقرۃ کی آیت کا ترجمہ یاد آگیا ’’ان لوگوں کی مثال، جو اپنا مال اللہ تعالیٰ کی رضا کی طلب میں دل کی خوشی اور یقین کے ساتھ خرچ کرتے ہیں، اس باغ کی سی ہے، جس پر زور دار بارش برسے اور وہ دگنا پھل لائے اور اللہ تمہارے اعمال دیکھ رہا ہے۔‘‘lll