اللہ تعالیٰ ہمارا رب ہے۔ وہ ہمارے سارے اعمال سے باخبر ہے۔ وہ ہماری نیتوں اور ارادوں کو جانتا ہے۔ ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وہ اپنا ہر عمل صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے کریں۔ ریا کاری اور نام و نمود کے جذبے سے اپنے اعمال کو پاک و صاف رکھیں۔ قرآن مجید میں یہ حقیقت بار بار بیان کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ علیم و خبیر ہے۔ وہ تمہارے سب اعمال کو دیکھ رہا ہے۔ تمہاری نیتوں سے خوب واقف ہے۔ اور پھر پلٹ کر تم کو اسی کے پاس جانا ہے۔ پھر وہ تم کو بتا دے گا کہ تم کیسے عمل کرکے آئے۔ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
ان تخفوا ما فی صدورکم او تبدوہ یعلمہ اللہ۔
’’تمہارے سینوں میں جو کچھ ہے اسے تم چھپاؤ یا ظاہر کرو اللہ کو بہر حال اس کا علم ہوجاتا ہے۔‘‘
اعمال کے اجرو ثواب کا انحصار ان کی ظاہری شکل و صورت پر نہیں بلکہ اس بات پر ہے کہ وہ عمل خالصتاً اللہ اور رضائے الٰہی کے لیے کیا گیا ہو۔ حضرت ابوہریرہؒ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لوگ قیامت کے دن صرف اپنی نیتوں پر اٹھائے جائیں گے۔‘‘ (ابن ماجہ)
آخرت میں انسان کا ظاہر نہیں دیکھا جائے گا بلکہ صرف یہ دیکھا جائے گا اس نے جو نیک اعمال کیے کس نیت سے کیے۔ کیا اللہ کی رضا و خوشنودی کے لیے یا دنیاوی شہرت اور نام و نمود کے لیے۔ اسی لحاظ سے اس کے اعمال کو قبول یا رد کیا جائے گا۔ حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: ’’اعمال کا دارومدار صرف نیت پر ہے اور آدمی کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہوگی۔ تو مثلاً جس نے اللہ اور رسول ﷺ کے لیے ہجرت کی ہوگی واقعی ہجرت ہوگی اور جس نے ہجرت دنیا حاصل کرنے یا عورت سے شادی کرنے کے لیے کی ہوگی تو اس کی ہجرت دنیا کے لیے یا عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوگی۔ ‘‘ (متفق علیہ)
سرور عالم ﷺ نے فرمایا: ’’جب آخری زمانہ آئے گا میری امت میں تین فرقے ہوجائیں گے۔ ایک فرقہ خالص اللہ کی عبادت کرے گا۔ دوسرا فرقہ ریا کاری کے لیے عبادت کرے گا تیسرا فرقہ اس لیے عبادت کرے گاکہ اس کے ذریعہ لوگوں کا مال کھائے۔ جب اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان سب کو جمع کرے گا تو آخری فرقہ اللہ سے کہے گا: میری عزت و جلال کی قسم! بتا میری عبادت سے تو کیا چاہتا تھا؟ تو وہ جواب دے گا: تیری عزت و جلال کی قسم! میں دینداری کی نمائش سے لوگوں کا مال کھا رہا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جو کچھ تو نے جمع کیا تھا اس نے تجھے فائدہ نہ پہنچایا۔ حکم ہوگا: اسے جہنم میں ڈال دو۔ پھر اس فرقہ سے کہے گا جو ریا کاری کے لیے اللہ کی عبادت کرتا تھا: ’’میری عزت و جلال کی قسم! بتا تیری منشا کیا تھی؟ وہ کہے گا: تیرے جلال اور تیری عزت کی قسم! لوگوں کو دکھاوا مقصود تھا۔ اللہ تعالیٰ کہے گا: اس سے کچھ بھی میرے پاس نہیں پہنچا۔ لے جاؤ اسے جہنم میں ڈال دو۔ پھر خدا وند قدوس اس فرقہ کو مخاطب کرے گا جو اللہ کی عبادت کرتا تھا اور اس سے پوچھے گا۔ ’’میری عزت اور میرے جلال کی قسم! میری عبادت سے تو کیا چاہتا تھا؟ وہ کہے گا: تیری عزت اور تیرے جلال کی قسم! تو اس شخص کے حال سے خوب واقف ہے جس نے تیرا ذکر اور تیری خوشنودی چاہی تھی۔‘‘ اللہ کہے گا: میرے بندے نے سچ کہا اسے جنت میں لے جاؤ۔‘‘ (طبرانی)
جو لوگ دوسروں کی اصلاح کرتے ہیں انھیں نیکیوں کی تلقین کرتے اور برائیوں سے روکتے ہیں مگر خود اپنی فکر نہیں کرتے اور خود برائیوں میں ملوث ہوتے ہیں آخرت میں انھیں دردناک عذاب دیا جائے گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ایک آدمی قیامت کے دن لایا جائے گا اور آگ میں پھینک دیا جائے گا تو اس کی انتڑیاں آگ میں نکل پڑیں گی پھر اسے آگ میں اس طرح لیے پھرے گا جیسے گدھا اپنی چکی میں پھرتا ہے، تو دوسرے جہنمی لوگ اس کے پاس اکٹھا ہوں گے اور پوچھیں گے: اے فلاں یہ تیرا کیا حال ہے؟ کیا تم ہم کو دنیا میں نیکیوں کی تلقین نہیں کرتے تھے؟ اور برائیوں سے نہیں روکتے تھے؟ (ایسے نیکی کے کام کرنے کے باوجود تم یہاں کیسے آگئے) وہ شخص کہے گا کہ میں تمہیں تو نیکیوں کی تلقین کرتا تھا اور خود اس کے قریب نہیں جاتا تھا اور برائیوں سے تم کو روکتا تھا پر خود کرتا تھا۔ (بخاری و مسلم، اسامہ بن زیدؓ)
نبی ﷺ نے فرمایا کے میں نے معراج کی رات کچھ لوگوں کو دیکھا کہ ان کے ہونٹ آگ کی قینچیوں سے کاٹے جارہے ہیں۔ میں نے جبرئیل ؑ سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ جبرئیل ؑ نے کہا کہ یہ آپؐ کی امت کے مقررین ہیں، یہ لوگوں کو نیکی اور تقویٰ کی تلقین کرتے تھے اور اپنے آپ کو بھول جاتے تھے۔‘‘ (مشکوٰۃ، انسؓ)
ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے کہا کہ میں تبلیغ دین کا کام کرنا چاہتا ہوں۔ امر بالمعر وف اور نہی عن المنکر کا کام کرنا چاہتا ہوں۔ انھوں نے کہا کہ کیا تم اس مرتبہ پر پہنچ چکے ہو؟ اس نے کہا ہاں توقع تو ہے۔ ابن عباسؓ نے کہا کہ اگر تمہیں یہ اندیشہ نہ ہوکہ قرآن کی تین آیتیں رسوا کردیں گی تو ضرور تبلیغ دین کا کام کرو، اس نے کہا وہ کون سی تین آیتیں ہیں؟ ابن عباسؓ نے فرمایا پہلی آیت یہ ہے:
(۱)أتأمرون الناس بالبر و تنسون انفسکم۔ (البقرہ)
’’کیا تم لوگوں کو وعظ کہتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو۔‘‘
ابن عباسؓ نے کہا: کیا اس آیت پر اچھی طرح عمل کرلیا ہے؟ اس نے کہا : نہیں۔ اور دوسری آیت:
(۲) لم تقولون ما لا تفعلون۔
’’تم کیوں کہتے ہو وہ بات جس کو کرتے نہیں؟‘‘
تو اس پر اچھی طرح عمل کرلیا ہے؟ اس نے کہا : نہیں۔ اور تیسری آیت:
(۳) ما ارید ان اخالفکم الی ما انہٰکم عنہ۔ (الہود)
’’(شعیبؑ نے اپنی قوم سے کہا): جن بری باتوں سے تمہیں منع کرتا ہوں ان کو بڑھ کر خود کرنے لگوں، میری نیت یہ نہیں (بلکہ میں تو ان سے بہت دور روںگا، تم میرے قول اور عمل میں تضاد نہ دیکھو گے)۔‘‘
ابن عباسؓ نے پوچھا کہ اس آیت پر اچھی طرح عمل کرلیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ تو فرمایا: جاؤ پہلے اپنے کو نیکی کا حکم دو برائی سے روکو یہ مبلغ کی پہلی منزل ہے۔