— رینگنے سے دماغی کمزوریاں دور ہوجاتی ہیں۔
— رینگنا بھینگے پن کا علاج ہے۔
— رینگنے سے عضلاتی بے ربطی کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
— رینگنا آنکھوں کے جملہ امراض دور کردیتا ہے۔
— رینگنا لفظوں کے اندھے پن کا واحد علاج ہے۔
اگر کوئی بچہ زمین پر رینگنے سے قبل ہی کھڑے ہوکر چلنا شروع کردے تو جدید تحقیق کے مطابق اس بات کا قوی امکان ہے کہ وہ ایک اچھا طالب علم ثابت نہیں ہوگا۔ ہجے غلط کرے گا اور ہوسکتا ہے کہ الفاظ الٹے لکھنا شروع کردے۔ اس نظرئیے کو ثابت کرنے کے لیے امریکہ کے دو بہت مشہور اور ماہرِ فن ڈاکٹر دن رات تجربے کیے۔ فلا ڈلفیا کی یونیورسٹی میں ماہرین دس سال تک کے بچوں کو ذہین بنانے کے لیے رینگنے کا حکم دے رہے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جو لفظوں کے اندھے کہلاتے ہیں اور پڑھنے لکھنے اور الفاظ کو پہچاننے کے ناقابل ہیں۔ ان میں سے کسی بچے کو کہیے کہ ناک کے ہجے کرے تو وہ پچھلی طرف سے شروع کرے گا اور ک ا ن کان بنادے گا۔ انھیں کوئی کتاب پڑھنے کے لیے دیجیے تو یہ اسے بالکل الٹا پکڑیں گے اور پڑھنا شروع بھی کریں گے تو بائیں طرف کی بجائے دائیں طرف سے۔ طبی سائنس ابھی تک اس مرض کا کوئی علاج پیش نہیں کرسکی۔ گو ایک اندازے کے مطابق ہر دس میں سے ایک آدمی کسی نہ کسی حد تک لفظوں کا اندھا ہوتا ہے۔
اب سے کچھ عرصہ قبل ایسے بچوں کو نکھٹو، کام چور اور پھسڈی سمجھ کر نفسیات کے ماہرین کے سپرد کردیا جاتا تھا۔ لیکن جدید تحقیق کے مطابق ایسے بچے جو پڑھنے لکھنے کے ناقابل سمجھے جاتے ہیں وہ دوسرے بچوں سے زیادہ حسین اور صحیح الدماغ ہوسکتے ہیں۔ وہ صرف لفظوں کے اندھے پن کا شکار ہوتے ہیں۔
شب روز کی محنت کے بعد فلاڈلفیا یورنیوسٹی کے تحقیقی مرکز کے دو ماہرین ڈاکٹر سڈنی گروف مین اور ڈاکٹر مان ون سچر بعض نتائج پر پہنچ گئے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بچے کے رینگ کر چلنے اور لفظوں کا اندھا ہونے میں بڑا قریبی تعلق ہے وہ بچہ جو کم رینگتا ہے اور بعض وجوہات کی بنا پر پاؤں پر کھڑا ہوکر چلنے لگتا ہے لفظوں کے اندھے پن کا شکار ہوجاتا ہے۔ ان کے نظریے کے مطابق جو بچہ پاؤں پاؤں چلنے سے پیشتر رینگتا نہیں اس کے دماغ کے بعض حصے پورے طور پر نشو ونما نہیں پاتے۔ نتیجتاً عضلاتی ربطی کے باعث بچے کے دماغ اور بصارت پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔
سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ماہرین کے قول کے مطابق اگر ہم پانچ سے دس سال کے بچوں کو جو لفظوں کے اندھے پن کا شکار ہوں زمین پر لیٹ کر رینگنے کے لیے کہیں اور کچھ مدت انھیں اسی طرح رینگنے کی مشق کرواتے رہیں تو ان کے دماغ کے نامکمل نشو و نما والے حصے بھی درست ہوجاتے ہیں۔ اگر اس کے ساتھ ساتھ آنکھوں کی ورزشیں بھی کرواتے رہیں تو پھسڈی سے پھسڈی بچہ بھی پڑھنے لکھنے میں تیز ہوسکتا ہے اور لفظوں کا اندھا پن مکمل طور پر دور ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں انھوں نے بہت سے بچوں پر تجربات کیے جو اس مرض کا شکار تھے۔ پہلا بچہ جس پر یہ تجربہ کیا گیا ۹ سال کا تھا اور لفظوں کے اندھے پن کا مکمل شکار۔ وہ ایک لفظ تک درست نہیں پڑھ سکتا تھا، چند ماہ تک اسے ہر روز دس منٹ کے لیے رینگنے کو کہا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ آنکھوں کی ورزشیں بھی کروائی گئیں۔ متعینہ مدت مکمل ہونے پر یہ بچہ عام بچوں کی طرح بالکل تندرست اور صحیح الدماغ بن گیا۔
دوسرا بچہ جس پر تجربہ کیا گیا سات سال کا تھا۔ اسے الفاظ کو الٹا لکھنے کی عادت تھی۔ مثال کے طور پر وہ میز کو زیم لکھا کرتا اسے صرف تین ہفتے رینگنے کی مشق دی گئی تو وہ لفظوں کے ہجے درست کرنے اور لکھنے گا۔
تیسرا اور سب سے حیرت انگیز تجربہ ایک نوسالہ بھینگی بچی پر کیا گیا جو کلی طور پر عضلاتی بے ربطی کا شکار تھی اور اٹھ کر کھڑی بھی نہیں ہوسکتی تھی۔ اسے رینگنے کی مشق،بائیس ماہ تک دی گئی، اب وہ مکمل طور پر چل پھر سکتی ہے اور اس کی آنکھوں کا لفظی اندھا پن بھی دور ہوگیا ہے۔
تجربات کے دوران ڈاکٹر گراف مین نے محسوس کیا کہ بھینگے بچے بھی رینگتے وقت بالکل صحیح طریقہ سے دیکھتے ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ بھینگے پن کا علاج بھی رینگنے سے ہوسکتا ہے۔ کیونکہ بھینگا پن عضلاتی بے ربطی کا باعث ہوتا ہے اور رینگنے سے عضلاتی بے ربطی ختم ہوسکتی ہے۔ تاہم یہ ضروری نہیں کہ بھینگے پن کے ہر شکار کا علاج رینگنے سے ہوسکے۔ اس مرض کے علاض میں تو رینگنا صرف پہلا قدم ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعد میں آپریشن کی ضرورت محسوس ہو یا پھر کوئی اور طریقہ اختیار کرنا پڑے۔ انہی تجربات کے دوران ایک اور حقیقت معلوم کی گئی۔ ہماری دونوں آنکھوں میں سے بعض اوقات ایک آنکھ زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔ دوسری کمزور۔ اس صورت میں کمزور آنکھ کی طرف کا ہاتھ کمزور ہوگا، یعنی اگر دایاں ہاتھ کمزور ہے تو دائیں آنکھ کمزور ہوگی۔ اسی طرح اگر پایاں ہاتھ کمزور ہے تو بائیں آنکھ بھی کمزور ہوگی۔