میں عمر بھر جرم و گناہ سے بچنے کی کوشش کرتا رہا۔
خلوت گزین رہا۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰـ کو یاد کرتا رہا، اور
عبادت میں مشغول رہا۔
میں نے کسی کا دل نہیں دکھایا، کسی پر بہتان نہیں باندھا۔
کسی کی غیبت نہیں کی،
بندئہ تسلیم و رضا بنا رہا۔
سوچتا ہوں کہ
میں نے حقوق اللہ تو ادا کردیے، لیکن حقوق العباد کو ادا نہیں کیا۔ سرطانی ادارے اور معاشرتی سرطان محنت کشوں اور غریبوں کا ناحق استحصال کرتے رہے،
ان کا خون چوستے اور ان پر مظالم توڑتے رہے۔
ان کی کمائی کھاتے اور ان کے حقوق غصب کرتے رہے، اور
میں دیکھتا رہا اورعبادت میں مشغول رہا۔
غریبوں کے بچے تعلیم و تربیت سے محروم رہے۔اپنے ربِّ کریم کی نعمتوں کو ترستے رہے،
اپنی محرومی پر روتے رہے،
کھیلنے کے دنوں میں محنت و مزدوری کرتے رہے،
بھیک مانگتے رہے،
ننگے پاؤں، ننگے سر اور ننگے بدن زندگی بسر کرتے رہے۔
میں دیکھتا اور عبادت کرتا رہا۔
بے سہارا یتیم بچے درد ر کی ٹھوکریں کھاتے رہے، زاہد و عابد کہلانے والے انھیں اپنے گھروں میں اپنے بچوں کی طرح پالنے کی بجائے، ان کو دھتکارتے رہے۔
اور یتیم خانوں میں بھیک مانگنے کے لیے قید کرتے رہے۔
وہ محبت و شفقت کو ترستے رہے، لیکن
میں نے ان کے لیے کچھ نہیں کیا۔ معاشرے اور حکومت کو ان کی کفالتِ حسنہ کے لیے کچھ نہیں کہا۔
میں عبادت کرتا رہا۔
قتل و غارت کا بازار گرم رہا،
فساد ہر گوشۂ حیات میں برپا رہا،
ظلم و استحصال کے خونچکاں ہنگامے پرورش پاتے رہے،
عزّت و ناموس کے جنازے اٹھتے رہے،
جسم بکتے رہے اور روحیں جلتی رہیں۔
مجبور و بے کس دوشیزائیں سہاگ کو ترستی رہیں،
اُن کے جذبات کا خون ہوتا رہا،
اُن کی جوانیاں برباد ہوتی رہیں،
ان کے گلستانِ شباب میں خزاں آئی اور
سب کچھ اجاڑ گئی، لیکن
میں دیکھتا اور عبادت کرتا رہا۔
میں صلوٰۃ کے تقاضوں سے غافل رہا۔
حقوق العباد میں نے ادا نہیں کیے۔
سوچتا ہوں، میرا انجام کیا ہوگا؟
یہ سوچتا ہوں تو کانپ اٹھتا ہوں۔
——