زبان وبیان اللہ کی ایک عظیم نعمت ہے جس سے انسان کو نوازا گیا ہے اور اس کے ذریعہ تمام مخلوقات پر اسے فضیلت بخشی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلرَّحْمٰنُ۔ عَلَّمَ الْقُرْآنَ۔ خَلَقَ الاِنْسَانَ عَلَّمَہٗ الْبَیَانَ۔ (الرحمن)
’’نہایت مہربان خدا نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے اسی نے انسان کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا۔‘‘
زبان خداکی بہت بڑی نعمت ہے یہ عقل و دماغ کی ترجمان ہے۔ اسی سے انسان اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچاتا ہے اور اسی زبان سے کلام الٰہی پڑھتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے۔ اسی زبان سے وہ اچھی بات کرتا ہے اور یہی بری بات کہہ کر دنیا میں فتنہ و فساد اور انسان کی دنیاوآخرت کی تباہی کا ذریعہ بنتی ہے۔ اگر زبان کی حفاظت کی جائے تو اس سے مفید نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے تو بڑے بڑے فتنے اور لڑائی جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔ جھوٹ، غیبت، بہتان، چغلی، عیب جوئی، نکتہ چینی، طعن و تشنیع اور غلط افواہیں پھیلانا وغیرہ یہ سب گناہ ایسے ہیں جو زبان چلا کر ہی کئے جاتے ہیں۔ اگر انسان صرف زبان کو لگام دے لے تو ان تمام گناہوں سے بچ سکتا ہے۔ اسی لیے قرآن و حدیث میں زبان کی حفاظت کی بڑی تاکید آئی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ’’کوئی بات اس کی زبان پر آتی ہے کہ ایک نگراں (اس کو محفوظ کرنے کے لیے) مستعد رہتا ہے۔‘‘
حضرت سفیانؓ بن عبداللہ ثقفی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کی خدمت میں عرض کیا:’’اے خدا کے رسولؐ مجھے کوئی ایسی بات بتا دیجیے جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’تم کہو کہ میرا پروردگار اللہ ہے پھر اس بات پر قائم رہو۔‘‘ میں نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ آپؐ کے خیال میں کون سی چیز میرے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہے۔‘‘ آپؐ نے اپنی زبان مبارک کو پکڑا اور فرمایا کہ ’’یہ‘‘۔
ایک صحابیؓ رسول ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! مجھے کوئی ایسی بات بتائیے کہ میں آخرت کے عذاب سے محفوظ رہوں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنی زبان کو قابو میں رکھو (یعنی زبان کی حفاظت کرو) فضول باتیں نہ کرو، خلاف شرع اور خلاف عقل کوئی بات نہ نکالو۔‘‘ اور حضرت ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول خدا ﷺ نے فرمایا کہ: ’’انسان ایسا کلمہ کہہ جاتا ہے جس کے نقصان کو نہیں سمجھتا اور اس کی بنا پر دوزخ میں اتنی دور جاگرتا ہے جتنی دوری مشرق و مغرب کے درمیان ہے۔‘‘
رسول کریمﷺ نے فرمایا: ’’سوائے ذکرِ الٰہی کے زیادہ باتیں مت کرو، کیونکہ فضول باتیں کرنے سے دل سخت ہوجاتا ہے، اور سخت دل والا انسان اللہ سے دور ہوجاتا ہے۔‘‘
ایک مرتبہ حضرت عمر فاروقؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے گھر گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیقؓ اپنی زبان کھینچ رہے ہیں حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’اللہ معاف کرے آپؓ یہ کیا کررہے ہیں؟‘‘حضرت ابوبکرؓ نے کہا: ’’یہی زبان ہے جس کی لغزش سے ڈر لگتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جسم کا ہر حصہ زبان کی تیزی کی شکایت کرتا ہے۔ اس لیے میں زبان کو کھینچ رہا ہوں تاکہ اس کی تیزی باقی نہ رہے اور یہ میرے قابو میں رہے۔‘‘ (بیہقی)
اللہ کے پیارے رسول ﷺ نے زبان کی حفاظت پر جنت کی ضمانت دی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’جو شخص اپنی زبان اور شرمگاہ کی حفاظت کی ضمانت دے، میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔‘‘ (بخاری)
زبان کی حفاظت کے تعلق سے خواتین خاص طور پر غیر محتاط واقع ہوئی ہیں۔ ہم عام سماج میں دیکھتے ہیں، تقریبات میں، مجلسوں میں اور ملتے جلتے خواتین جب ایک ساتھ بیٹھتی ہیں تو تھوڑی دیر کے بعد ہی غیر مناسب گفتگو شروع ہوجاتی ہے اور ان کی زبان گناہوں کے راستے پر چلنے لگتی ہے اور اس وقت ہمیں احساس تک نہیں ہوتا کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ غیبت، چغلی، جھوٹ، عیب جوئی، دل آزادی، گالی گلوج، اکثر ہم عورتیں کرتی رہتی ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زبان پر قابو رکھیں، سوچ سمجھ کر بات کیا کریں۔ تمام برائیوں سے لغویات سے اپنی زبان کی حفاظت کریں۔ اللہ کے پیارے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: ’’کسی بندے کا ایمان سیدھا نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کا دل سیدھا نہ ہوجائے اور اس کا دل سیدھا نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی زبان درست نہ ہوجائے۔‘‘ (احمد)