زبان کی حفاظت

صفیہ نسیم

انسان کے اعمال میں… چاہے صالح ہوں یا بد… بنیادی کردار ’’زبان‘‘ کا ہے۔ یہی زبان ہے جس سے کلمۂ توحید کی ادائیگی انسان کی دنیا بدل دیتی ہے، اور اسے خزانۂ اسلام سے بہرہ مند کرتی ہے۔ اور اسی زبان سے اگر کفریہ کلمات ادا کیے جائیں تو انسان گمراہیوں میں بھٹکتا رہ جاتا ہے۔ اس کی حفاظت سے دنیا و آخرت سنورجاتے ہیں اور بداحتیاطی گناہوں کا انبار لگادیتی ہے۔ اسی لیے امیرالمؤمنین حضرت عمرؓ اپنی زبان کو پکڑ پکڑ کر رو رو کر فرمایا کرتے تھے کہ ’’اگر تو قابو میں نہ رہی تو آخرت میں بربادی کا سبب بنے گی۔‘‘
’’زبان‘‘ کی اسی اہمیت کے پیشِ نظر اس کی حفاظت و احتیاط کے متعلق قرآن و سنت میں جابجا احکامات دیے گئے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ ذہن نشین کروادیا گیا ہے کہ ’’جو کچھ یہ الفاظ کی صورت میں بولتے ہیں، اللہ کے مقرر کردہ فرشتے ان کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ لکھتے ہیں۔‘‘ اسی لیے نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’جو شخص اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے، اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘ یعنی ہماری زبان سے جو کلمہ نکلے وہ لغو نہ ہو، بے مقصد نہ ہو۔ لایعنی باتیں چاہے سنجیدگی میں کی جائیں یا مذاق میں، ان سے بچا جائے۔ ہماری گفتگو پاکیزہ، باحیا و بااخلاق ہو۔ اس سلسلے میں نبی کریم ﷺ کی یہ وعد بڑی عبرت انگیز ہے کہ ’’ایک شخص جنت سے ایک قدم کی دوری پر ہوتا ہے مگر وہ اپنی زبان سے کوئی ایسا جملہ کہتا ہے، جس کی وجہ سے وہ جنت سے دور چلا جاتا ہے، جہنم اس کا مقصد بن جاتی ہے اور آخر اس کلمے کی وجہ سے وہ جہنم میں چلا جاتا ہے۔‘‘ (معاذ اللہ) اکثر دیکھا گیا ہے کہ دو مواقع پر زبان فحش کلامی اور بدگوئی کا زیادہ شکار ہوتی ہے، ایک ہنسی مذاق اور دوسرا غصہ و طیش میں۔ ان دونوں انتہاؤں پر اپنے آپ کو اعتدال میں رکھنا اگرچہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں۔ فحش گوئی کو ’’زبان کا زنا‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ گالم گلوچ کرنے والا جماعت المسلمین سے خارج ہے اور بحث و تکرار میں جہالت دکھانے والے سے راستہ جدا کرنے کا حکم ہے۔ ان الفاظ میں کہ ’’کوئی تمہارے منہ کو آئے تو کہو تم کو سلام یا ’’لکم دینکم ولی دین‘‘ (تمہارے لیے تمہارا دین میرے لیے میرا دین)
جہاں زبان کو لغویات، فحش گلامی و بدگوئی اور لایعنی باتوں سے بچانے کا حکم ہے وہیں چرب زبانی کو بھی منع کیا گیا ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے ایسے شخص کو پسند نہیں فرمایا جب فضول گو اور چرب زبان ہو۔ ارشاد ہوا: ’’قیامت کے قریب ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کی گفتگو بڑی ہی شیریں ہوگی۔ ان کی گفتگو سننے والا دنگ رہ جائے گا لیکن ان میں ایمان ذرہ برابر بھی نہیں ہوگا۔‘‘
چرب زبانی کے مقابلے میں زبان کی سادگی، خوش اخلاقی، دل و نیت کے اخلاص پر زور دیا گیا ہے۔ لچھے دار گفتگو، دل کا میلا پن، نیت کا کھوٹ اور قول وعمل کا تضاد رذائلِ اخلاق میں شامل ہے جس سے قطعی طور پر منع فرمایا گیا ہے، کیوں کہ یہ عادات زبان سے ایسے الفاظ نکلواسکتی ہیں جو جنت سے دوری (معاذ اللہ) کا سبب بن جائیں۔ انہی میں غرور و تکبر جیسا مہلک مرض بھی شامل ہے، جس کا حامل انسان اپنی زبان کو جھوٹی شان و فخر جتانے، برتری منوانے اور دوسروں کو ذلیل کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، اور جس کے لیے وعید ہے کہ جس سے غیبت و چغلی، جھوٹ، طعن و طنز، عیب جوئی، بہتان طرازی جیسے گناہ سرزد ہوتے ہیں جو بندوں کے نیک اعمال کی بربادی کا بنیادی سبب ہے، ساتھ ہی یہ اخلاقی خرابیاں نہ صرف ایک خاندان کے افراد کے مابین نفرت کی دیواریں کھڑی کردیتی ہیں بلکہ پورے معاشرے کو نقصان پہنچاتی ہیں۔
جو اچھی زبان رکھتا ہے وہی کامیاب ہے۔ مثل مشہور ہے کہ ’’انسان کا حسن اس کی زبان میں پوشیدہ ہے۔‘‘ یعنی عارض و رخسار کوئی معنی نہیں رکھتے، زبان کی اچھائی اصل و دائمی حسن ہے۔
یہ عام مشاہدہ ہے کہ بات کہنے کے کئی طریقے ہوتے ہیں۔ پھوہڑ اور منہ پھٹ بھی، با ادب و باسلیقہ بھی، باادب و باسلیقہ بھی۔ حالانکہ معنی میں فرق نہیں ہوتا مگر الفاظ اور انداز کا چناؤ اور برتاؤ بڑا اثر رکھتا ہے۔ مشہور واقعہ ہے کہ کسی بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کے تمام دانت ایک ایک کرکے جھڑ رہے ہیں۔ اسے بڑی پریشانی لاحق ہوئی، حکم دیا کہ تعبیر بتانے والے دربار میں حاضر ہوں۔دربار لگا تو سب نے اپنی اپنی رائے پیش کی لیکن تین دانا ایسے تھے جو سرجھکائے بیٹھے تھے۔ بادشاہ ان کی طرف متوجہ ہوا اور ان کی رائے جاننا چاہی۔ ان میں سے دو نے کہا کہ اے بادشاہ تمہارا خواب بڑا منحوس ہے، تمہارے تمام خاندان والے ایک ایک کرکے تمہارے سامنے ہی مرجائیں گے اور تم ان صدمات سے نڈھال ہوکر آخر کارخود بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھوگے۔‘‘ یہ سن کر بادشاہ شدید غصے میں آگیا اور دربانوں کو حکم دیا کہ ان دونوں کو قید خانے میں ڈال دو۔ پھر آخری دانا کی طرف رخ کیا اور کہا:’’تو کیا کہتا ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا: ’’بادشاہ سلامت! آپ کا خواب بڑا بابرکت ہے۔ آپ دیر تک حکمران رہیں گے، خوب لمبی عمر پائیں گے،تمام اہم کام آپ کی آنکھوں کے سامنے ہوں گے اور پھر ایک بھرپور عمر گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوں گے۔‘‘ یہ سن کر بادشاہ خوش بھی ہوا اور مطمئن بھی۔ اس نے اسے خوب انعام و اکرام سے نوازا۔ غور کیا جائے تو دونوں تعبیروں میں کچھ فرق نہ تھا، لیکن عمدہ انداز بہترین الفاظ نے بادشاہ کا دل موہ لیا۔
اسی طرح مبلغین وادعیانِ دین کا اہم ترین وصف بھی یہی ہے کہ ان کی زبان شیریں، عمدہ اور بااخلاق ہو۔ دوسروں کے دل جیت سکے۔ وہ لوگوں کو برا بھلا کہنے یا انھیں ذہنی و جسمانی تکلیف پہنچانے سے دور ہوں تاکہ لوگ ان کی زبان سے نکلی ہوئی باتوں کو وقعت دیں، اس کی طرف راغب ہوں، اور انھیں اپنی بات کہنے اور لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کا موقع ملتا رہے۔
سوال اٹھتا ہے کہ زبان کی حفاظت اور اسے لغویات سے دور رکھنے کا مؤثر ذریعہ کیا ہو؟ اس بارے میں نبی آخر الزماں ﷺ کی رہنمائی موجود ہے۔ فرمایا: ’’تم اللہ کے ذکر کے علاوہ زیادہ کلام نہ کیا کرو، کیوں کہ اللہ کے ذکر کے بغیر دلوں میں سختی پیدا ہوتی ہے۔‘‘
’’ذکر‘‘ وہ راستہ ہے جو اللہ سے قلبی تعلق استوار کرتا ہے۔ تسبیح و تہلیل، تلاوتِ قرآن، نوافل، دعا و التجا کے ذریعے اگر اللہ سے تعلق مضبوط کیا جائے تو دل بار بار غلط کاریوں سے تائب ہوکر اللہ کی طرف پلٹتا ہے۔ لہٰذا کوشش یہ ہونی چاہیے کہ اہتمام اذکار کے ذریعے اپنی زبان کی حفاظت کی جائے تاکہ روزِ قیامت یہ ہماری نجات کا ذریعہ بنے بعینہٖ اس ارشادِ نبوی ﷺ کے : ’’جس نے اپنی زبان کی حفاظت کی، اس نے نجات پائی۔‘‘
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146