کوئی بھی انسان جب اپنی زبان کو بے قابو چھوڑتا ہے تو ہر لمحہ اس کے مفاسد اور اس کی خرابیاں وجود میں آتی رہتی ہیں۔ اس مضمون میں ہم زبان کے چند جرائم اور مفاسد پرروشنی ڈالنے کی کوشش کریں گے۔ تاکہ کسی حد تک ہم ان مفاسد سے بچنے کی کوشش کرسکیں اور اس کے نتیجے میں ایک صالح اور روشن معاشرہ وجود میں آسکے۔
گالی
گالی دینا یاکسی کو برا بھلا کہنا اخلاق رذیلہ میں شمار ہوتاہے۔ دنیا میں بہت سارے ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جوبات بات پر اپنی زبانوں کو گالیوںسے گندا کرتے ہیں۔ مگر ایک باوقار اور بردبار شخص ہمیشہ اس سے اپنی زبان کو محفوظ رکھتاہے۔ اللہ کے رسولؐ نے منافق کی علامات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اذا خاصم فجر ’’جب لڑائی کرے تو فوراً گالی پر اترآئے‘‘
گالی دراصل اپنے مخالف کو کمزور کرنے اور کبھی کبھی اشتعال دلانے کے لیے دی جاتی ہے۔ مگر ایک بندۂ مومن اس بُرے ہتھیار کاکسی بھی صورت میں استعمال کرنے سے گریز کرتا ہے۔ حالاںکہ ردعمل میں اگر وہ بھی کوئی سخت رویہ اختیار کرلے اوربرابری کی حد تک کوئی اقدام کرلے تو اس سے مواخذہ نہیںہوگا۔ قرآن میں ہے:
’’اللہ اس کو پسند نہیں کرتاکہ آدمی بدگوئی پر زبان کھولے، الّا یہ کہ کسی پر ظلم کیاگیا ہو اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔ (مظلوم ہونے کی صورت میںاگرچہ تم کو بدگوئی کاحق ہے) لیکن اگرتم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جائو، یا کم از کم بُرائی سے درگزر کرو تو اللہ (کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ) بڑا معاف کرنے والاہے، (حالانکہ سزا دینے پر) پوری قدرت رکھتا ہے۔‘‘ (النساء:۱۴۸،۱۴۹)
اسی بات کو اللہ کے رسولؐ نے ایک حدیث میںدوسرے انداز میں فرمایا:
’’جب تم میں سے کسی کا روزہ ہوتو وہ نہ گندی گفتگو کرے ، نہ لڑائی جھگڑا کرے، کوئی جھگڑ کرے تو وہ جواب میں کہے میں روزے سے ہوں۔‘‘(بخاری، کتاب الصوم، باب حل یقول، انی صائم اذا شتم)
اس حدیث سے بھی پتا چلتاہے کہ مومن بندہ بھی جواب دے سکتا ہے مگر اعلیٰ اخلاقیات کاتقاضا ہے کہ مومن کسی بھی طرح بلندی سے پستی کی طرف نہ آئے۔ بلکہ اس کے اور اس زبان دراز یا گالی دینے والے کے درمیان واضح فرق نظر آنا چاہیے۔
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:
’’کسی مسلمان کو گالی دینا فسق اور قتل کرنا کفر ہے۔‘‘
ایک حدیث میں آپؐ نے گالی گلوچ کو کبائر میں شمار کیاہے۔
’’حضرت عمرو بن عاص سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا: آدمی کااپنے والدین کو سب وشتم کرنا بڑے گناہوں میں شمار ہوتا ہے۔ صحابہ نے پوچھا: اے اللہ کے رسول ؐ کیاایسا بھی ممکن ہے کہ کوئی اپنے والدین کو گالی دے، آپؐ نے فرمایا: ہاں۔ (وہ اس طرح کہ) وہ کسی کے والد کو گالی دیتاہے جواب میں وہ بھی اسکے والد کو گالی دیتا ہے۔ وہ اس کی ماں کو گالی دیتاہے اور وہ بھی اس کی ماں کو گالی دیتا ہے (توسمجھاجائے گا کہ اس نے خود اپنے والدین کو گالی دے دی)۔‘‘ (مسلم، کتاب الایمان باب الکبائر و اکبرہا، بخاری، کتاب الادب، باب لایسب الرجل والدہ)
کسی پر تہمت لگانا
قرآن مجید میں تہمت کے لیے رمی کالفظ اور حدیث میں قذف کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تہمت دراصل ایک ایسی بات کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی دوسرے شخص کو کسی ایسے جرم اور گناہ کا مجرم قرار دیا جائے جس کاارتکاب اس نے نہ کیاہو۔ شریعت میں یہ ایک گھنائونی حرکت ہے اور اس عمل کے ذریعے ایک انسان دنیا میں اللہ کی طرف سے ذلت اور رسوائی کااور آخرت میں عذاب الیم کا مستحق قرارپاتاہے۔ تہمت لگانے کا مقصد اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتاکہ اس کے ذریعے قاذف (تہمت لگانے والا) مقذوف (جس پر تہمت لگائی گئی ہو) کو معاشرے کے اندر رسوا اور ذلیل کرنا چاہتاہے اور اس کی عزت کو مٹی میں ملانا چاہتا ہے۔ اس عمل کی شدتِ کراہت ہی کی وجہ سے اللہ نے قرآن مجید میںایک سخت قانون وضع کیاہے، تاکہ اس عمل کے مرتکب کوسزادے کر معاشرے کو اس کے ذریعے سے پیدا ہونے والے فسادات سے محفوظ رکھاجائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
’’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر تہمت لگائیں، پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں، تو ان کو اسی ۸۰ کوڑے مارواور ان کی شہادت کبھی قبول نہ کرو اور وہ خود ہی فاسق ہیں۔‘‘ (النور:۴)
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ تہمت تو بہرحال ایک جرم ہے چاہے کسی پر بھی لگائی جائے، مگر اس کی شدت اس وقت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے جب یہ پاک دامن عورتوں پرلگائی جائے۔
ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ نے قاذف کے لیے دنیا اور آخرت کی دونوں سزائوں کو ایک ساتھ جمع کیاہے:
’’جو لوگ پاک دامن ، بے خبر، مومن عورتوں پر تہمتیں لگاتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں لعنت کی گئی اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘ (النور:۲۳)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:
’’اور جس نے کوئی خطا یا گناہ کرکے اس کا الزام کسی بے گناہ پر تھوپ دیا، اس نے تو بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بار سمیٹ لیا۔‘‘ (النساء:۱۱۲)
اللہ کے رسولؐ نے ایک حدیث میں سات ہلاکت خیز چیزوں سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ ان میں ایک یہ بھی ہے کہ کسی پاک دامن مومن اور بے خبر عورت پر تہمت لگائی جائے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب الکبائرو اکبرہا)
تہمت کااطلاق خاص طورپر زنا اور بدکاری کے الزام پر ہوتاہے۔ لیکن اگر دوسرے جرائم اور گناہوں کا الزام لگایاجائے تو وہ بھی اس میں شامل ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا:
’’جس نے کسی مومن کو کفرکی تہمت لگائی یہ ایساہی ہے جیسے اس نے اس کو قتل کردیا۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب، ترمذی، ابواب الایمان)
ایک اور حدیث میں ہے:
’’حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے اباالقاسمؓ کو فرماتے ہوئے سنا، جس نے اپنے غلام پر تہمت لگائی حالاںکہ وہ اس تہمت سے بری ہوتو قیامت کے روز اس (آقا) پر کوڑے مارے جائیںگے الایہ کہ ایسا ہی ہوجیسااس نے کہا۔‘‘ (بخاری، کتاب المحاربین، باب قذف العبید، ترمذی، ابواب البروالصلۃ، باب النھی عن ضرب الخدام و شتم)
غرض تہمت زبان کا ایک ایسا جرم ہے کہ اگر بالفرض دنیا میں اس کی سزا سے انسان بچ بھی جائے تو قیامت کے روز اس کی سزا جہنم کی صورت میں اس کو ضرور ملے گی۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’پاک دامن عورت پر تہمت لگانا ایک سوسال کی عبادت کو ضائع کردیتاہے۔‘‘(عن حذیفہ، تفسیرابن کثیرج۳سورۃ النور، بحوالہ ابن ابی حاتم)
غیبت
کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی اس طرح بیان کرنا، جس سے اس کی اصلاح مقصود نہ ہو، جس کے نتیجے میں اس کی ذلت و رسوائی ہورہی ہو، اسے غیبت کہتے ہیں۔ شریعت میں غیبت کو ایک بڑا جرم قرار دیاگیاہے۔ غیبت کی تعریف اللہ کے رسولؐ نے اس طرح بیان فرمائی ہے:
’’نبیؐ نے صحابہؓ سے پوچھا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ غیبت کسے کہتے ہیں؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسولؐ زیادہ جانتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: غیبت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کاذکر ایسے ڈھنگ سے کرے جو وہ ناپسند کرتا ہو، پھر آپؐ سے پوچھاگیا، اگر وہ بات (عیب)جو میں کہہ رہاہوں میرے بھائی کے اندر پائی جاتی ہوتو؟ آپؐ نے فرمایا۔ اگر وہ بات جو تو کہتاہے اس کے اندر موجود ہوتو یہ غیبت ہوئی اور اگر اس کے اندر وہ بات (عیب) نہیں ہے تو تونے اس پر بہتان لگایا۔‘‘ (مسلم کتاب البر،باب تحریم الغیبۃ، ترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی الغیبۃ)
قرآن کریم میں غیبت اور تہمت کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی گئی ہے۔ اس لیے کہ جس طرح کوئی شخص اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے اور اس کا مردہ بھائی اپنا دفاع نہیں کرسکتا، اسی طرح جس کی غیبت کی جاتی ہے وہ بھی اپنادفاع نہیں کرسکتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھاناپسند کرے گا؟ دیکھو تم خود اس سے گھن کھاتے ہو، اللہ سے ڈرو، اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا اور رحیم ہے۔‘‘ (الحجرات:۱۲)
ایک حدیث میں غیبت کو زنا سے زیادہ سنگین قرار دیاگیاہے۔ فرمایاگیا:
’’غیبت زنا سے سخت تر گناہ ہے، لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسولؐ غیبت زنا سے سخت گناہ کیوںکر ہے؟ آپؐ نے فرمایاکہ آدمی زنا کرتاہے تو پھر توبہ کرتاہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرتاہے لیکن غیبت کرنے والے کو معاف نہیں کرے گا جب تک وہ شخص اس کو معاف نہ کردے جس کی غیبت کی گئی ہے۔‘‘ (راہِ عمل،ص۱۶۶)
چغلی
چغلی کھانابھی زبان کاایک بدترین اور قبیح عیب ہے، جس کی وجہ سے ایک صحیح سالم معاشرے کے افراد ایک دوسرے سے بدظن ہوجاتے ہیں، ایک دوسرے پر سے اعتماد اٹھتا ہے، جس کی وجہ سے معاشرے کی اخلاقی ترقی رک جاتی ہے۔ چغلی یہ ہے کہ کسی کی ایسی بات کو دوسرے ایسے شخص کے ہاں پہنچانا جس کو سن کر وہ اس سے بدگمان اور ناراض ہوجائے اور ان کے باہمی تعلقات خراب ہوجائیں۔ جب کہ اسلام صلح و صفائی اور آپس میں مضبوط رشتے کی تعلیم دیتاہے۔ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے:
’’حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسولؐ کو فرماتے ہوئے سنا: چغل خور جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘(بخاری، کتاب الادب، باب مایکرہ من النمیمۃ)
روایات میں آیاہے کہ دو اشخاص کو محض عذاب قبرمیں مبتلا ہونا پڑاکہ ان میں ایک آدمی پیشاب کی چھینٹوںسے نہیںبچتاتھااور دوسرا لوگوں کے سامنے دوسروں کی چغلی کھاتاتھا۔ ایک روایت میں آیاہے :
’’رشتوں کو کاٹنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب، باب اثم القاطع)
جھوٹ
حقیقت کے خلاف کوئی کلام کرنا جھوٹ کہلاتاہے۔ یہ منافقانہ صفت ہے اور ایک سچا مومن اس خصلت سے اپنے آپ کو ہمیشہ دور رکھتاہے۔ اللہ کے رسولؐ نے ارشاد فرمایا:
’’ابوامامہؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے سولؐ نے فرمایا: ’’مومن کی طبیعت میں ہر عادت و خصلت کاامکان ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے۔‘‘ (مسند احمد)
اور یہ منافق کی علامت بتائی گئی ہے:
’’جب وہ بولے تو جھوٹ بولے اور اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔‘‘
طنز اور عیب جوئی
طنز اور عیب جوئی کرنا بھی ایک بدترین لسانی خرابی ہے۔ اس لیے ایک مومن کو چاہیے کہ وہ حتی المقدور دوسروں پر طنز کرنے اور ان کے عیب ٹٹول کر بیان کرنے سے باز رہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کی تمام نیکیاں برباد کرکے اسے جہنم کے اندر گرادے گا۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کی ہلاکت کی بشارت دیتاہے:
’’تباہی ہے ہر اس شخص کے لیے جو لوگوں پر طنز اور بُرائیوں کا خوگر ہے۔‘‘
اللہ کے رسولؐ کو ان تمام لوگوں کی اطاعت سے منع فرمایاگیاجن کے اندر یہ عیوب ہوں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’ہرگز نہ دبو کسی ایسے شخص سے جو بہت قسمیں کھانے والا، بے وقعت آدمی ہے، طعنے دیتا ہے، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے، بھلائی سے روکتا ہے، ظلم و زیادتی میں حد سے گزرجانے والا ہوتاہے، سخت بداعمال ہے، جفاکار ہے، اور ان سب عیوب کے ساتھ بداصل ہے۔‘‘ (القلم:۱۰-۱۳)
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعے پر منافقوں کو بلند آواز سے خطاب فرمایا:
’’اے افراد جماعت! جو زبان سے مسلم ہو اور ایمان دل میں داخل نہیں ہوا، تم مسلمانوں کو ایذا نہ دو، ان پر طنز نہ کرو اور ان کے چھپے ہوئے عیبوںکی ٹوہ میں نہ لگے رہو۔ جو شخص اپنے مسلمان بھائی کے عیب کی تلاش میں رہے گا اللہ تعالیٰ اس کا بھانڈا پھوڑدے گا، اللہ تعالیٰ جس کی برائیوں کا پردہ چاک کرتاہے، اسے بے عزت اور رسوا کرتاہے، چاہے وہ اپنے گھر کے اندر (خلوت میں)برائی کررہاہو۔‘‘ (ترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی تعظیم المومن، عن ابی عمر)
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ایک آیت میں مختلف لسانی عیوب کی نشاندہی فرماکر مومنوں کو ان سے باز رہنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا:
’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتاہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں۔ آپس میںایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو، ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے۔ جو لوگ اس روش سے بازنہ آجائیں، وہ ظالم ہیں۔‘‘ (الحجرات:۱۱)
مندرجہ بالا آیت کریمہ میں تمام لسانی عیوب کو گناکر آخر میں فرمایاگیاکہ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیداکرنا بہت بری بات ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ یہ تمام عیوب ایک فاسق شخص کے اندرہی ہوسکتے ہیں۔ اس لیے کہ ایمان کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ مومن کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلم محفوظ اور مامون رہیں۔
——