[بوڑھے مفکروں کے اقوال تو آپ پڑھتے ہی ہیں آج ذرا ننھے مفکروں کے اقوال پڑھیں اور لطف اٹھائیں]
عموماً اقوال زریں کسی مشہور اور بلند پایہ شخصیت سے منسوب ہوتے ہیں۔ اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ ہم اس شخص سے اتنے متاثر ہوتے ہیں کہ اس کا ہر قول اور عمل قابل تحسین معلوم ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے ارد گرد عام لوگوں کی گفتگو کو بغور سنیں تو اکثر نہایت فکر انگیز اور قابل قدر الفاظ سننے میں آتے ہیں۔ اسی طرح اکثر بچے اپنے سارے الفاظ میں ایسی پتے کی باتیں کہہ جاتے ہیں جو حیران کن ہوتی ہیں۔ میں نے اکثر ایسے الفاظ کا مشاہدہ کیا ہے جو مختلف اوقات میں بچوں نے بڑی معصومیت اور سادگی سے ادا کیے، ایسے ہی چند اقوال زریں پیش ہیں۔
کچھ عرصہ پیشتر میں اپنے ایک قریبی عزیز سے ملنے گیا۔ جب ہم لوگ باتیں کر رہے تھے تو ان کی پانچ سالہ پیاری سی بیٹی نعیمہ اپنا پرس ہلاتی ہوئی آئی اور میری گود میں بیٹھ کر اپنی گڑیا کی شادی کا قصہ سنانے لگی۔ باتوں ہی باتوں میں نے کہا:
’’بیٹی! اگر تم ہمیں پچاس تک گنتی سنا دو تو تمہیں پچاس روپے انعام ملیں گے۔‘‘ اس نے فٹافٹ پچاس تک گنتی سنائی اور پچاس روپے کا انعام اپنے چمکیلے پرس میں رکھ کر چلی گئی۔ کچھ دیر بعد پھر پرس گھماتی ہوئی آگئی اور مجھ سے کہنے لگی۔
’’انکل… انکل… ویسے مجھے گنتی ’’ہنڈرڈ‘‘ تک آتی ہے۔ اب غور فرمائیں مزید انعام حاصل کرنے کا اس سے زیادہ خوب صورت انداز بھلا ممکن ہے؟
ایک اور واقعہ یوں ہے۔ میرے نواسے اور پوتے امان اور ایان جو بالترتیب چار اور پانچ سال کے ہیں، اپنے موبائل پلاسٹک کے کھلونوں سے کھیل رہے تھے۔ دونوں کے ہاتھ میں ننھے سے موبائل تھے، جن میں بیٹری سے روشنی ہوتی تھی۔ امان میاں نے اپنا موبائل جیب میں رکھ لیا تھا، اور ایان کے موبائل سے کھیل رہے تھے، جو ایان سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ آگے بڑھے اور اپنا موبائل چھینتے ہوئے بولے۔
’’امان میلا بائیل (میرا موبائل) دو بلینس فش ہوجائے گا۔‘‘ حیرت ہے کہ انھوں نے لفظ بیلنس اپنے ارد گرد سنا اور اس کا کیسا خوب صورت اظہار کیا۔
ہمارے دوست انور علوی صاحب سنا رہے تھے کہ ایک دن وہ ٹی وی پرپارلیمنٹ کی کارروائی دیکھ رہے تھے اور ان کے سات سالہ صاحب زادے کامران قالین پر بیٹھے پہلو بدل رہے تھے کہ یہ پروگرام ختم ہو اور وہ اپنا پسندیدہ کارٹون دیکھ سکیں۔ کچھ دیر بعد کامران بولا۔
’’ڈیڈی یہ کون سا پروگرام آپ دیکھ رہے ہیں؟‘‘
’’بیٹا! یہ ملک کی پارلیمنٹ کا اجلاس ہو رہا ہے۔‘‘
’’ڈیڈی یہ کون لوگ ہیں؟‘‘
’’بیٹا! یہ ملک کے بڑے بڑے لوگ ہیں، جو حکومت کرتے ہیں۔‘‘
’’پر ڈیڈی! یہ بڑے بڑے لوگ بچوں کی طرح لڑکیوں رہے ہیں؟‘‘
ایک اور ننھے فلاسفر کا اظہارِ خیال کا نمونہ ملاحظہ فرمائیں۔
’’ممبی اچھے بچے جھوٹ نہیں بولتے ہیں؟‘‘
’’ہاں بیٹا!‘‘
’’اور بڑے لوگ؟‘‘
’’ہاں بیٹا! بڑے لوگوں کو بھی جھوٹ نہیں ولنا چاہیے۔‘‘
’’لیکن کل جب ڈیڈی ڈرائنگ روم میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے اور عرفان انکل ان سے ملنے آئے تو انھوں نے عنایت خان سے یہ کیوں کہلوایا کہ وہ گھر پر نہیں ہیں؟‘‘
دو ننھے بچوں کے مکالمے پر غور کریں۔
چھ سالہ بھائی اور سات سالہ بہن نہایت ذہین ہونے کے باوجود پڑھائی کی طرف بالکل دھیان نہیں دیتے تھے۔ اس کے علاوہ ان کی شرارتوں سے بھی والدین نالاں تھے۔ ان کی کوچنگ کے لیے جو بھی ٹیچر رکھا جاتا وہ کچھ دن بعد معذرت کر کے چلا جاتا کہ ان بچوں کو قابو کرنا ناممکن ہے۔ ایک ٹیچر تشریف لائے جو ماہر نفسیات بھی تھے۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ان بچوں کو سدھار لیں گے۔ پہلے دن جب نئے ٹیچر تشریف لائے تو بچوں سے تعارف کے بعد وہ نہایت دوستانہ لہجے میں مخاطب ہوئے۔
’’بھئی بچو یہ پڑھائی وڑاھائی چھوڑو۔ کتابیں ایک طرف رکھ دو۔ چلیں میں آپ کو ایک لطیفہ سناتا ہوں۔
’’ماں: بیٹا دیکھنا ڈرائنگ روم میں کون رو رہا ہے؟‘‘
بیٹا: ’’ابو اپنے دوستوں کو گانا سنا رہے ہیں۔‘‘
لطیفہ سنا کر ٹیچر صاحب نے خود ہی قہقہہ لگایا جب کہ دونوں بچے اسی طرح منہ لٹکائے سنجیدگی سے بیٹھے رہے۔ ٹیچر کھسیانے ہوکر جیب سے کچھ ٹافیاں نکال کر کہنے لگے۔
’’اچھا یہ لیجیے۔ یہ پانچ ٹافی ننھے میاں آپ کی اور یہ پانچ سنی کی۔ اچھا بتائیں اب آپ دونوں کے پاس کتنی ٹافیاں ہوگئیں؟‘‘
دونوں بچوں نے ٹافیاں اٹھا کر اپنی اپنی جیبوں میں رکھ لیں اور بھائی نے چپکے سے بہن کے کان میں کہا۔
’’سنی! ہوشیار ہوجائییـ۔ ٹیچر ہمیں کھیل کھیل میں جمع کے سوالات سکھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
کافی پرانی بات ہے جب وی سی آر نیانیا متعارف ہوا تھا۔ میں او ربیگم ٹی وی لاؤنج میں فلم د یکھ رہے تھے۔ فلم معقول سی تھی البتہ ایک سین کچھ نامناسب سا تھا جو ایک گانے کے بعد آتا تھا۔ میرا بیٹا اور بیٹی بھی اس وقت غالباً بالترتیب نو اور چھ سال کے تھے قالین پر بیٹھے وہ فلم دیکھ رہے تھے۔ جب وہ متعلقہ گانا ختم ہونے والا تھا ہماری بیگم بچوں کہنے لگیں۔ جاؤ بیٹا آپ دونوں ٹیرس پر جاکر کھیلو۔ ایک بار پھر کچھ ایسا ہی اتفاق ہوا۔ تیسری بار جب کچھ مہمان آئے ہوئے تھے تو اسی فلم کی فرمائش ہوئی۔ وہ فلم چلتی رہی اور وہی گانا ختم ہوا اور وہی کچھ نامناسب سین بھی آیا۔ ہم لوگ باتوں میں مشغول تھے اور بچوں کی موجودگی کا خیال نہ رہا۔ اس وقت ہمارے بیٹے فیصل قالین پر لیٹے لیٹے کہنے لگے۔ ’’امی کیا ہم جائیں ٹیرس پر؟‘‘lll