آنکھیں پھیلا کر ہاتھ نچا کر جب بھابی نے کہا: ’’یہ لمبے لمبے دفتر آتے ہیں لفافوں میں بند ہوکر‘‘ تومجھے یقین نہ آسکا، یقین آنے کی بات بھی تو ہوتی۔
میرے سامنے سعیدہ کا مرجھایا ہوا چہرہ آگیا۔ گہرے سانولے رنگ پر چیچک کے داغ طرفہ ستم تھے۔ آنکھیں بڑی بڑی ضرور تھیں مگر دلکشی سے خالی۔ لمبی تڑنگی، سوکھے بانس جیسی، بھلا ایسے سے بھی کوئی محبت کرسکتا تھا۔ اُس کے پاس یہ ’’لمبے لمبے دفتر‘‘ کے آنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا۔
’’پرلے سرے کی جھوٹی ہیں بھابی!‘‘ میں نے سوچا۔ اسی قابل ہوتی سعیدہ تو اب تک کنواری ہی بیٹھی ہوتی؟
پچیس چھبیس کا سن ہونے کو آیا تھا سعیدہ کا۔ مگربر نہ جڑنا تھا، نہ جڑا، بیچاری سلطانی خالہ حیران و پریشان پھرا کرتیں۔
’’ہائے! کیا زمانہ آگیا ہے۔ اس سے بہتر تو وہی زمانہ تھا جب لڑکیاں سات پردوں میں چھپا کر رکھی جاتی تھیں۔ مرد تو دور رہے، عورتوں تک سے پردہ ہوتا تھا۔ کیسے مزے سے ہر لڑکی کا بیاہ ہوجایا کرتا تھا۔ کیسی ہی کانی کھتری کیوں نہ ہوتی۔
اب کے زمانے کی طرح تھوڑے ہی کہ پہلا سوال لڑکی دیکھنے کا ہوتا ہے۔ جیسے صورت ہی ساری اہمیت رکھتی ہے۔ سیرت اور مزاج کوئی چیز ہی نہ ہو۔ اب بھلا ہر لڑکی حور کیسے بن جائے؟
جب سعیدہ کے ابا زندہ تھے تو ایک آدھ بار نسبتیں آئیں بھی، لیکن وہ نسبتیں سلطانی خالہ کو نہ جچیں، جچتیں بھی کیسے؟ کوئی بیڑی بنانے والا تھا، تو کسی کی سائیکل مرمت کی دکان تھی۔ اس پر سب مڈل پاس بھی نہ تھے۔ جبکہ سعیدہ آٹھویں درجے کا امتحان (تھرڈ ڈویژن ہی میں سہی) پاس کرچکی تھی۔
پھر سعیدہ لاکھ بدصورت سہی، سلطانی خالہ کو تھوڑی ہی بری لگتی تھی۔ کتنے چاؤ سے وہ انگلش پڑھوا رہی تھیں سعیدہ کو۔ وہ تو اپنی بیٹی کا بیاہ کسی بی اے پاس سے کریں گی! یہ سائیکل مرمت کرنے والے اور بیڑی بنانے والے سلطانی خالہ کو پھوٹی آنکھ نہ بھاتے۔ اس پر طرہ یہ ہوتا کہ کسی کی نانی بدکردار نکل آئی تو کسی کی دادی بداخلاق، پھر تو سلطانی خالہ یہ لمبے لمبے ہاتھ پھیلا کر نسبت لگانے والوں کو سمیٹتیں۔
’’میری ہی لڑکی رہ گئی تھی۔ ارے مشتاق کی نانی رنڈی تھی، رنڈی۔ اور سلیم؟ سلیم کی دادی سے اس کے دادا نے نکاح ہی نہیں کیاتھا۔ کنویں میں دھکا دے دوں، مگر ایسے گھر نہ بھیجوں سعیدہ کو۔ بھاگ بھری بیٹھی ہے۔ میری سعیدہ ، کیا اسے بر جڑے گا ہی نہیں؟‘‘
اور بیچاری سعیدہ بھاگ بھری بیٹھی رہ گئی۔ ابا مر بھی گئے اور بھیا کو بھلا کیا پروا ہوتی۔ وہ تو ابا کی زندگی ہی میں شادی کرکراکے الگ ہو بیٹھے تھے۔ جیسے سعیدہ اًن کی بہن ہی نہ ہو۔
اب تو سلطانی خالہ کی سٹّی بٹّی گم ہوئی۔ ادھر ادھر ڈورے چھوڑ، رسّے ڈالے، لیکن لڑکے پھسلتی مچھلیوں کی طرح یوں ہاتھ سے نکل جاتے کہ سلطانی خالہ منہ تکتی رہ جاتیں۔
موٹر سائیکل، ٹی وی اور فریج کی فرمائش ہی جان لیوا ثابت ہوتی تھی۔ اس پر لڑکی کو دیکھ بھال کر تو قصہ ہی ختم ہوجاتا تھا۔ اب تو سلطانی خالہ ایسی گھبرا گئی تھیں کہ کوئی جھلی ڈھونے والا بھی مل جاتا تو اس کو سعیدہ کا ہاتھ تھمادیتیں۔
اس صورت میں بھلا مجھے کیسے یقین آتا کہ سعیدہ کے پاس ’’دفتر کے دفتر‘‘ آتے ہیں لفافوں میں بندہوکر، لیکن یقین کرلینا ہی پڑا، جب سعیدہ نے خود ہی شرما شرما کر بتایا۔
’’ہاں جی بِلّو! وہ بڑے، اچھے ہیں۔ کہتے ہیں، جہیز میں پھوٹی کوڑی بھی نہ لیں گے۔‘‘ اور خوشی سے اس کا سانولا چہرہ دہکتے توے سا لال ہورہا تھا۔
میں نے اطمینان کی گہری سانس لی۔ اطمینان کی تو بات ہی تھی۔ کہتے ہیں بارہویں برس پر تو گھورے کے دن پھر جاتے ہیں۔ سعیدہ نے تو زندگی کے چھبیس سال گزار دیے تھے۔
ہاشم متوسط گھرانے کا لڑکا تھا۔ ہوسٹل میں جگہ نہ ملنے کی وجہ سے سعیدہ کے مکان کی ایک کوٹھڑی میں کرایہ دار کی حیثیت سے رہتا تھا۔ یوں سعیدہ نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ ہاشم اسے کبھی پسند کرسکتا تھا۔ اچھا خاصا، قبول صورت، بی اے کا اسٹوڈنٹ بھلا اُسے کوئی لڑکی نہ جڑتی! لیکن وہ اِن خطوط کو کیسے جھٹلاتی، جن کے لفظ لفظ سے محبت کی خوشبو امنڈ امنڈ کر آتی ملتی۔
وہ اپنے ہر خط میں محبت کے بلند بانگ دعوے کرتا۔ اور پرزور الفاظ میں کرتا کہ صورت سے محبت تھوڑے ہی ہوتی ہے۔ اس نے تو سعیدہ کی معصوم روح سے محبت کی تھی!
ہاشم کا ایک ایک لفظ سعیدہ کی روح کی گہرائیوں میں اترتا چلا جاتا، وہ خوشی سے پھولی نہ سماتی۔ جب ہاشم کالج چلا جاتا تو سلطانی خالہ سے چھپ چھپ کر اس کے کمرے میں جھاڑو دیتی، اس کے گندے کپڑے دھوڈالتی، جوتوں پر پالش کرتی، سڑے بسے موزے تک دھو ڈالتی اور روز ہی ماں سے چھپے چوری کچھ نہ کچھ پکا کر اُس کے کمرے میں رکھ آتی۔ پھر بے چینی سے ہاشم کے خط کا انتظار کرنے لگتی، جو اُسے ہمیشہ پیپرویٹ کے نیچے دباہاشم کے کمرے میں مل جاتا تھا۔
اُس خط کا ایک ایک حرف روح پرور ہوتا۔ سعیدہ کی من کی بغیا میں ہر طرف پھول ہی پھول کھل جاتے۔ اس خط میں سعیدہ کے سلیقے کی، کھانا پکانے کی اتنی تعریف ہوتی کہ دوسرے دن سعیدہ پھر نہ جانے کتنے جتن سے جمع کیے پیسوں سے سوجی منگاتی، گھی آتا، حلوہ بنتا اور چپکے سے ہاشم کے کمرے میں رکھ دیا جاتا۔
خالہ سلطانی اپنے دکھڑے دھندے میں لگی رہتی تھیں۔ گھر میں جو کچھ ہورہا تھا، اس کی انھیں خبر تک نہ تھی۔لیکن عشق اور مشک بھی کہیں چھپائے چھپے ہیں؟ سعیدہ بھی ایک روز پکڑی گئی اور وہ بھی رنگے ہاتھوں۔ ہوا یہ کہ شروع جاڑوں کے دن تھے، جب ہاشم نے نہایت محبت بھرے انداز میں سعیدہ سے سوئٹر بن دینے کی التجا کی۔ اون لاکر اس نے کمرے میں رکھ دی، اور سعیدہ سوئٹر بننے میں جٹ گئی۔ چھپ چھپ کر سوئٹر بنا جانے لگا۔ رات کو جب سلطانی خالہ سوجاتیں تو سعیدہ پرلی طرف کے برآمدے میں چلی جاتی اور رات گئے تک سوئٹر بنتی رہتی۔
لیکن ایک دن یہ راز فاش ہوگیا۔ سوتے سوتے جو سلطانی خالہ کی آنکھ کھلی تو کمرے میں اندھیرا دیکھ کر اُن کا دم ہی سوکھ گیا۔ بکس کے کونے کھدرے میں چھپا کے رکھے ہوئے زیورات نگاہوں کے سامنے پھر گئے، جو سعیدہ کے جہیز میں دینے کے لیے نہ جانے کتنے جتن سے بچا کر رکھے گئے تھے۔ چور کے خیال سے وہ ایسی بدحواس ہوئیں کہ ڈر بھی دل سے نکل گیا۔ ہڑبڑا کر اٹھیں اور دبے پاؤں ٹٹولتی باہر نکلیں اور یہ دیکھ کر حیران کھڑی رہی گئیں کہ لالٹین کی مدھم روشنی میں سعیدہ سلائیاں سنبھالے انہماک سے بن رہی تھی۔
وہ دیر تک سانس روکے کھڑی رہیں۔ اُن کی سمجھ میں یہ معاملہ نہیں آرہا تھا کہ سعیدہ یوں چھپ کر کس کا سوئٹر بن رہی تھی۔ آخر رہا نہ گیا تو کہہ اٹھیں: ’’سعیدہ!‘‘
سعیدہ پر جیسے بجلی گر پڑی۔ پھر ماں کی چھاتی سے لپٹ کر، آنسوؤں کے درمیان اُس نے اپنی ساری کہانی انھیں سنادی۔
سلطانی خالہ ہکا بکا کھڑی رہ گئیں۔ آہستہ آہستہ ہوش بجا ہوئے تو معاملہ سمجھ میں آگیا۔ سوچ بچار کرنے پر انھیں سب کچھ اچھا ہی لگا۔ واقعی خدا بڑا کارساز ہے۔ یہ برتو انھیں گویا خدا کی طرف سے مل رہا تھا۔ یہ سب کچھ سوچ کر انھوں نے دو رکعت نماز شکرانے کی ادا کی اور سلطانی خالہ نے نہ جانے کب کا جمع جتھا نکال کر جہیز جمع کرنا شروع کردیا تھا۔ دن ہی کتنے رہ گئے تھے۔ بی اے کے امتحانات ہورہے تھے۔ اسی لیے سلطانی خالہ نے جہیز کا سامان جمع کرنا شروع کردیا تھا۔
دوپہر بہت اداس تھی۔ میرا جی بولانے لگا۔ سوچا، چلو سعیدہ کے گھر چلیں۔ وہاں کچھ دل بہلے گا، انگنائیاں پھلانگ پھلانگ کر سعیدہ کی صحنچی میں قدم رکھا تو بالکل سناٹا پایا۔
یہاں وہاں سعیدہ کی کاپیاں، کتابیں بکھری پڑی تھیں۔الگنی پر آدھا لچکا ٹنکا دوپٹہ لٹک رہا تھا۔ ادھر ادھر دیکھا کوئی نظر نہ آیا تو آواز دی۔
سلطانی خالہ کمرے سے نکل کر آئیں۔ دبلا پتلا چہرہ، سوجا سوجا سا تھا۔ آنکھیں لال سرخ ہورہی تھیں۔ گھبرا کر پوچھا : ’’کیا بات ہے خالہ؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟‘‘
جواب میں سلطانی خالہ کی سسکیاں پھوٹ پڑیں۔ گھٹنوں میں منہ دیے وہ زمین پر ہی بیٹھ گئیں۔
میں نے گھبرا کر پوچھا: ’’خیریت تو ہے؟‘‘
’’خیرت کہاں بیٹی۔‘‘ وہ پھپک کر رونے لگیں۔ ’’ہاشم تو چلا گیا بیٹی، اور لکھ کر بھیج دیا ہے کہ اگر وہ غیر شادی شدہ ہوتا تو ضرور سعیدہ سے شادی کرتا لیکن وہ تو دو بچوں کا …‘‘ اُن کی آواز شدتِ گریہ سے رک گئی۔
میں سناٹے میں آگئی۔
’’ارے یہ سب کچھ کیا ہوگیا ؟ یہ … یہ سب ناٹک کیوں رچا تھا ہاشم نے؟ سعیدہ کہاں ہے؟‘‘ میں نے اپنے اوپر قابو پانے کی کوشش کی۔
’’وہ تو بیٹھی ہے کلموہی کوٹھڑی میں۔ موت بھی نہیں آتی نامراد کو، ہائے کتنی بدنامی ہوئی؟‘‘ وہ پھر سسکنے لگیں۔
ڈگمگاتے پیروں سے چکراتے، سر کو تھامتے ہوئے میں سعیدہ کی کوٹھڑی میں چلی گئی، کتنی ارزاں ہے ہماری صنف، نہ جانے خدا نے ہمیں کیوں پیدا کیا؟ مردوں کا کھلونا بننے کے لیے، روندنے اور کچلے جانے کے لیے؟ نہ جانے ایسی کتنی باتیں طوفان بن کر میرے وجود کو تباہ کیے جارہی تھیں۔
لیکن سعیدہ کی آنکھوں میں ایک بھی آنسو نہ تھا۔ میں اس سے لپٹ گئی۔ شدتِ جذبات سے میں خود سسکیاں لے رہی تھی۔ سعیدہ نے مجھے مضبوط ہاتھوں سے الگ کیا۔ اس کی آنکھیں ایک نامعلوم جذبے سے مشعل کی طرح جل رہی تھیں۔ میں اسے ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے لگی۔
’’اب کیا ہوگا سعیدہ؟‘‘ میں نے سرسراتے لہجے میں پوچھا ’’ہائے کیسی بدنامی ہوگئی مفت میں! اب تمہاری شادی کیسے ہوگی؟‘‘
’’سنو بلو!‘‘ اس نے ٹھیرے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا: ’’میں نے فیصلہ کرلیا ہے کہ اب خود کو کھلونا بننے نہ دوں گی۔ اب میں نے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ میں نے سوچا ہے کہ سلائی کی ٹریننگ دینے والے اسکول میں داخلہ لے لوں گی۔ اس کے بعد خدا مالک ہے۔ کچھ نہ کچھ، کہیں نہ کہیں کام مل ہی جائے گا، تب میں اپنی بوڑھی ماں اور چھوٹے بھائی کی کچھ مدد بھی کرسکوں گی، سوچونا، آخر ہمارا بیاہا جانا ایسا ضروری تو نہیں ۔ میں بدصورت ہوں مجھے کوئی پسند نہیں کرتا، تو میں بھی کسی کے گلے کا زبردستی پھندا بننا نہیں چاہتی۔‘‘
اس نے میری آنسو بھری آنکھوں میں اپنی روشن آنکھوں سے جھانکا۔ میں حیرت زدہ سی اسے دیکھتی رہی۔ باہر سے سلطانی خالہ کی سسکیوں کی آواز آرہی تھی لیکن سعیدہ بالکل بے پروا کھڑی تھی۔
مجھے یقین ہوگیا کہ اب وہ اپنے ماحول کی ہر مخالفت برداشت کرلے گی۔ میں نے اپنی آنکھیں رگڑ کر پونچھ ڈالیں اور سلطانی خالہ کو سمجھانے باہر کی طرف چل دی۔
——